آبادی میں اضافہ، پاکستان مانع حمل تدابیر کی شرح بڑھانے میں ناکام
وصال یوسفزئی
متعدد بیماریوں میں مبتلا 30 سالہ بخت بی بی جب علاج کیلئے شہر پشاور کے ایک ڈاکٹر کے پاس گئیں تو یہ جان کر حیران رہ گئیں کہ ایک بار پھر وہ امید سے ہیں۔
اگرچہ سب بخت بی بی کو مبارک باد دینے لگے لیکن خود ان کیلئے یہ اچھی خبر ہرگز نہیں تھی، صحت کے مسائل سے دوچار بخت بی بی ایک اور بچہ پیدا کرنے کی حالت میں نہیں تھیں لیکن دیگر ہزاروں پاکستانی خواتین کی طرح اس معاملے میں کچھ کہہ بھی نہیں سکتی تھیں۔
بخت بی بی کے مطابق انہوں نے اپنے خاوند کو خاندانی منصوبہ بندی کا مشورہ دیا لیکن شوہر نے یہ کہتے ہوئے ان کی تجویز نظرانداز کر دی کہ ڈاکٹر لوگوں کا وقت ضائع کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ جولائی 2012 میں لندن میں خاندانی منصوبہ بندی کے موضوع پر منعقدہ کانفرنس میں حکومت پاکستان نے مانع حمل طریقوں کے استعمال کی شرح 34 سے بڑھا کر 55 فیصد تک لانے کا وعدہ کیا تھا جو بوجوہ پورا نہ ہو سکا۔
ٹارگٹ کے حصول میں ناکامی پر حکومت نے2017 میں ایک بار پھر وہی وعدہ کیا لیکن بدقسمتی سے ابھی تک اس حوالے سے کوئی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔
2017 کی قومی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی 22 کروڑ سے زائد ہے جبکہ خیبر ختونخوا کی آبادی 3 کروڑ 52 لاکھ ہے۔
رہنما فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن کے چیف ایگزیکٹو آفیسر سید کمال شاہ کے مطابق مانع حمل کی شرح 55 تک لانے کیلئے پاکستان کو ہر سال 13 ملین ڈالر کی متلقہ درآمدات کرنا ہوں گی جبکہ 2020 کے اختتام تک یہ اخراجات 35 ملین ڈالرز تک پہنچ جائیں گے۔
واضح رہے کہ بی بی سی میں 2012 ہی میں شائع ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ مانع حمل تدابیر دنیا بھر میں ہر سال ڈھائی لاکھ خواتین کی جان بچانے کا باعث بنتی ہیں اور ایسی ادویات اور طریقوں تک پہنچ آسان بنانے سے دنیا میں ماؤں کی ہلاکتوں کی شرح میں ایک تہائی کمی ممکن ہے۔
امریکی محققین کے مطابق مانع حمل تدابیر بنیادی طور پر ترقی پذیر ممالک کی ان خواتین کے لیے فائدہ مند ہیں جو حمل یا پھر اسقاطِ حمل کے دوران طبی پیچیدگیوں کا شکار ہو جاتی ہیں۔
تحقیق میں کہا گیا کہ ترقی پذیر ممالک کی وہ تمام خواتین جو حاملہ نہیں ہونا چاہتیں، ایک مؤثر مانع حمل طریقہ استعمال کریں تو ماؤں کی ہلاکتوں میں مزید تیس فیصد کمی ممکن ہے۔
یہ بھی خیال رہے کہ دنیا کی آبادی سات ارب سے زائد ہو چکی ہے اور اندازوں کے مطابق 2050 میں دنیا کی آبادی نو ارب جبکہ 2100 میں دس ارب سے زائد ہو گی۔