عوض نور کا ڈی این اے رپورٹ لاہور بھیجنے کا فیصلہ
نوشہرہ پولیس نے چند روز قبل قتل کی گئی عوض نور کا ڈی این اے رپورٹ لاہور بھیجنے کا فیصلہ کرلیا۔ پولیس ترجمان کے مطابق خیبر میڈیکل کالج سے تمام پروسیس مکمل ہوگئے ہیں تاہم ڈی این اے رپورٹ کی سہولت خیبر میڈیکل کالج پشاور میں میسر نہیں ہے جس کی وجہ سے آج ہی ڈی این اے سمپل لاہور بھیجے جارہے ہیں جس کے بعد ہی کیس سے متعلق اصل حقائق سامنے آئیں گے۔
ڈی پی او نوشہرہ کاشف ذوالفقار کا کہنا ہے کہ عوض نور کو زیادتی کا نشانہ بنانے والوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ دو ملزمان میں سے ایک نے پہلے ہی سے اعتراف کرلیا ہے اورکچھ دنوں میں فورنزک رپورٹ بھی آجائے گی۔
ڈی پی او نوشہرہ نے متاثرہ خاندان سے گزارش کی ہے کہ وہ فورنزک رپورٹ آنے تک صبر کرے جبکہ لواحقین کو ہر طرح کی تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔
خیال رہے کہ نوشہرہ کے علاقے کاکاصاحب سے تعلق رکھنے والی سات سالہ بچی عوض نور ہفتے کے روز18 جنوری کو مدرسہ گئی تھی اور واپس نہیں آئی اور بعد میں اس کی لاش برآمد ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں: ‘عوض نور کے ملزمان کو سرعام پھانسی دی جائے کہ پھر کوئی ایسی حرکت نہ کرے’
دوسری جانب واقعے کے بعد پولیس نے دو افراد کو گرفتار کیا تھا۔ گرفتار افراد میں ملزم ابدار ولد عبد اللہ شاہ نے سول جج جوڈیشل مجسٹریٹ اکبر علی مہمند کی عدالت میں پیش ہونے پر اپنے جرم کا اعتراف کر لیا اور کہا کہ بچی کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیا تھا۔
اپنے ابتدائی بیان میں اس کا کہنا تھا کہ اس نے عوض نور کو چمک کی بوتل کا لالچ دے کرکھیتوں کی جانب لے گیا جہاں اس نے اس کے ساتھ زیادتی کی۔ اس پر بچی نے چیخ و پکار شروع کر دی جس پر اس نے اسے پانی کی ٹینکی میں پھینک دیا۔ تاہم گرفتار دوسرے ملزم رفیق الوہاب نے صحت جرم سے انکار کیا۔ اس پر عدالت نے دونوں ملزمان کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔ دونوں کو سخت سکیورٹی میں عدالت لایا گیا۔
خیال رہے کہ نوشہرہ سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں بچوں کے جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ واضح رہے کہ مناہل کو28 دسمبر 2018 کو ملزم یاسر نے زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد بیدردی سے قتل کر دیا تھا جس کی نعش مقامی قبرستان سے برآمد ہوئی تھی۔ نعش ملنے کے بعد پولیس نے جدید سائنسی خطوط پر تفتیش کرتے ہوئے ملزم کو 70 گھنٹوں کے اندر اندر گرفتار کر لیا تھا جو اس وقت جیل میں ہے اور اپنے جرم کا اعتراف کرچکا ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات بڑھنے کے بعد حکومت بھی اقدامات کررہی ہے اور قومی اسمبلی نے قصور میں زیادتی کے بعد قتل ہونے والی بچی کے نام سے پیش کئے گئے زینب الرٹ بل کو رواں ماہ کی 10 تاریخ کو متفقہ طور پر منظور کر لیا ہے۔
اس بل کے ذریعے زینب الرٹ رسپانس اینڈ ریکوری ایجنسی کا قیام وجود میں آئے گا جس کے ذریعے سے لاپتہ یا گم ہونے والے بچوں کے بارے میں رپورٹ کیا جا سکے گا۔