قبائلی اضلاع میں مصالحتی جرگوں کا قیام، اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟
افتخار خان
خیبر پختونخوا کے ضم شدہ قبائلی اضلاع میں حکومت کی جانب سے مصالحتی جرگوں کے قیام نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ جرگوں کے پرانے نظام سے مماثلت سمیت ان میں نوجوانوں اور خواتین کی عدم شمولیت اور ان کی قانونی حیثیت پر بھی انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔
ضم اضلاع میں عدالتوں پر بوجھ کم کرنے اور معمولی مقدمات کو جرگے کے ذریعے حل کرنے کیلئے نہ صرف خیبر پختونخوا کی ڈسپیوٹ ریزولوشن کونسل (مصالحتی جرگہ) کے ماڈل کو ان علاقوں تک توسیع دی گئی ہے جس کے تحت تھانوں کی سطح پر غیرجانبدار جرگے قائم کئے جاتے ہیں بلکہ ان علاقوں میں جرگہ نظام کو مزید مضبوط بنانے کی خاطر خیبر پختونخوا لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 میں ترمیم کے ساتھ الٹرنیٹیو ڈسپیوٹ ریزولوشن (اے ڈی آر) قوانین کے تحت بھی وہاں تحصیل کی سطح پر الگ طرز کے جرگے قائم کئے گئے ہیں۔
گزشتہ روز مختلف اضلاع میں ان ڈی آر سیز اور اے ڈی آرز کے ممبران سے حلف لیا گیا لیکن بعض حلقوں کی جانب سے اے ڈی آر جرگوں یا کمیٹیوں پر مسلسل تنقید کی جا رہی ہے کہ اس میں وہی پرانے ایف سی آر کے دور کی جھلک دکھائی دے رہی ہے اور پولیٹیکل ایجنٹ اور اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ کی جگہ ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کو قبائلی عوام پر مسلط کیا گیا ہے۔
الٹرنیٹیو ڈسپیوٹ ریزولوشن (اے ڈی آر) قوانین کے تحت جرگے کی ساخت
خیبر پختونخوا لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں ترمیم کے بعد اے ڈی آر قوانین کے تحت جو ثالثی کمیٹیاں بنی ہیں یا بنیں گی اس میں چالیس تک ممبران ہوں گے۔ ان ممبران میں تیس مقامی قبائل سے چھانٹی کے بعد لئے جائیں گے جبکہ دس ضلعی انتظامیہ کے نمائندگان ہوں گے۔
ثالثی کونسل کو دیوانی مقدمات سے متعلق جو بھی کیس آئے گا اس کے لئے اسسٹنٹ کمشنر ان کمیٹی میں سے تین یا چار افراد پر مشتمل جرگہ تشکیل دے گا جس میں فریقین کی کوئی مرضی نہیں شامل نہیں ہوگی۔
جرگہ کے فیصلے سے اختلاف کی صورت میں فریقین اسسٹنٹ کمشنر کو اس کے خلاف درخواست دے سکتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ فیصلے کے ایک ماہ کے اندر اندر ڈپٹی کمشنر کو بھی درخاست دے سکتے ہیں۔ اے ڈی آر رولز کے تحت اس صورت میں ڈپٹی کمشنر کی جانب سے سنایا جانے والا فیصلہ حتمی ہوگا اور فریقین کو اسے کسی بھی عدالت میں چیلنج کرنے کا اختیار بھی نہیں ہوگا۔
اے ڈی آر کے تحت بننے والے جرگے میں قانونی سقم
پشاور ہائی کورٹ کے وکیل فرہاد آفریدی کا کہنا ہے کہ اے ڈی آر جرگوں کا قیام تو قانونی ہے لیکن قبائلی علاقوں میں جس طریقے سے یہ تشکیل دیے گئے ہیں وہ قانون سے مکمل طور پر متصادم ہے کیونکہ ان میں ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کو عدلیہ کے بھی اختیارات دیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قبائلی اضلاع کے حوالے سے سپریم کورٹ پہلے ہی احکامات جاری کر چکی ہے کہ کوئی سرکاری افسر مقامی لوگوں کے مسائل کے تصفیے کے لئے بنائے جانے والے جرگے کی نگرانی نہیں کرسکتا۔ عدالت عظمیٰ نے یہ احکامات قبائلی اضلاع میں انٹریم گورننس ریگولیشن (آئی جی آر) کالعدم قرار دیتے وقت جاری کئے تھے۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے فرہاد آفریدی نے کہا کہ سپریم کورٹ کا وہ فیصلہ نہ تو معطل ہوا ہے اور نہ ہی اس پر کوئی اور فیصلہ سامنے آیا ہے اس کے باوجود اے ڈی آر رولز کے تحت انتظامی افسران کو عدلیہ کے اختیارات دینا سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی ہے۔
قانونی ماہر نے مزید کہا کہ خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد اس طرح کے قوانین کے ذریعے قبائلی علاقوں کی جداگانہ حیثیت برقرار رکھنا سمجھ سے بالاتر ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ یہ سارا معاملہ بیوروکریسی کی ملی بھگت ہے کیونکہ یہ لوگ پرانے فاٹا میں بے تاج بادشاہ ہوا کرتے تھے لیکن انضمام کے بعد ان کے اختیارات محدود ہو کر رہ گئے ہیں اور اب مختلف طریقوں سے یہ افسران دوبارہ کسی نئی شکل میں وہی پرانا نظام لاگو کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے وضاحت کی کہ اے ڈی آر میں دیوانی مقدمات میں عدالت دوسری یا تیسری پیشی پر فریقین کو اختیار دے دیتی ہے کہ وہ عدالت کارروائی آگے بڑھانا چاہتے ہیں یا اپنا فیصلہ جرگہ کے سپرد کرنا پسند کرتے ہیں۔ جرگہ کے فیصلے کیخلاف فریقین کو عدالت سے دوبارہ رجوع کرنے کا اختیار بھی حاصل ہوتا ہے لیکن قبائلی اضلاع کے اے ڈی آر رولز میں جرگہ کا فیصلہ صرف اسسٹنٹ کمشنر یا ڈپٹی کمشنر کی عدالت میں چیلنج ہو سکتا ہے اور ڈپٹی کمشنر جو بھی فیصلہ صادر کرتا ہے فریقین وہ کسی اور عدالت میں چیلنج نہیں کرسکتے۔
مصالحتی جرگوں کے ممبران کون ہیں؟
قبائلی اضلاع میں تحصیل کی سطح پر مصالحتی جرگے بنانے کے لئے لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 میں 26 دسمبر 2019 کو ترمیم منظور کرائی گئی جس کے تحت چند روز پہلے خیبر اور مہمند قبائلی اضلاع کے اے ڈی آر جرگوں کے ممبران سے متعلقہ اسسٹنٹ کمشنران نے باقاعدہ حلف لیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
"قبائلی علاقوں کی روایات کو برقرار رکھا جائے گا”
ضم اضلاع مین ڈی آر سیز اور پی ایل سیز کے قیام کی ہدایت
قانون کے تحت ہر کمیٹی میں 40 ممبران ہوتے ہیں جن میں 30 ایسے مقامی افراد ہونے چاہئیں جو مقامی روایات و رواج کے ساتھ ساتھ قانون سے بھی باخبر ہوں، کبھی عدالت سے کسی مقدمے میں مجرم نہ قرار دیے گئے ہوں اور معاشرے میں غیرجانبدار اور دیانتدار شخص کے طور پر جانے اور پہچانے جاتے ہوں۔
ضلع خیبر اور مہمند میں تشکیل کردہ اے ڈی آر جرگوں کے حوالے سے تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ان میں منتخب کرائے گئے زیادہ تر نمائندے وہی قبائلی مشران ہیں جو ایف سی آر کے دور میں مقامی جرگوں کے منتطمین اور مشران ہوا کرتے تھے۔
اس حوالے سے خیبر ضلع کی تحصیل جمرود کے اسسٹنٹ کمشنر جواد خان کا کہنا ہے کہ ان کے اے ڈی آر جرگہ میں پچاس ممبران ہیں جو ان کے پیشرو نے منتخب کئے تھے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ جرگہ میں وہی لوگ شامل کئے گئے ہیں جن کی ساری عمر جرگے کراتے ہوئے گزری ہے اور جو قانون کی بھی کافی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔
دوسری جانب بعض لوگ الزامات لگا رہے ہیں کہ اے ڈی آر میں منتخب اراکین کو قانون کی کوئی سمجھ بوجھ نہیں اور دوسری بات یہ کہ ان میں بعض اراکین کی معاشرے میں ساکھ بھی کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے۔
اس حوالے سے مہمند ضلع کے سماجی ورکر اور پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے شہسوار مہمند کہتے ہیں کہ مصالحتی جرگہ کے ممبران یا تو قومی اور صوبائی اسمبلی اراکین نے منتخب کئے ہیں اور یا مقامی انتظامیہ نے۔ انہوں نے کہا ‘بہت منصوبہ بندی سے ایسے افراد ان جرگوں میں شامل کئے گئے ہیں جو ایم این ایز، ایم پی ایز اور ڈپٹی کمشنران کے دست راست ہیں’
شہسوار نے الزام لگایا کہ ایسی حرکتوں سے بیوروکریسی اور فاٹا انضمام کے دیگر مخالفین واپس اپنے لئے ایسے راستے کھولنا چاہتے ہیں جس سے یہ تاثر پھیلے کہ نیا نظام ناکام ہوگیا ہے اور لوگ دوبارہ سے ان کے ‘درباروں’ میں آنا شروع کریں۔
جرگوں میں خواتین اور نوجوانوں کو نظرانداز کرنا
قبائلی اضلاع میں اب تک جتنے بھی جرگے بنائے گئے ہیں خواہ وہ اے ڈی آر کے ہوں یا ڈی آر سی کے، سب میں مقامی مشران اور قبیلوں کے سردار یا سرکردہ لیڈران منتخب کئے گئے ہیں۔
ان جرگوں میں کسی خاتون کو نمائندگی نہیں دی گئی ہے اور اس کے علاوہ نواجوان طبقہ کہتا ہے کہ ان کو بھی نظر انداز کیا گیا ہے جس کی وجہ سے ان میں کافی غم وغصہ پایا جاتا ہے۔
اس حوالے سے قبائلی نوجوانوں کی نمائندہ تنظیم ٹرائبل یوتھ موومنٹ کے صدر خیال زمان اورکزئی کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا کے دیگر علاقوں میں بنے مصالحتی جرگے کافی بیلنس ہیں جن میں مقامی مشران کے علاوہ علاقے کے سیاسی اور سماجی اراکین، نوجوان اور خواتین کو بھی نمائندگی حاصل ہے لیکن قبائلی اضلاع میں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ فیصلوں کا اختیار دوبارہ سے ان لوگوں کو دیا گیا جن سے یہ اختیار چھیننے میں کئی عشروں کا وقت لگا۔
ٹی این این سے بات چیت کے دوران خیال زمان اورکزئی کا کہنا تھا کہ ان جرگوں میں زیادہ تر وہی لوگ منتخب کئے گئے ہیں جو سرے سے فاٹا انضمام مانتے ہی نہیں اور جو پولیس اور عدلیہ کی قبائلی علاقوں تک توسیع پر احتجاج کرتے رہے ہیں۔
یوتھ موومنٹ کے صدر نے کہا کہ وہ ایسی عوام دشمن پالیسیوں پر چھپ نہیں بیٹھیں گے اور اس کے خلاف ہر حد تک جائیں گے۔
جرگوں میں خواتین کی عدم شمولیت کے حوالے سے قبائلی خواتین کے حقوق کے لئے سرگرم پشاور یونیورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر نورین نصیر سے موقف لیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ سرے سے ان جرگوں کو مانتی ہی نہیں خواہ ان میں خواتین شامل ہوں یا نہ ہوں انہیں کوئی پروا نہیں کیونکہ یہ عدالتی نظآم سے متصادم ہیں اور بہت جلد عدالت انہیں کالعدم قرار دے گی۔
انہوں نے بتایا کہ مصالحتی جرگوں کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں لیکن قانون میں ان کے لئے بھی کوئی حد مقرر ہے کہ وہ پولیس یا عدالت سے زیادہ بااختیار نہیں ہیں۔
پروفیسر نورین نے مزید بتایا کہ قبائلی اضلاع میں مصالحتی جرگوں کا نظام دراصل ایک غیر ملکی منصوبہ ہے اور ڈونر ادارے کو جیسے ہی معلوم پڑے گا کہ اس میں نصف آبادی یعنی خواتین کو نظرانداز کیا گیا ہے یا نوجوانوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا ہے تو وہ حکومت پاکستان سے جواب مانگے گا اور شائد اپنی فنڈنگ بھی روک لے۔
نورین نصیر نے امید ظاہر کی چند مفاد پرستوں پر مبنی ٹولے نے اے ڈی آر نظام کے ذریعے قبائلی اضلاع میں اپنی من مانی برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے لیکن بہت جلد ان کو منہ کی کھانی پڑے گی۔
انہوں نے بتایا کہ جس نظام میں بھی خواتین اور نوجوانوں کو نظرانداز کیا جائے وہاں پر تصادم جنم لیتا ہے۔ پروفیسر نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ اگر کسی قبائلی ضلع میں گھر سے بچوں سمیت نکالی گئی خاتون اپنے خاوند سے نان نفقہ حاصل کرنے کی بابت جرگہ کے پاس جانا چاہے تو کیسے جائے گی اور دوسری بات یہ کہ ان کے مسئلے کی سنجیدگی کو مرد حضرات کیسے سمجھیں گے؟
اس حوالے سے قانون دان فرہاد آفریدی کہتے ہیں کہ اے ڈی آر رولز کے تحت یہ لازمی ہے کہ مصالحتی جرگے میں کم از کم ایک خاتون ضرور ہو۔
اس پر جمرود اے ڈی آر جرگہ کے رکن حضرت ولی نے کہا کہ ہر فورم میں ضروری نہیں کہ ہر کسی کو شامل کیا جائے۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نہ تو نوجوان جرگہ سسٹم کو سمجھتے ہیں اور نہ ہی قبائلی علاقوں میں کوئی بھی خاتون۔
جرگہ ممبر نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں نہ تو وہ خود خواتین کو جرگوں میں شامل کرنے کے حق میں ہیں اور نہ ہی 99.9 فیصد دوسرے قبائلی عوام۔ ‘رہی بات جرگہ میں خواتین سے متعلق کیسز کی تو ہماری زمانوں سے یہی روایت چلی آ رہی ہے کہ خاتون کی نمائندگی اس کا باپ، بھائی، شوہر، بیٹا یا دوسرا رشتہ دار کرے گا۔
حضرت ولی نے مصالحتی کمیٹیوں میں غیر تعلیم یافتہ افراد کے انتخاب کا اعتراف کیا اور ساتھ میں یہ دعویٰ بھی کیا کہ یہ مشران پہلے بھی سارے فیصلے قوانین کے تحت کرتے چلے آ رہے تھے اور اب بھی ایسا ہی کریں گے۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ قبائلی علاقوں کی تقریباً 95 فیصد روایات پہلے سے ہی ملکی قوانین سے مماثلت رکھتی ہیں اور کوئی مشر قانون جانے بغیر بھی فیصلہ کرے گا تو بھی قانون کے مطابق ہی ہوگا۔
قبائلی اضلاع میں اے ڈی آر قوانین کے نفاذ اور اس کے تحت ثالث کمیٹیوں کی تشکیل کے خلاف قبائلی علاقوں کے وکلا اور سماجی کارکنوں نے کمر کس لی ہے جو اس کے خلاف باقاعدہ تحریک شروع کرنے کا اعلان بھی کرچکے ہیں۔