"آج بھی عید کارڈز دیکھتی ہوں تو پرانی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں”
رانی عندلیب
اگر یوں کہا جائے کہ ٹیکنالوجی نے ہم سے پرانی رسومات چھین لیں تو شاید غلط نہ ہوگا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب سائنس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی اور لوگ ہر کام ہاتھ سے تو کرتے تھے لیکن اس میں مزہ بھی بہت تھا۔
ٹیکنالوجی کی ترقی سے پہلے لوگ ایک دوسرے کا احوال پوچھنے کے لیے خط و کتابت کرتے تھے یعنی ایک دوسرے کو خط بھیجتے تھے اور پھر اس خط کے جواب کا انتظار شدت سے کرتے تھے اور ان خطوط کا اپنا ایک الگ مزہ ہوتا تھا جس کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا مگر ٹیکنالوجی کی دنیا میں ٹیلی فون، موبائل اور پھر انٹرنیٹ نے خطوط کی رسم کو بھی ختم کر دیا۔
باہر ممالک میں رہنے والے رشتہ داروں سے بات کرنے کا آسان طریقہ نیٹ نے دریافت کیا، لوگ بہ آسانی اپنے رشتہ داروں سے نیٹ کے ذریعے وائس نوٹ یا ویڈیو کال پر بات کر سکتے ہیں اور جب چاہیں تصاویر بھی بھیج سکتے ہیں۔
ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ جہاں ٹیکنالوجی کی وجہ سے دنیا گلوبل ویلج ہو گئی ہے اور ذرائع آمدورفت و ابلاغ میں آسانی ہوگئی ہے وہاں ہم سے ہماری پرانی رسومات چھین لی گئی ہیں۔ ان روایات یا رسومات ایک عید کارڈز بھیجنے کی روایت بھی شامل ہے، ہم ننے سوچا چلو اس کی ذرا یاد تازہ کر لیتے ہیں۔
آپ کو یاد ہوگا کہ آج سے تقریباً 10 سال پہلے رمضان المبارک کے آنے سے پہلے بچے اور جوان لڑکے لڑکیاں عید کارڈز لینا شروع کر دیتی تھیں، میں اپنی تمام سہیلیوں کے لیے کارڈ لیتی تھی اور عید کار ز بھجوانے کے بعد اپنی سہیلیوں کے عید کارڈ کی بے صبری سے منتظر رہتی اور عید کارڈز پر لکھے ہوئے اشعار کا انتظار کرتی، ان اشعار میں اپنی کزن خرم ناز کا لکھا ایک شعر اب بھی مجھے یاد ہے۔
اے رانی رانی خط لکھنا نہ ضرور
مگر دھوکا نہیں حاضر ہے
مجھے آج تک اس کی سمجھ نہیں آئی لیکن شعرا بھی تک یاد ہے اور اس شعر میں چھپا ہوا اس کا پیار۔ عید کارڈ کے ساتھ تحفے تحائف کا بھی انتظار ہوتا تھا جو عید کارڈز کے ساتھ ساتھ ملتے تھے۔
ایک اور شعر جو اکثر ہم سب ید کارڈ پر لکھتے تھے وہ ایسا تھا کہ ع
ڈبہ ڈبے میں کیک
میری سہیلی لاکھوں میں ایک
اور اگر کوئی ایک سہیلی دوسری سہیلی کو کارڈ نہیں بھیجتی تھی تو دوسری سہیلی ناراض ہو جاتی کہ مجھے کارڈ کیوں نہیں بھیجا لیکن سائنسی ترقی کی وجہ سے کارڈز کی یہ رسم بھی ناپید ہو گئی۔
ایک زمانہ تھا جب عید کارڈز بھیجنا لازمی سمجھا جاتا تھا، جب عید کارڈز کے باقاعدہ سٹالز لگتے تھے، اس کے لئے پہلے سے منصوبہ بندی کی جاتی تھی اور ہم سب دوست اور کزن ایک دن مقرر کرکے امی یا انکل کے ساتھ عید کارڈ خریدنے جاتے تھے اور پھر ساتھ ساتھ چھوٹے چھوٹے تحائف بھی خریدے جاتے لیکن آج کل کے بچے عید کارڈز کو جانتے تک نہیں یا پھر وقت کے ساتھ ساتھ اس زمانے کے لوگوں کی ترجیحات بھی بدل گئی ہیں۔
نئے دور کے بچوں کی سوچ میں بھی نہیں ہے کہ عید کارڈز بھی ہوتے تھے اور پہلے لوگ اپنے پاس یہ تمام کارڈز رکھتے تھے بلکہ اس کے لئے باقاعدہ ایک البم تیار کیا جاتا تھا اور اپنے پسندیدہ ہیرو اور ہیروئن کی تصاویر اس میں لوگ جمع کرتے تھے۔
میری دوست سیمی کہتی ہے کہ ہر عید کارڈ سے اس کی منفرد یادیں وابستہ ہیں اور جب فرصت ملتی ہے تو وہ اپنے دوستوں کے پرانے عید کارڈز نکالتی ہے جسے پڑھ کر اور دیکھ کر بہت مزہ آتا ہے۔
مجھے میری تمام سہیلیاں جن میں روزینہ، راحیلہ، فرزانہ،خرم ناز، عارفین،عفت اور حسن بی بی شامل ہیں میرے پسندیدہ عید کارڈز کے ساتھ ساتھ میرے من پسند تحائف بھی ارسال کرتی تھیں جس کا میں بے چینی سے انتظار کرتی تھی۔ ان عید کارڈز میں ان کا جو پیار اور خلوص ہوتا تھا ان کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا لیکن اج کل ایسا کچھ بھی نہیں ہے اور لوگ عید کے پر مسرت موقع پر بھی اپنے عزیزوں کو موبائل کے ذریعے پیغامات بھیجتے ہیں، جو اچھا ہے لیکن عید کارڈ کا نعم البدل ہرگز نہیں۔
عید سے ایک دن پہلے چاند رات پر وہ تمام کارڈز میں بہت خلوص و محبت سے اپنے دوستوں میں بانٹتی، اصل میں وہ کارڈز نہیں ہمارا خلوص اور پیار ان کارڈوں میں چھپا ہوتا تھا۔
آج بھی پرانے عید کارڈز دیکھتی ہوں تو پرانی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں۔