خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

گداگری کے خاتمے کے لیے قانون سازی، حکومت سنجیدہ یا پبلسٹی سٹنٹ

 

ناہید جہانگیر

"حکومت نے اگر مجبور کیا تو خیبرپختونخوا سے فرار ہوکر پنجاب اپنی بہن کے گھر چلی جاونگی” یہ پشاور شہر کے گنجان آباد بازارفردوس میں بھیک مانگنے والی ادھیڑعمر خاتون ثمینہ بی بی نے ٹی این این سے بات چیت کے دوران کہا۔ انہوں نے یہ بات خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے پیشہ ور گداگروں کے خلاف گھیرا تنگ کرنے اور ان کیخلاف کریک ڈاون کے لئے قانون تیار کرنے کے اعلان کے پیش نظر کیا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق صوبائی حکومت نے ویگرنسی قانون تیار کر لیا ہے جس میں پیشہ ورگداگروں کیلئے سزا کی جگہ اصلاحاتی اقدامات تجویز کئے گئے ہیں۔ قانون کے تحت مجسٹریٹ گداگروں کو بطور سزاء دارالکفالہ بھیج سکتا ہے، جہاں انہیں تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنا روزگار شروع کرنے کی تربیت دی جائے گی۔

پشاور شہر فرودس میں ثمینہ نامی بھیک مانگنے والی خاتون نے گورنمنٹ کے فیصلے سے لاعملی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسکا تعلق پنجاب سے ہے اور اسکی اس دنیا میں بس یہی ایک بیٹی ہے، اور وہ پشاور میں کئی سالوں سے بھیک مانگ رہی ہے۔ نئے قانون کے حوالے سے ٹی این این کے بتانے پر اس نے حکومت کے فیصلے کے حوالے سے کہا کہ پہلے تو وہ دارالکفالہ نہیں جائے گی لیکن اگر اسکو مجبور کیا گیا تو وہ پشاور مجبورا چھوڑ کر پنجاب اپنے بہن کے گھر منتقل ہوجائے گی۔

پشاور سمیت صوبے کے تمام اضلاع میں مارکیٹوں، ٹریفک سگنلز، گلی کوچوں اور حتیٰ کہ گھروں میں روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں کی تعداد میں بچے، خواتین، معذور اور بے بس افراد بھیک مانگتے نظر آتے ہیں جن میں کچھ تو واقعی حالات سے مجبور ہوتے ہیں لیکن بعض ان میں پیشہ ور بھی ہوتے ہیں۔ آیا ان سب کو حکومتی نگرانی میں لانا، انہیں خوراک اور تربیت فراہم کرنا اور یہ یقینی بنانا کہ مستقبل میں کسی اور سے مانگنے کے بجائے خود کمائیں گے، ممکن ہے؟

اس حوالے سے عوامی نیشنل پارٹی خیبرپختونخواکےجنرل سیکرٹری وڈپٹی اپوزیشن لیڈرسردارحسین بابک نے کہا کہ موجودہ حکومت کی وجہ سے کاروبار تباہ ہوگیا ہے بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے جب بے روزگاری بڑھ جاتی ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ معاشرے میں گداگری اور دوسرے جرائم جنم لیتی ہے۔ گورنمنٹ کو چاہیے کہ ان باتوں پر فوکس کریں، یہ تو گورنمنٹ عام لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لئے اس قسم کے اقدام کر رہی ہے کہ گداگروں کودارالکفالہ میں منتقل کیا جائے گا۔ حکومت بنیادی چیزوں پر توجہ دیں جو وہ کر نہیں رہی، لیکن ظاہر سی بات ہے کہ پی ٹی آئی گورنمنٹ کے پاس ماہر او سنجیدہ لوگ ہی نہیں ہیں اور عوام کے مسائل کے فکر کے لیے لوگ نہیں ہیں تو اس لیے گورنمنٹ ان چھوٹی چھوٹی باتوں پرعوام کی توجہ ہٹانے کی کوشش کررہی ہیں۔

عوامی نیشنل پارٹی کے سردارحسین بابک نے بتایا کہ حکومت نے تو کہہ دیا کہ گداگروں کو دارالکفالہ میں منتقل کیا جائے گا لیکن یہ بوجھ ہوگا کیونکہ پہلے سے ہی فنڈز کی کمی ہے اور مجھے نہیں لگتا کہ یہ ممکن ہوگا، لیکن حکومت عوام کا توجہ ہٹانے، فوٹو سیشن کرنے اور میڈیا کا توجہ حاصل کرنے کے لیے ایسا کررہا ہے۔ حکومت کبھی کہتی ہے کہ لنگر خانہ کھول رہے ہیں اور کھبی کہتی ہے کہ شیلٹرہومز کھول رہے ہیں۔ ہسپتالوں میں دوایاں نہیں ہے ملازمین کو تنخواہ دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں تو میرے خیال میں سب سے پہلے عوام کے بنیادی مسائل حل کیے جائیں تو بہتر ہوگا۔

صوبائی حکومت نے کس سوچ کے ساتھ ایسی قانون سازی کا فیصلہ کیا ہے؟

سوشل ویلفئر محکمے کے ڈپٹی سیکرٹری منیب کے مطابق 2010 چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ میں تمام گداگر بچوں کو شامل کیا گیا ہے جبکہ ابھی تک خواتین و مرد گداگروں کے لیےکوئی قانون ہے ہی نہیں، اگر ہم کسی گداگر پر ہاتھ ڈالنا چاہتے تو ایسا نہیں کرسکتے تھے کیونکہ کس قانون کے تحت انکے خلاف کاروائی کرتے، کوئی پالیسی نہیں تھی لیکن اب ان کے لیے ایک الگ ویگرنسی ایکٹ بنایا گیا ہے جو کابینہ اور وزیر اعلی سے پاس ہونے کے بعد اسمبلی میں دوہفتے پہلے بھیجا گیاہے اور وہاں سے منظور ہونے کے بعد اسکے تحت گداگروں کے خلاف کاروائی ہوگی۔

سوشل ویلفئرڈیپارٹمنٹ کے ڈپٹی سیکرٹری نے مزید بتایا کہ یہ بات غلط ہے کہ فنڈز کی کمی ہے یا فنڈز نہیں ہے، اور شیلٹر ہومز میں ان گداگروں کو نہیں بلکہ دارالکفالہ میں رکھا جائے گا اور دارالکفالہ کی بلڈنگ سپیشل واگرنٹس کے لیے ہیں جبکہ شیلٹرہومز کا حساب کتاب الگ ہے، وہاں تو صرف مسافر ایک دو دن کے لیے ٹہر سکتا ہے جبکہ دارالکفالہ کی تو کافی اچھی اور بڑی بڑی عمارتیں حکومت نے قائم کی ہیں اور وہاں گداگروں کو رکھا جائے گا۔ویلفئرہومز میں ان بچوں کو رکھا جاتا ہے جن کا کوئی نہیں ہوتا،تو ان سب کو ایک ہی ضمرے میں نا ڈالا جائے۔

انہوں نے کہا کہ گداگروں پر بندش کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ انکو پکڑنے کے بعد حوالات میں بند کیا جائے گا، بلکہ ان گداگروں کو تکنیکی تربیت دی جائے گی جو جس تکنیک میں دلچسپی رکھتا ہو انکو وہی تربیت دی جائے گی جو انکی آئندہ زندگی گزارنے میں آسانی پیدا کرے گی۔

خیال رہے کہ ویگرنسی قانون کے مطابق بچوں کو زبردستی گدا گر بنانے پر متعلقہ شخص کو پانچ لاکھ روپے جرمانہ یا ایک سال قید کی سزا سنائی جائے گی۔

قانون کے مطابق پولیس کو پیشہ ور گداگروں کو گرفتار کرنے کا اختیار حاصل ہوگا جبکہ گداگر اور بے گھر افراد رضاکارانہ طور سپیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہو کر دارالکفالہ میں داخل ہوسکتے ہیں، مجسٹریٹ کو مطمئن کرنےکے بعد گداگر یا بے گھر فرد دارالکفالہ چھوڑ سکتا ہے۔

ثمینہ کہتی ہے کہ وہ اپنی زندگی سے مطمئن ہے اور دوسری بات یہ کہ اب انکی ہنرسیکھنے سکھانے کی عمر بھی نہیں رہی تو حکومت کو چاہئے کو ان کو اپنے حال پر چھوڑ دے اور مہنگائی کم کرنے پر توجہ دے۔

 

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button