خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

کیا خسرہ ویکسین کے باوجود بھی بچے اس وائرس کا شکار ہوسکتے ہیں؟

 

سلمیٰ جہانگیر

خیبرپختونخوا اور قبائلی اضلاع میں بچوں میں خسرہ بیماری نے ایک بار پھر سر اٹھا لیا ہے اور رواں سال میں اب تک 104 بچوں میں اس بیماری کی تشخیص ہوئی ہے جبکہ مزید 218 میں بھی اس وائرس کا شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

یہ اعداد و شمار محکمہ صحت کے ہیں جو کہ مختلف ہسپتالوں کو لائے گئے ہیں جبکہ اصل تعداد اس کے کئی گنا زیادہ ہونے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ ایک لمبے عرصے تک خاموش رہنے کی بعد پچھلے تین، چار سالوں سے بچوں میں خسرہ بیماری دوبارہ پھیل جانے پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

محکمہ صحت کے مطابق 2018 میں صوبے میں خسرہ کے کل 13,229 مشتبہ کیسز سامنے آئے تھے جن میں 1515 میں اس بیماری کی تشخیص ہوئی تھی اور بیس بچے موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔ پچھلے سال صوبے میں خسرہ سے متاثرہ بچوں کی تعداد میں واضح کمی دیکھی گئی تھی جو 288 تھی اور ان میں صرف تین بچوں کی موت واقع ہوئی تھیں۔

دوسری طرف حیات آباد کے انتطامیہ کے مطابق پچھلے تین مہینوں میں صرف حیات آباد میڈیکل کمپلیکس پشاور میں 6 بچے خسرہ کی وجہ سے جاں بحق ہوئے ہیں جبکہ اس دوران ہسپتال میں خسرہ کے تصدیق شدہ کیسز 46 بتائے جا رہے ہیں۔

رواں سال صرف ڈیڑھ مہینے میں 104 کیسز سامنے آنے اور کئی بچے موت کے منہ میں چلے جانے پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

خسرہ بیماری کی علامات اور حفاظتی اقدامات کیا ہیں؟

شمالی وزیرستان کے رزمک علاقے سے تعلق رکھنے والے قاری شیر علی باز خان کا کہنا ہے کہ اسکی ایک سالہ بیٹی کو پہلے کھانسی تھی پھر اسکو تیز بخار ہو گیا. بیٹی کو رزمک ہسپتال داخل کروایا ہسپتال میں ڈاکٹرز نےخسرہ کی تشخیص کر دی اور علاج کے باوجود 6 دن کے بعد میری بیٹی کی موت ہوئی. قاری شیر علی باز نے مزید بتایا کہ کچھ دن پہلے میری دو سالہ بھانجی بھی اسی وائرس کا شکار ہو کر موت کے منہ میں جا چکی ہے۔

اس حوالے سے حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کے ٹرینی رجسٹرار ڈاکٹر بلال کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک میں خسرہ کی پہلی ویکسین 9 ماہ کی عمر میں بچے کو لگائی جاتی ہے جو کہ بچے کے جسم میں اس بیماری کے خلاف% 70 قوت مدافعت پیدا کرتی ہے لیکن اگر ایک سال کی عمر میں بچے میں قوت مدافعت کم ہو تو وہ جلد ہی اس وائرس کا شکار ہو جاتا ہے۔

کچھ والدین کا کہنا ہے کہ کچھ بچے خسرہ ویکسین کے باوجود بھی اس وائرس کا شکار ہو جاتے ہیں.اس حوالے سے ڈاکٹر بلال نے بتایا کہ اگر بچے کو ویکسنیشن کے بعد بھی خسرہ ہو جائے تو اسکی کچھ وجوہات ہو سکتی ہیں. پہلی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ جو ویکسین بچے کو کروائی گئی ہے وہ صحیح سٹوریج ہوا ہے کہ نہیں. دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہےکہ ویکسین بچے کو صحیح طریقے سے لگایا گیا ہے کہ نہیں اور تیسری اہم وجہ یہ سامنے آئی ہے کہ اکثر والدین بچے کو پہلی ویکسین کے بعد دوسری ویکسین نہیں کرواتے. چونکہ خسرہ کی دوسری ویکسین 15 ماہ کی عمر میں بچے کو کروائی جاتی ہے جو کہ بچے کے جسم کو 90 فیصد تک اس بیماری سے محفوظ رکھتا ہے۔

ضلع چارسدہ کے تنگی علاقے کا رہائشی مرتضی اپنے آٹھ ماہ کے بیٹے جلال کی موت پر افسردہ ہو کر کہتا ہے کہ میرے بیٹے کو شدید بخار ہوا لیکن ہمیں معلوم نہ ہو سکا کہ یہ خسرہ ہے. تنگی کے لوکل ڈاکٹرز نے پشاور ہسپتال آنے کا کہا لیکن بدقسمتی سے میرا بیٹا چل بسا۔

ڈاکٹر بلال نے بتایا کی اس بیماری کے کچھ علامات ہیں بچے کو تیز بخار ہوتا ہے اور اسکے ساتھ منہ میں چھالے پڑھ جاتے ہیں. جلد سرخ ہو جاتی ہے اور بدن پر چھوٹے سرخ دانے نکل آتے ہیں۔ یہ آراین اے وائرس ہے اور جب تک جلد سرخ نہیں ہو جاتی ڈاکٹرز کو بھی علم نہیں ہوتا۔

چونکہ ہمارے ملک سے یہ بیماری پوری طرح ختم نہیں ہوئی اور ہوا میں اسکے وائرس موجود ہیں تو یہ وائرس اپنے موسم  میں ایکٹیو جاتے ہیں اور سب سے پہلے ان بچوں کو متاثر کرتے ہیں جو ایک سال سے کم ہوتے ہیں یا جن کو ویکسین نہیں ہوئی ہوتی. اس لئے والدین کو چاہئیے کہ اگر بچے کا بخار لمبا ہو جائے یا وہ مسلسل روتا رہے او ناک اور آ نکھوں سے طھی پانی بہنے لگے تو لوکل ڈاکٹرز سے رجوع کرنا چاہیے اور ایسے بچوں کو دوسرے بچوں سے بھی الگ رکھنا چاہیے تاکہ یہ وائرس انکو نہ لگیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button