قبائلی اضلاع میں جرگوں کا نیا نظام کیا واقعی قانون سے متصادم ہے؟
افتخار خان
ضم شدہ قبائلی اضلاع میں جرگہ نظام کے لئے نئے نافذ ہونے والے اے ڈی آر قانون کو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا گیا ہے کہ یہ نظام بنیادی انسانی حقوق کے قوانین اور انصاف کے تقاضوں سے متصادم ہے۔
اے ڈی آر (الٹرنیٹیو ڈسپیوٹ ریزولوشن رولز) کو ضلع مہمند سے تعلق رکھنے والے وکیل محمد ارشاد نے چیلنج کیا ہے۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے محمد ارشاد کا کہنا تھا اے ڈی آر کی شکل میں بعض حکومتی اراکین اور بیوروکریٹس نے قبائلی اضلاع میں ایف سی آر کو دوبارہ نافذ کیا ہے۔
انہوں نے امید ظاہر کی بہت جلد ہی ہائی کورٹ اس اقدام کو غیر قانونی قرار دے گی کیونکہ اس کے ذریعے قبائلی اضلاع میں عدلیہ کا متوازی نظام قائم کیا گیا ہے۔
کیا ہے اے ڈی ار اور کب پاس ہوا؟
خیبر پختونخوا لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں ترمیم کے بعد اے ڈی آر قوانین کے تحت جو ثالثی کمیٹیاں بنی ہیں یا بنیں گی اس میں چالیس تک ممبران ہوں گے۔ ان ممبران میں تیس مقامی قبائل سے چھانٹی کے بعد لئے جائیں گے جبکہ دس ضلعی انتظامیہ کے نمائندگان ہوں گے۔
ثالثی کونسل کو دیوانی مقدمات سے متعلق جو بھی کیس آئے گا اس کے لئے اسسٹنٹ کمشنر ان کمیٹی میں سے تین یا چار افراد پر مشتمل جرگہ تشکیل دے گا جس میں فریقین کی کوئی مرضی نہیں شامل نہیں ہوگی۔
جرگہ کے فیصلے سے اختلاف کی صورت میں فریقین اسسٹنٹ کمشنر کو اس کے خلاف درخواست دے سکتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ فیصلے کے ایک ماہ کے اندر اندر ڈپٹی کمشنر کو بھی درخاست دے سکتے ہیں۔ اے ڈی آر رولز کے تحت اس صورت میں ڈپٹی کمشنر کی جانب سے سنایا جانے والا فیصلہ حتمی ہوگا اور فریقین کو اسے کسی بھی عدالت میں چیلنج کرنے کا اختیار بھی نہیں ہوگا۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں ایڈوکیٹ محمد ارشاد نے دعویٰ کیا کہ اے ڈی آر قانون آئین کی پانچ دفعات آرٹیکل 8، آرٹیکل 10اے، آرٹیکل 175، آرٹیکل 203 اور آرٹیکل 2 اے سے متصادم ہے اور انہوں نے اسی بنیاد پر اسے عدالت میں چیلنج کیا ہے۔
اپنی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ قانون آئین کے آرٹیکل 8 سے متصادم ہے کیونکہ اس دفعہ میں کہا گیا ہے کہ ایسا کوئی قانون نہیں بنے گا جو بنیادی انسانی حقوق کے منافی ہو اور اے ڈی آر میں چونکہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے اس لئے یہ انسانی حقوق کے خلاف ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
قبائلی اضلاع میں مصالحتی جرگوں کا قیام، اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟
مصالحتی جرگوں کی تشکیل پر قبائلی پارلیمینٹیرینز نالاں کیوں؟
انہوں نے مزید کہا کہ اے ڈی آر کے جرگہ میں فریقین سے صرف بیانات لئے جاتے ہیں جبکہ قانونی تقاضوں کے مطابق نہ ہی ان پر کراس جرح کیا جاتا ہے اور نہ ہی انہیں گواہان پیش کرنے کا موقع دیا جاتا ہے جو کہ دفعہ 10 اے کے تحت شفاف ٹرائلز کے تقاضے پورے نہیں کرتا۔
ایڈوکیٹ نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 175 کے تحت عدلیہ اور انتظامیہ ایک دوسرے سے مکمل طور پر الگ ہوں گے۔ عدلیہ کا کام سول اور کریمینل کیسز کو سننا اور اس پر فیصلے صادر کرنا ہے جبکہ انتظامیہ کو ان فیصلوں کا نفاذ یقینی بنانا ہے۔
اے ڈی آر میں چونکہ انتظامیہ کے افسران ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر باالترتیب اپیلیٹ فورم اور کنوینئیر قرار دیے گئے اور انہیں جوڈیشری کے اختیارات دیے گئے ہیں اس لئے یہ آئین کے اس آرٹیکل کے بھی خلاف ہے۔
محمد ارشاد نے بتایا کہ اس کے علاوہ آئین کے آرٹیکل 203 میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ تمام عدالتیں ہائی کورٹ کے ماتحت کام کریں گی اور فاٹآ انضمام کے بعد چونکہ قبائلی اضلاع بھی پشاور ہائی کورٹ کے دائرہ کار و اختیار میں آتے ہیں تو اس لئے ضروری ہے کہ وہاں کی عدالتیں بھی ھائی کورٹ کے ماتحت ہوں، لیکن اے ڈی آر کے تحت بننے والے اے سی اور ڈی سی کے جرگے ھائی کورٹ کے انڈر نہیں آتے۔
اے ڈی آر کے خلاف درخواست دینے والے قانون دان نے مزید بتایا کہ اس قانون کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ یہ آرٹیکل 2 اے سے بھی متصادم ہے جس کو آئین کی قرارداد مقاصد کہا جاتا ہے۔
آرٹیکل 2 اے کے تحت ملک کی تمام عدالتیں خواہ وہ سپریم کورٹ ہو، ھائی کورٹ ہو یا سول ججز کی عدالتیں، سب آزاد اور خودمختار ہوں گی لیکن اس قانون کے تحت قبائلی اضلاع میں ایسا نظام لایا گیا ہے جو عدلیہ کی آزادی اور خودمختاری پر حملے کے برابر ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ اے ڈی آر نظام میں ایسی کوئی وضاحت نہیں ہوئی ہے کہ کوئی شخص اپنے کیس کی شنوائی کے لئے عدالت اور جرگہ میں انتخاب کس بنیاد پر کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ لوگوں کو عدالت کا متبادل نظام دینے کا مطلب عدلیہ کی آزادی سبوتاژ کرنا ہے۔
درخواست دائر کرنے والے محمد ارشاد کے علاوہ قبائلی ضلع مہمند سے تعلق رکھنے والے دوسرے سینئر وکیل اعجاز مہمند نے بھی اے ڈی آر کو ایف سی آر کی نقل قرار دیا ہے اور کہا کہ بیوروکریسی میں ایک مخصوص طبقہ شروع ہی سے اس کی ٘مخالف ہے کہ قبائلی اضلاع خیبر پختونخوا میں ضم ہوں، دراصل یہی وہ طبقہ ہے جس نے قبائلی اضلاع میں لاقانونیت کے دور میں اربوں روپے لوٹے ہیں۔
اعجاز مہمند نے کہا کہ اس طبقے نے پہلے عوام میں اس کے خلاف غلط تاثر پھیلانے کی کوشش کی اور جب اس میں ناکامی ہوئی تو عدالتی نظآم کی جگہ آئی جی آر (انٹریم ریگولیشن رولز) لے آئِے جس کو ہائی کورٹ نے منسوخ کر دیا ہے اور سپریم کورٹ میں اب بھی اس کے خلاف کیس زیرسماعت ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب اے ڈی آر کے ذریعے اس طبقے نے ایک نئی چال چلی ہے لیکن امید ہے اس بار بھی انہیں منہ کی کھانی پڑے گی۔