خیبر پختونخوا پر ٹڈی دل کا حملہ، غذائی قلت پیدا ہونے کا اندیشہ
افتخار خان
سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے بعد خیبر پختونخوا میں ٹڈی دل کے حملہ آور ہونے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے اس حوالے سے ملک بھر میں ایمرجنسی کا اعلان کر دیا ہے لیکن زرعی ماہرین فکر مند ہیں کہ اگر اس پر بروقت قابو نہ پایا گیا تو امسال گندم کی پیداوار میں کمی کے باعث غذائی قلت پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔
خیبر پختونخوا میں ٹڈی دل ڈیرہ غازی خان کے راستے چند دن پہلے ڈیرہ اسماعیل خان اور اب لکی مروت پہنچ چکے ہیں اور فصلوں پرحملہ آور ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق ڈی آئی خان میں ٹڈی دل شموزئی اور درازندہ جبکہ لکی مروت میں درہ پیزو میں جھنڈ در جھنڈ لاکھوں اور کروڑوں کی تعداد میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
ٹڈی دل کے ڈی آئی خان میں داخل ہونے کے ساتھ ہی صوبائی حکومت نے 29 جنوری کو تمام جنوبی اضلاع میں ایمرجنسی نافذ کر دی تھی اور ڈپٹی کمشنران کو ہدایات جاری کی تھی کہ اس کی روک تھام کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں۔
ڈی آئی خان کے ڈپٹی کمشنر محمد عمیر کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں متاثرہ علاقوں کو زرعی محکمے کے محققین بھیج دیے گئے ہیں جو نہ صرف مقامی افراد اور باالخصوص زمینداروں میں اگاہی پھیلا رہے ہیں اور ٹڈی دل سے بچاؤ کے طریقے بتا رہے ہیں بلکہ فصلوں پر سپرے بھی کرا رہے ہیں۔
ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ اس کے علاوہ ہوائی سپرے پر بھی غور کیا جا رہا ہے اور جیسے ہی اس کے لئے تیاریاں مکمل ہو جائیں گی تو جہاز کے ذریعے بھی سپرے کیا جائے گا۔
دوسری جانب لکی مروت سے تعلق رکھنے والے صحافی غلام اکبر کا کہنا ہے کہ ضلعی انتظامیہ نے ایمرجنسی نافذ ہونے کے کئی دن بعد بھی تاحال کوئی اجلاس نہیں بلایا ہے اور اب جب ٹڈی دل ضلع پہنچ گئے ہیں تو افسران کے اوسان خطا ہو گئے ہیں۔
غلام اکبر نے مزید بتایا کہ ابھی تک زرعی ماہرین کی جانب سے زمینداروں کو نہ تو سپرے کے حوالے سے کوئی ہدایات جاری کی گئی ہیں اور نہ ہی انہیں ٹڈی دل بھگانے کے روایتی طریقے جیسے ڈول بجانے یا شور شرابے کے طریقے بتائے گئے ہیں۔
ٹڈی دل آئے کہاں سے ہیں؟
زرعی یونیورسٹی پشاور کے پروفیسر ڈاکٹر انعام کا کہنا ہے کہ ملک میں ایسے ٹڈی دل اس سے پہلے آخری بار تقریباً 60 سال پہلے دیکھے گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ اس دفعہ یہ ٹڈی دل سندھ کے علاقے تھر میں پیدا ہوئے ہیں اور سندھ، بلوچستان اور پنجاب کی جنوبی پٹی سے گزرتے ہوئے خیبر پختونخوا میں داخل ہو گئے ہیں، اگر اس پر بروقت قابو نہیں پایا گیا تو حالات بہت گھمبیر ہو جائیں گے۔
اس حوالے سے فصلوں اور کیڑے مکوڑوں پر تحقیق کرنے والے شفیق احمد کہتے ہیں کہ ٹڈی دل فی الوقت ڈی آئی خان کے 40 سے 50 کلومیٹر کے علاقے پر پھیلے ہوئے ہیں اور آہستہ آہستہ بڑھتے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بڑے سائز کے ٹڈی دل دن کے وقت جھنڈ کی شکل میں ہوا میں سفر کرتے ہیں اور جہاں کہیں بھی سبزہ دیکھتے ہیں اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں جبکہ ان کے بچے زمین پر رینگتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ حشرات شام کو اندھیرا چھا جانے کے ساتھ ہی فصلوں پر بیٹھ جاتے ہیں اور صبح سورج کے گرم ہونے تک بیٹھے رہتے ہیں لیکن یہ فصلوں کو رات کی بجائے دن کے وقت نقصان پہنچاتے ہیں۔
شفیق احمد کا کہنا تھا کہ ٹڈیاں دن میں پچاس تک انڈے دیتی ہیں اور ان کے بچے دنوں کے حساب سے بڑے ہوتے ہیں اور یہی چیز ان کو زیادہ مہلک بناتی ہے۔
موسمی تبدیلی کا کردار
پروفیسر انعام کا کہنا ہے کہ ٹڈی نسبتاً گرم ماحول میں زیادہ پائے جاتے ہیں اور اس دفعہ سردیوں میں ان کو تھر میں بڑا موضوع درجہ حرارت ملا تھا اس لئے زیادہ پھلے پھولے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ٹڈی جنوبی افریقہ میں زیادہ پائے جاتے ہیں جہاں ریگستانی زمین ان کے لئے زیادہ سازگار ہوتی ہے۔
ڈاکٹر انعام نے کہا کہ چونکہ ہمارے ملک پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات زیادہ نمایاں ہیں اور پاکستان دنیا کے ان 10 ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے ماہرین کے مطابق پچھلے 15 سال سے ملک کے دوسرے صوبوں کی طرح خیبر پختونخوا کے اوسط درجہ حرارت میں ایک ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ ہوا ہے اور 2035 تک اس میں ایک درجہ مزید اضافے کا خدشہ ہے۔
اسی بنیاد پر پروفیسر انعام نے بھی کہا ہے کہ ٹڈی دل اور اس طرح کے چند اور حشرات اسی موسمیاتی تبدیلی کی پیداوار ہیں اور اندیشہ ہے کہ آئندہ سالوں میں ان کی تعداد اور اس طرح کے حملوں میں مزید اضافہ ہو گا جس کا سیدھا اثر خوراک کی پیداوار پر ہو گا۔
پیداوار پر اثر
خیبر پختونخوا کے محکمہ ریلیف و بحالی کی جانب سے جنوبی اضلاع کو بجھوائے گئے نوٹیفیکیشن میں کہا گیا ہے کہ چونکہ صوبہ پہلے سے ہی گندم کی کمی سے دوچار ہے اور اس کے جنوبی اضلاع گندم کی پیداوار کے لئے نہایت ہی اہم ہیں اس لئے ٹڈی دل سے ایمرجنسی کی بنیادوں پر نمٹا جائے اور فصلوں کو محفوظ رکھنے کیلئے خاطر خواہ اقدامات اٹھائے جائیں۔
دوسری جانب پروفیسر انعام کا کہنا ہے کہ اس سال جنوبی اضلاع میں بروقت بارشیں ہونے کہ وجہ سے گندم کی فصل کافی اچھی اگی ہے لیکن ٹڈی دل کے حملوں کے باعث اس کو کافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے سال گندم کی اچھی خاصی پیداوار کے باوجود ملک اور باالخصوص خیبر پختونخوا کو اس وقت آٹے کی قلت کا سامنا ہے اور اگر ٹڈی دل پر بروقت قابو نہ پایا گیا تو گندم کی پیداوار متاثر ہونے سے حالات مزید گھمبیر ہونے کا خطرہ ہے۔
پروفیسر انعام کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا میں گندم کی سالانہ ضرورت 45 لاکھ ٹن تک ہے جس میں صوبہ صرف ایک چوتھائی حصہ خود پیدا کرتا ہے جبکہ باقی پنجاب اور وفاقی حکومت سے حاصل کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا اگر جنوبی اضلاع کی زیادہ فصل متاثر ہوئی تو شائد اس سال ایک چوتھائی حصہ بھی پیدا نہ کر سکیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت ایمرجنسی نافذ کرنے کے اعلانات تو کراتی ہے لیکن حقیقت میں ایسے کوئی اقدامات نہیں اٹھاتی۔ پروفیسر انعام نے انکشاف کیا کہ حکومت کے پاس اس وقت پورے ملک میں صرف دو یا تین ایسے جہاز ہیں جن سے سپرے کرایا جاتا ہے اور یہ اس مسئلے پر قابو پانے کے لئے ناکافی ہیں۔
پروفیسر انعام نے بتایا کہ ویسے ٹڈی دل کی پسندیدہ خوراک سبزہ ہوتی ہے لیکن آج کل کھیتوں میں جو مال مویشیوں کے لئے گھاس اگائی گئی ہے وہ یہ زیادہ شوق سے کھاتے ہیں جس سے متاثرہ اضلاع میں لائیوسٹاک کے لئے بھی خوراک کی کمی کا مسئلہ پیش آسکتا ہے جو گوشت اور ڈائری پراڈکٹس کے کمی پر منتج ہو گا۔