یوماسید کے بعد یو وزیر دھرنا! ماجرا کیا ہے؟
جنوبی وزیرستان وانا کے متاثرین نے اپنے مطالبات بارے ”یووزیر“ ایک وزیر کے نام سے ایف سی کیمپ وانا کے سامنے دھرنا شروع کردیا ہے۔ دھرنے کی کامیابی کیلئے قبائلی مشران،سیاسی جماعتوں اوردیگر مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی آمد جاری ہے۔
دھرنے کی قیادت ملک عبدالخالق وزیر،ملک نظام الدین وزیر،اے این پی رہنماء آیاز وزیر،پی پی پی رہنماء عمران مخلص،خیال محمد وزیر اور جے آئی ضلعی امیر ندیم وزیر کررہے ہیں۔ متاثرین احمدزئی وزیر قبائل نے وانا بازار میں 15نکات پر مشتمل مطالبات بارے پمفلٹ جاری کردیا جس میں سر فہرست،مختلف اپریشنوں میں ہونے والے مالی وجانی نقصانات کا ازالہ،امن کی بحالی،ضلع ٹانک سے جنوبی وزیرستان کی تمام ضلعی دفاتر کی منتقلی،افغان مہاجرین اور اتمانزئی وزیر متاثرین کو چیک پوسٹوں پر سہولت دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
مطالبات میں یہ بھی شامل ہیں کہ معدنیات اور جنگلات پر مقامی لوگوں کی ملکیت تسلیم کی جائے،ڈاکٹر نورحنان وزیر اور ڈاکٹر عابداللہ محسود کو رہاکیا جائے،انٹرنیٹ کی سہولت دی جائے،انگوراڈہ بارڈر کو ٹرانزٹ اور آمدروفت کیلئے کھول دیا جائے،نشہ آور اشیاء کی روک تھام کے لیے اقدامات کئے جائے،2000سے لیکر ابتک دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مدمیں متاثرین کے نام پر آنے والے سرکاری وغیرسرکاری فنڈز کا احتساب کیا جائے،اسلامی مدارس کو ترقیاتی سکیموں میں شامل کیا جائے،تعلیمی اداروں کو فی الفور بحال کیا جائے،مقامی صحت کے تمام مراکز کو فنکشنل کیا جائے جبکہ وزیر قبائل کی دیگر اقوام سے زمینی تنازعات کو انگریز مثل یعنی سرکاری ریکارڈ کے مطابق حل کیا جائے۔
دھرنے کے شرکاء نے میڈیا کو بتایا کہ تمام مطالبات منوانے تک دھرنا جاری رہے گا اور دھرنے کی نگرانی کیلئے 66رکنی کمیٹی تشکیل دیدی اور تشکیل شدہ کمیٹی کے نام بھی جاری کردئیے جو کہ تمام قومی مشران اور ملکانان پر مشتمل ہیں۔
خیال رہے کہ اس سے پہلے جنوبی وزیرستان کی قوم محسود نے بھی یوماسید کے نام سے اپنے مطالبات کے حق میں ایک دھرنا دیا تھا۔
محسود قبائل کے مطابق جب دہشت گردی کے خلاف ان کے علاقوں میں جنگ شروع کرنے کا فیصلہ ہوا اور حکومت نے ان لوگوں کو مختصر نوٹس پر اپنا علاقہ اور گھر بار چھوڑنے کا کہا تو مقامی آبادی نے لبیک کہتے ہوئے حکومت وقت کے حکم کی من و عن تعمیل کی اور مملکت خداداد پاکستان کی سلامتی اور بقاء کی خاطر قربانی دیتے ہوئے بے سر و ساماں اپنے ابائی علاقوں سے نکل آئیں۔
ان کے مطابق جنگ کے دوران مقامی لوگوں کے مکانوں اور تجارتی مراکز کو بھی نقصان پہنچا اور جو تھوڑی بہت تعمیرات معجزاتی طور پر بچی تھی وہ موسمیاتی اثرات کی نظر ہوگئیں۔ ان نقصانات کے ازالے کیلئے حکومت پاکستان نے پانچ چھ سال پہلے ایک پیکج کا اعلان کیا جسکے مطابق فی خاندان مکمل تباہ گھر کیلئے چار لاکھ روپے اور جزوی تباہ شدہ گھر کیلئے ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپے دیئے جانے تھے۔
رقوم دینے اور اس سارے معاملے کو کرپشن فری بنانے کیلئے سروے کروانے کا طریقہ کار اپنایا گیا اور کئی ساری ٹیمیں بنائیں گئیں، ہر ٹیم سات سے آٹھ رکن پر مشتمل تھی جن میں حکومتی اور مقامی افراد شامل تھے، جنہوں نے گاؤں گاؤں جا کر سروے فارم پُر کرنے تھے تاکہ مستحقین کی دل جوئی ہو سکے اور نقصانات کا حکومت پاکستان کی طرف سے کچھ ازالہ ہو سکے لیکن بدقسمتی سے یہ سارا سسٹم عدم توجہی کی وجہ سے کرپشن اور سست روی کا بدترین شکار ہوا جس میں مقامی ضلعی انتظامیہ کا کلیدی کردار رہا۔
پانچ چھ سال کے طویل عرصے میں نہ تو سروے مکمل ہوا اور جو لوگ سروے میں مستحقین قرار پائے تھے نہ ہی ان کو رقوم کی ادائیگی ہوسکی۔ مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ اس سروے نہ ہونے اور رقوم نہ ملنے کے معاملے میں بڑی حد تک کرپشن ہوئی ہے جس میں مقامی ضلعی انتظامیہ ملوث ہے لہذا اس کی تحقیقات کرائی جائے اور رقوم بھی جلد سے جلد دی جائے۔