‘ 35 برس قبل میری وجہ سے میرے والد مسجد سے نکالے گئے تھے’
خالدہ نیاز
‘محلے کی مسجد میں 15 سے 20 لوگ باجماعت نماز کے لئے جمع تھے کہ اس دوران امام مسجد نے ایک ادھیڑ عمر شخص کو ان کے پیچھے نماز ادا کرنے سے روک دیا اور کہا کہ جن لوگوں کی بیٹیاں شوبز میں جائیں وہ لوگ براہ مہربانی مسجد ہی نہ آئیں تو بہتر ہے۔’
یہ واقعہ 1985 میں صوابی کے ایک چھوٹے سے گاؤں کوٹہ میں پیش آیا جب گاؤں کی ایک لڑکی ساری فرسودہ روایات کو پس پشت ڈال کر اپنے شوق کی خاطر ڈرامہ انڈسٹری میں وارد ہوئی تو نہ صرف امام مسجد بلکہ ہمسایوں اور یہاں تک کہ بعض رشتہ داروں نے بھی اس خاندان سے سارے رشتے ناطے توڑ دیئے۔
وہ لڑکی آج نہ صرف پشتو ڈراموں کی سب سے کامیاب اداکارہ بلکہ سٹیج اور ٹی وی مارننگ شوز میں نت نئے آئیڈیاز لانے والی میزبان کے طور پر بھی جانی جاتی ہے، ان کے لاکھوں میں فینز ہیں۔
یہ کہانی شازمہ حلیم کی ہے جو اب چھوٹی سکرین پر ہیروئن کے کردار کی بجائے بسااوقات ماں کا کردار کرتیں نظر آتی ہیں۔ شازمہ حلیم حقیقی زندگی میں بھی دو بچوں کی ماں ہیں لیکن انہیں 35 برس قبل کے سارے واقعات اور ان کے والدین کے ساتھ لوگوں کا برتاؤ اب بھی یاد ہے، کہتی ہیں کہ یہی یادداشتیں ان کی کامیابی کے اصل محرکات ہیں۔
ٹی این این کے ساتھ انٹرویو کے دوران شازمہ حلیم نے بتایا کہ ان کا پہلا ڈرامہ آن ائیر ہونے کے بعد والد نے گھر آکر ان کو یہ واقعہ سنایا کہ امام مسجد نے ان سے کہا ہے کہ گھر میں نماز پڑھو جس کے بعد انہوں نے والد سے کہا کہ اگر وہ چاہتے ہیں تو وہ ڈراموں میں کام کرنا چھوڑ دیں گی لیکن ان کے والدین نے ان پر بھروسہ کیا جس کی بدولت آج وہ اس مقام پر ہیں۔
شازمہ حلیم کے مطابق شوبز کی دنیا میں آنے کے بعد جہاں انہوں نے خود مشکلات کا سامنا کیا وہیں ان کے خاندان والوں نے بھی بہت تکالیف سہی ہیں اور یہاں تک کہ ان کے خاندان والوں نے ان سے قطع تعلق بھی کر لیا۔
‘میری اپنے پھوپھو زاد کے ساتھ منگنی ہوئی تھی جو انڈسٹری میں آنے کے بعد ٹوٹ گئی اور اس کے علاوہ میری دوسری منگنی شدہ بہن کے سسرال نے بھی منگنی تڑوا کر سارے رشتے ناطے بھی توڑ دیئے’ انہوں نے بتایا۔
شازمہ حلیم نے کہا کہ جس وقت انہوں نے ڈراموں میں کام کرنا شروع کیا اس وقت لوگ شوبز کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے۔ ڈراموں میں کام کرنے والی خواتین کو بھی بری نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ ان کے والد کو بھی اکثر لوگ کہا کرتے تھے کہ تمہاری بیٹی تو شوبز کی دنیا میں چلی گئی ہے جو اب تمہارے ہاتھ نہیں آئے گی لیکن ان کے والدین نے ہمیشہ ان کو سپورٹ کیا اور آج وہ جس مقام پر ہیں اس کے پیچھے ان کے گھر والوں کا بڑا ہاتھ ہے۔
اپنے کرئیر کی شروعات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے شازمہ حلیم نے کہا کہ اس وقت وہ آٹھویں جماعت کی طالبہ تھیں، ان کی سات بہنیں تھیں اور دو بھائی، جو سب سے چھوٹے تھے۔’ سارا خاندان غربت کی زندگی گزار رہا تھا اور والد کو بہت مشکل پیش آ رہی تھی گھر کے اور بچوں کے تعلیمی اخراجات پورے کرنے میں تو انہوں نے فیصلہ کرلیا کہ لڑکی ہونے کے باوجود اپنے والد کا بازو بنوں گی۔’
شازمہ حلیم نے کہا کہ اس وقت پشتو ڈراموں میں نوشابہ، انیلہ اعجاز، بشریٰ اعجاز اور صفیہ رانی ٹاپ پر تھیں۔ ‘سب نے مجھے خوش آمدید کہا اور نوشابہ نے میری بہت راہنمائی کی جو الفاظ مجھے نہیں آتے تھے وہ مجھے سکھایا کرتی تھیں، ایک ڈرامہ کرنے کے بعد مجھے مزید ڈرامے ملنا شروع ہوگئے اور شہرت بھی مل گئی۔’
میزبان اور اداکارہ شازمہ حلیم نے ٹی این این کو بتایا کہ شوبز کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور بی اے تک تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے کہا کہ انکی بہت خواہش تھی کہ وکیل یا ایئرہوسٹس بنیں لیکن قسمت نے ان کا ساتھ نہ دیا اور وہ نہ تو وکیل بن سکیں اور نہ ہی ایئرہوسٹس لیکن انہوں نے اپنی توجہ ٹی وی اور ریڈیو پر مرکوز رکھی۔
شازمہ حلیم نے کہا کہ ان کے دو بیٹے ہیں مشال خان یوسفزئی اور ابدال خان یوسفزئی اور دونوں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ان دونوں کی شوبز میں کوئی دلچسپی نہیں ہے بلکہ اکثر ان کو بھی کہتے ہیں کہ بس ڈراموں میں کام کرنا چھوڑ دیں ‘جب ڈرامہ کے کسی منظر میں میں رو رہی ہوتی ہوں اور یا مر جاتی ہوں تو میرے بیٹے افسردہ ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں امی یہ کیا کر رہی ہیں بس چھوڑ دیں آپ یہ کام لیکن ان کے والد ان کو کہتے ہیں کہ ان کی امی نے اس مقام تک پہنچنے کے لیے بہت محنت کی ہے تبھی آج لوگ ان کی بہت عزت کرتے ہیں اور لوگ ان کو جانتے ہیں۔’
‘میں نے نہ صرف اپنے والدین بلکہ اپنے شوہر اور بچوں کا اعتماد بھی حاصل کیا ہے اور آج میں ایک کامیاب بیٹی، بیوی اور والدہ ہوں جس پر مجھے فخر ہے اور ان لوگوں کی باتوں کی نفی بھی کی ہے جو کہتے تھے کہ لڑکی اگر شوبز میں گئی تو ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔’ شازمہ حلیم نے بتایا۔
اپنی فلموں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک پشتو فلم ‘مسافر’ میں کام کیا ہے جس میں انہوں نے وڈیرہ خاتون کا کردار ادا کیا ہے کیونکہ انہوں نے پہلے ہی سے کہہ دیا تھا کہ وہ ناچ گانے والا کام نہیں کریں گی جبکہ تین سال پہلے شعیب منصور کے ساتھ ایک اردو فلم ‘ورنہ’ میں بھی کام کرچکی ہیں جس میں ماہرہ خان اور رشید ناز نے بھی کام کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گھر میں کھانا پکانے سے لے کر سارے کام خود کرتی ہیں، اپنے بیٹوں کے لیے من پسند کھانے بناتی ہیں جبکہ خود ان کو چائنیز کھانے اور سبزیاں بے حد پسند ہیں۔
ان کے مشہور ڈراموں میں آسمان، تندر، پرہر اور ‘د خزان نہ پس’ شامل ہیں جبکہ ان کو پاکستان ٹیلی ویژن نے چھ ایوارڈ سے بھی نوازا ہے۔ شازمہ حلیم پاکستان کے علاوہ قطر، دوبئی اور افغانستان میں پرفارم کرچکی ہیں۔ ڈراموں کے ساتھ ساتھ شازمہ حلیم مختلف پروگرامز کی میزبانی بھی کرچکی ہیں۔
قریباً 100 ڈراموں اور دو فلموں میں کام کرنے والی شازمہ حلیم نے مزید کہا کہ جہاں انڈسٹری کے لوگوں نے ان کو خوش آمدید کہا تھا وہاں خاندان والوں نے ان کا جینا دو بھر کر رکھا تھا، بس سٹاپ پر بھی ان کے خاندان کے لڑکے ان کو تنگ کرتے تھے لیکن جب ان کو کامیابی ملی تو یہی لوگ ان کے والد کی منتیں کرتے تھے کہ ان کے بچوں کو ریڈیو پروگرام میں لے کر جائیں۔