کابل میں افغان خواتین کی احتجاجی ریلی پر ہوائی فائرنگ
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں خواتین نے احتجاجی مظاہرہ کیا ہے لیکن طالبان نے انھیں اچانک ہوائی فائرنگ کر کے منتشر کر دیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق کابل میں خواتین نے طالبان کی نئی حکومت میں اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے پرامن طریقے سے مارچ کا آغاز کیا، انہوں نے وزارت دفاع کے باہر ان افغان فوجیوں کے اعزاز میں پھولوں کی چادر چڑھائی جو گذشتہ مہینوں میں طالبان سے لڑتے ہوئے ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کے بعد مارچ کی شرکا خواتین صدارتی محل کی جانب بڑھنے لگیں۔
مظاہرے میں زیادہ تر نوجوان افغان خواتین اور جامعات کی طالبات شریک تھیں، جب صدارتی محل کے باہر خواتین نعرے بازی کرنے لگیں تو طالبان کے متعدد اہلکار ان کے پاس آ گئے اور ان سے ان کے مطالبات کے بارے میں دریافت کرنے لگے۔
مظاہرے میں شریک 24 سالہ طالبہ سودابہ کبیری نے انہیں بتایا کہ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کو تمام حقوق دیئے ہیں اور وہ اپنے یہی حقوق چاہتی ہیں۔
جب مظاہرے میں شریک خواتین صدارتی محل پہنچیں تو طالبان کے درجن بھر خصوصی دستوں نے ہجوم میں گھس کر ہوائی فائرنگ شروع کر دی، اس پر خواتین نے ادھر ادھر بھاگنا شروع کر دیا اور یوں مظاہرے کی شرکاء خواتین منتشر ہو گئیں۔
خیال رہے کہ دوروز قبل افغانستان کے شہر ہرات میں تقریباً 50 خواتین اپنے کام کرنے کے حق کے لیے اور نئی حکومت میں خواتین کی عدم شمولیت کے خلاف سڑکوں پر نکل آئی تھیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق خواتین نے احتجاج کے دوران ‘تعلیم، کام اور سکیورٹی ہمارا حق ہے، ہم خوفزدہ نہیں، ہم متحد ہیں’ کے نعرے لگائے تھے۔
یہ بھی خیال رہے کہ اس وقت طالبان جنگجوؤں اور احمد مسعود کی حامی فورسز کے درمیان کابل کے شمال میں واقع وادی پنج شیر کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے شدید لڑائی جاری ہے جبکہ امریکی جنرل نے خبردار کیا کہ اگر طالبان انتظامی امور کو سنبھالنے میں ناکام ہوئے تو ’خانہ جنگی‘ ہو گی۔