ضم اضلاع میں نادرا گریڈ 14 کے ڈپٹی سپرانٹنڈنٹس کے رحم و کرم پر
افتخار خان
قبائلی اضلاع میں چند ایسے نادرا دفاتر کا انکشاف ہوا ہے جو گزیٹڈ افسران کی بجائے آپریٹرز کے زیر انتظام چل رہے ہیں جس کی وجہ سے اکثر اوقات بد انتظامی کی شکایتیں سامنے آتی ہیں۔
نادرا رجسٹریشن دفاتر کے امور چلانے کے لئے عمومی طور پر گریڈ 16 اور 17 کے افسران تعینات کئے جاتے ہیں جو بالترتیب منیجر اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے عہدوں پر ہوتے ہیں لیکن قبائلی ضلع کرم کے علاقوں، پاڑا چنار اور صدہ، جبکہ اورکزئی کے کلایہ دفاتر کو گریڈ 14 کے ڈپٹی سپرانٹنڈنٹس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ اورکزئی کا غلجو سنٹر تو حیران کن طور پر پچھلے کئی سالوں سے 12 سکیل کے ایک ایگزیکٹیو کے زیر اہتمام چل رہا ہے حالانکہ غلجو کا دفتر 2009 سے اس وقت سے ملحقہ بندوبستی ضلع ہنگو میں قائم ہے جب اورکزئی میں فوجی آپریشن شروع کیا گیا تھا۔
متعلقہ نادرا دفاتر میں ایک کے انچارج نے کہا کہ ذمہ دار افسر کی عدم موجودگی کی وجہ سے ان کو اکثر اوقات مشکلات پیش آتی ہیں، ادارے میں منیجر یا اسسٹنٹ ڈایریکٹر کو صرف ادارے کا انتطام سنبھالنا ہوتا ہے جبکہ اگر ڈُپٹی سپرنٹنڈنٹ یا کسی اور ایگزیکٹیو کو یہ اضافی چارج دیا جائے تو ان کا اپنا کام بھی متاثر ہوتا ہے۔
ایک ڈُپٹی سپرانٹنڈنٹ نے ٹی این این سے بات کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ بطور انچارج ان میں اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر لوگوں اور سٹاف کے مسائل حل کرسکیں۔
نام نہ بتانے کہ شرط پر انچارج نے یہ بھی کہا کہ ان کو اکثر اوقات زونل یا ڈویژنل آفسز سے رابطہ کرنے اور مسائل ڈسکس کرنے میں بھی مشکلات پیش آتی ہیں۔
فاٹا انضمام سے پہلے قبائلی اضلاع میں بعض افسران سکیورٹی وجوہات یا سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے ڈیوٹی کرنے سے کتراتے تھے لیکن انضمام اور ملٹری آپریشنز کے بعد امن و امان کی بہتر صورتحال کے باوجود ایسے اہم ادارے جونئیرز کے حوالے کرنا نہ صرف سماجی حلقوں میں موضوع بحث بنا ہوا ہے بلکہ بعض حلقے تو اس کے خلاف باقاعدہ سوشل میڈیا اور دوسرے پلیٹ فارمز پر آواز بھی اٹھاتے نظر آتے ہیں۔
اس حوالے سے اورکزئی سے تعلق رکھنے والے سماجی ورکر محمد نواز اورکزئی کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا میں ضم ہونے کے بعد ان کی ایک بڑی خواہش تھی اور امید بھی کہ محرومیوں سے چھٹکارہ مل جائے گا اور قبائلی عوام کو بھی اب ملک کے دوسرے شہریوں کی نظر سے دیکھا جائے گا لیکن وہ خواہش بس خواہش ہی رہ گئی۔
نواز اورکزئی نے مزید کہا کہ یہ علاقے اب باقاعدہ طور پر خیبر پختونخوا کے اضلاع ہیں لیکن اس کے باوجود نادرا جیسے اہم دفاتر میں اہل افسران تعینات نہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے اور اس سے یہی تاثر ملتا ہے کہ قبائلی اضلاع اب بھی ان کے لئے تیسرے درجے کے ہی علاقیں ہیں۔
ان چاروں دفتروں کے حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ پچھلے دو اور ڈھائی سالوں سے ایسے ہی بغیر سینئیر افسران کے چلائے جا رہے ہیں۔