کورونا وائرس: کیا ماسک پہننا ضروری ہے؟
ناہید جہانگیر
چین کے ہوبی نامی صوبے کے شہر ووہان سے سر اٹھانے والے کورونا نامی وائرس نے اس وقت پوری دنیا کے باسیوں کو دہشت اور خوف میں مبتلا رکھا ہے چین سمیت دنیا بھر میں جو اب تک 3 ہزار سے زائد افراد کی جان لے چکا ہے جبکہ 85 ہزار سے زائد افراد اس سے متاثر بتائے جاتے ہیں۔
85 ہزار سے زائد ان متاثرہ افراد میں 4 مریضوں کا تعلق پاکستان سے ہے، 20 فروری کو ایران سے واپس آنے والے پاکستانیوں میں سے بعدازاں کراچی کے 22 سالہ یحییٰ جعفری نامی شہری میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی تھی جس کے کچھ ہی دیر بعد گلگت سے تعلق رکھنے والے شہری میں وائرس کی تصدیق کی اطلاع ملی تھی۔
متعلقہ حکام کی جانب سے بعدازاں یہ دعویٰ کیا گیا کہ دونوں مریضوں کی حالت بہتر ہو رہی ہے۔
29 فروری کو پاکستان میں کورونا وائرس کے دو مزید کیس سامنے آئے، کراچی کے ایک اور شہری کے علاوہ اسلام آباد کے فیڈرل ایریا سے ایک کیس رپورٹ ہوا۔
درایں اثناء ایران میں کورونا وائرس کی وبائی صورتحال کے پیش نظر پاکستان نے حفظ ماتقدم کے طور پر تفتان سرحد کی بندش، ٹرین سروس کی معطلی اور سرحد سے ملحقہ اضلاع اور بعدازاں پورے بلوچستان میں ایمرجنسی کے نفاذ جیسے حفاظتی اقدامات کئے، چمن بارڈر بھی بند کر دیا گیا، وائرس کی افغانستان میں موجودگی کی اطلاع کے باعث طورخم سرحد پر بھی میڈیکل ٹیم تعینات کی گئی جبکہ پشاور میں ایک پورے ہسپتال کے علاوہ صوبے کے بیشتر اضلاع کے ہسپتالوں میں کوورونا مریضوں کیلئے وارڈز مختص کئے گئے ہیں۔
دوسری جانب دنیا بھر کے ماہرین سر جوڑے بیٹھے کورونا وائرس کیلئے ویکسین کی تیاری میں مصروف ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ اس میں کئی نہیں تو ایک سال ضرور لگ سکتا ہے۔ ایسے میں جہاں دنیا بھر میں اس کے علاج یا اس سے بچاؤ کی تدابیر سوچی اور پھیلائی جا رہی ہیں وہیں ٹی این این نے بھی صحت کے مقامی ماہرین سے اس بارے میں گفتگو کی ہے جو قارئیں کے پیش خدمت ہے۔
لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور کے ڈائریکٹر ڈاکٹر خالد نے کورونا وائرس کے علاج و احتیاطی تدابیر کے حوالے سے ٹی این این کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ پیاز میں کوئی کورونا وائرس کا علاج نہیں علامات ظاہر ہونے کی صورت میں متعلقہ ڈاکٹر سے رجوع کریں، وائرس سے بچاو کا واحد حل صفائی اور احتیاطی تدابیر اپنانا ہے، کسی سے ہاتھ ملانے کے فوراً بعد اپنا ہاتھ دھوئیں۔
ڈاکٹرکے مطابق کورونا وائرس سے بچاؤ کے حوالے سے عوام میں ایک فوبیا پھیل گیا ہے کہ اگر ماسک استعمال نہیں کیا تو کورونا وائرس کا شکار ہوں گے، بعض ضروی احتیاطی تدابیر کو ذہن میں رکھنا چاہئے اور ان پر عمل کرنا چاہئے ان میں سے ایک ہاتھ نہ ملانا، ایک بندے سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر رہے، جن کو نزلہ وزکام ہو وہ لازمی منہ کو ڈھانپ کے رکھیں، ماسک ضروری نہیں رومال، مفلر یا کسی بھی صاف کپڑے سے منہ ڈھانپا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر خالد نے کہا کہ ماسک ضروری نہیں ہے منہ کو ڈھانپنا ضروری ہے کیونکہ ہر کوئی صرف ماسک کو ترجیح دے رہا ہے جس کی وجہ سے مارکیٹ سے ماسک کو غائب کیا گیا ہے اور ایک معمولی سی چیز بھی اب بلیک میں فروخت ہو رہی ہے، معمولی اس لئے کہ اس کا اگر متبادل ہے تو پھر کیوں ماسک ہی بندہ بلیک میں مہنگا خرید کر استعمال کرے، اس کا فائدہ ماسک کا کاروبار کرنے والوں کو ہے۔
دوسری جانب کورونا وائرس پر کام کرنے والے لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے پلمونولوجسٹ ڈاکٹر ظفراقبال نے بتایا کہ پاکستان میں کورونا وائرس کے کیسز کی تصدیق کے بعد لوگ گلیوں، بازاروں اور دفتروں میں چہروں پر مختلف اقسام کے ماسک لگائے گھوم پھر رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اکثر دکانوں پر ماسک ختم ہو گئے ہیں یا اگر موجود بھی ہیں تو اصل قیمت سے کہیں زیادہ مہنگے داموں فروخت ہو رہے ہیں۔
صرف پاکستان ہی نہیں، دنیا بھر میں ماسک انڈسٹری کی چاندی ہو گئی ہے اور وہ دن رات ماسک بنا رہی ہیں تاکہ عوامی ڈیمانڈ پوری کی جا سکے۔
متعلقہ خبریں:
کورونا وائرس کا خدشہ، سعودی عرب نے عمرہ زائرین پر پابندی عائد کر دی
ایران سے واپس آنے والے زائرین کو ایک یفتہ تک قرنطینہ میں رکھنے کا فیصلہ
پاکستان میں ایسی لیبارٹریز ہیں جہاں اس مرض کی تشخیص کی جا سکتی ہے؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ فیس ماسک واقعی اتنے ضروری ہیں اور کیا یہ اس وائرس سے آپ کو بچا سکتے ہیں؟
ڈاکٹر ظفراقبال کے مطابق امریکہ کے بیماری سے بچاؤ کے معتبر اور بااثر سرکاری ادارے سنٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (سی ڈی سی) کی ویب سائٹ کے مطابق اگر آپ کے اندر وائرس کی علامات نہیں ہیں تو آپ کو یہ ماسک پہننے کی ضرورت نہیں ہے، سی ڈی سی کے مطابق اس وائرس کو روکنے کے لیے تاحال تو کوئی ویکسین نہیں بنائی جا سکی، لیکن اس سے بچنے کا واحد طریقہ اس کے مریضوں سے دوری ہے، امریکی ادارے کی ویب سائٹ پر ماسک کے استعمال کے بارے میں یہ ہدایات درج ہیں۔
ڈاکٹر ظفر اقبال نے مزید بتایا سی ڈی سی ان افراد کو ماسک پہننے کا مشورہ نہیں دیتا جو صحت یاب ہیں اور انہیں کوئی بیماری نہیں ہے، ماسک صرف وہ افراد استعمال کریں جن میں کرونا وائرس کی علامات موجود ہوں تاکہ وہ اس وائرس کو مزید آگے پھیلنے سے روک سکیں، فیس ماسک ان اہلکاروں کے لیے بھی ضروری ہیں جو کسی مریض کی دیکھ بھال کر رہے ہیں یا متاثرہ افراد کے قریب ہیں۔
گذشتہ روز امریکی وزیرِ صحت ایلکس ایزار نے ایوانِ نمائندگان کی ایک کمیٹی کو بتایا کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ماسک پہن کر ہر مسئلہ حل ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا: ’ماسک پہننا دراصل ماسک نہ پہننے کے مقابلے میں بعض اوقات زیادہ نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے کیوں کہ اگر آپ نے ماسک پہنا ہوا ہے اور وہ مناسب طریقے سے فٹ نہیں آ رہا تو آپ بار بار اسے چھوتے ہیں اور اس طرح آپ کا ہاتھ بار بار چہرے سے لگتا ہے جو بیماری پھیلانے کا نمبر ون طریقہ ہے کہ آپ ہاتھ دھوئے بغیر اپنا چہرہ چھوئیں۔‘
سی ڈی سی کے مطابق کورونا وائرس سے بچنے کے لیے مندرجہ ذیل احتیاطی تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں:
وائرس سے متاثرہ افراد سے دور رہںا، اپنی آنکھوں، ناک اور منہ کو چھونے سے گریز کرنا، بیماری کی صورت میں گھر پر ہی رہنا، کھانسی اور چھینک کی صورت میں ٹشو استعمال کرنا اور استمعال کرنے کے بعد ٹشو کو ضائع کرنا، اپنے ہاتھوں کو بار بار 20 سیکنڈ تک صابن سے دھونا، خاص طور پر باتھ روم جاتے ہوئے، کھانے سے پہلے، کھانسی یا چھینک اور ناک صاف کرنے کے بعد اگر پانی اور صابن دستیاب نہیں تو الکوحل سے بنے سینیٹائزر سے ہاتھ دھونا جن میں کم از کم 60 فیصد الکوحل موجود ہو۔ اگر آپ کے ہاتھ گندے ہیں تو انہیں لازماً صابن اور پانی سے دھوئیں۔
دوسری جانب عالمی ادارہ صحت کی جانب سے جاری کردہ ہدایات کے مطابق بھی ماسک صرف نزلے یا کھانسی کے مریضوں کے لیے ضروری ہے۔