خیبر پختونخواعوام کی آوازفیچرز اور انٹرویو

گرمی کے ساتھ بجلی کی شارٹ فال بھی بڑھنے لگا، مظاہرے شروع

رفاقت اللہ رزڑوال

پاکستان کی مذہبی سیاسی پارٹی جماعت اسلامی نے ملک بھر میں بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ، کم وولٹیج، بلنگ اور ٹرپنگ کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع کئے ہیں۔ مظاہرین نے بجلی کو خیبرپختونخوا کی پیداوار قرار دے کر عوام کو اس حق سے محروم رکھنے کو غیر آئینی اقدام اور ظلم قرار دیا تاہم واپڈا حکام نے مظاہرین کےساتھ مذاکرات کرکے تمام مسائل حل کرنے کی یقین دہانی کرائی۔

ضلع چارسدہ کے رہایشی 36 سالہ مرجان علی نے ٹی این ای کو بتایا کہ بجلی لوڈشیڈنگ نے ہمیں ذہنی مریض بنا دیا ہے۔ جبکہ باقی کسر بجلی کے دوران ٹرپنگ نے پوری کر دی ہے، ایک طرف آگ جیسی گرمی اور دوسری طرف لوڈشیڈنگ نے ہمارا جینا محال کر دیا ہے۔

مرجان علی کہتے ہیں ” بجلی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے عوام ڈپریشن کا شکار ہوچکی ہیں۔ سخت گرمی میں سو رہے ہو اور بجلی چلی جائے تو مجھے شدید غصہ چڑھ جاتا ہے کیونکہ رات کے وقت نیند انسان کیلئے ضروری ہے اور اگر بجلی نہ ہو تو نیند کیسے کریں گے”۔

انہوں نے بتایا ” اب معاملہ اتنا گھمبیر ہوچکا ہے کہ بجلی جیسے حق کو عوام اپنا حق ہی تصور نہیں کرتی کیونکہ ملک بھر کے مظاہروں میں ہر جگہ چند درجن افراد نظر آتے ہیں۔ اس مسئلے کے حل بجلی کی جنریشن پاور بڑھانا اور ترسیل کا نظام کا بہتر بنانا ہوگا”۔

خیبرپختونخوا میں بجلی لوڈشیڈنگ کے خلاف مذہبی سیاسی پارٹی جماعت اسلامی نے مرکزی امیر حافظ نعیم الرحمان کی ہدایات پر ملک کے دیگر صوبوں کی طرح خیبرپختونخوا کے ضلع نوشہرہ، مردان، پشاور، بنوں، ٹانک، سوات، کرک، کوہاٹ، ڈی آئی خان، صوابئ اور چارسدہ کے کارکنوں نے مظاہرے کئے۔

ضلع چارسدہ کے امیر جماعت اسلامی ایڈوکیٹ شاہ حسین نے جمعے کے روز ایکسین واپڈا کے دفتر کے سامنے مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ خیبرپختونخوا 2500 میگاواٹ بجلی پیدا کرتی ہے جبکہ صوبے کی ضرورت صرف 1800 میگاواٹ ہے، صوبہ ڈھائی روپے فی یونٹ پیدا کرکے نیشنل گریڈ سٹیشن کو بھجوا کر اسے دوبارہ عوام پر 75 روپے میں فروخت کرتے ہیں۔

ایڈوکیٹ شاہ کہتے ہیں کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد بجلی پر سب سے پہلا حق ہمارا ہے مگر ہمارے ساتھ حکمران طبقہ غیرآئینی اور امتیازی سلوک کر رہی ہے۔

امیر ضلع شاہ کہتے ہیں "ہم تعصب نہیں پھیلانا چاہتے، یہ تعصب وفاق پھیلا رہی ہے کہ پنجاب کو 24 گھنٹے بغیر کسی تعطل کے بجلی مل رہی ہے اور ہمارے صوبے کی اپنی پیداوار ہونے کے باوجود بھی ہمیں اپنے حق سے محروم رکھا گیا ہے”۔

انہوں نے صوبے کے وزیراعلیٰ علی آمین کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ صرف دھمکیوں کے ماہر ہے، پی ٹی آئی کے کارکنوں کو جھوٹے نعروں اور جارحانہ بیانات سے بے وقوف بنانے کی کوشش کرتے ہیں، باقی نہ اُنکے ایم این ایز اور نہ ایم پی ایز اس معاملے میں سنجیدہ ہے اگر ہوتے تو آج وہ عوام کے ساتھ اس تپتی دھوپ میں سڑک پر ہوتے۔

گزشتہ ہفتے 22 جون کو خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی آمین گنڈاپور اور صوبائی اسمبلی کے ارکان خود گریڈ سٹیشنوں میں گُھس کر زبردستی بجلی بحال کیا تھا اور ساتھ ہی دھمکی دی تھی کہ اگر صوبے کی لوڈشیڈنگ ختم نہ کر دی گئی تو وہ وفاق کو بجلی بند کریں گے۔

تاہم جماعت اسلامی کے کارکن صوبائی حکومت کی دھمکیوں کو سیاست چمکانا سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ صوبائی حکومت سنجیدہ ہوتی تو اب تک وفاق سے مل کر اس مسئلے کا حل نکالتے مگر آج بھی عوام سڑکوں پر موجود ہے۔

جماعت اسلامی کے سیکرٹری اطلاعات جاوید خان نے ٹی این این کو بتایا کہ جماعت اسلامی کا دھرنا ملک بھر میں جاری ہے کیونکہ اس وقت لوڈشیڈنگ ایک اہم اور عوامی مسئلہ ہے۔ گرمی کی شدت نے عوام کو بے حال کر دیا دوسری جانب وولٹیج کی کمی اور ٹرپنگ سے قیمتی آلات جل رہے ہیں۔

انہوں نے وزیراعظم کی جانب سے پروٹیکٹڈ صارفین کو 200 یونٹ استعمال کرنے پر ٹیرف میں اضافہ نہ کرنے اور سبسڈی دینے کے فیصلے پر بتایا کہ وزیراعظم کا یہ فیصلہ درست ہے لیکن اگر بجلی نہ ہو یا وولٹیج کم ہو تو یہ صرف عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے۔

جاوید خان کہتے ہیں کہ عوام کو مفت بجلی دینے کی بجائے اگر وافر مقدار میں بغیر کسی لو وولٹیج بجلی فراہم کی جائے تو عوام کیلئے خوشی کا باعث ہوگی۔

انکے مطابق چارسدہ کے دیہی علاقوں میں 18 سے 20 اور شہری علاقوں میں 12 سے 14 گھنٹے تک لوڈشیڈنگ ہوتی ہے۔ باقی رہی سہی کسر واپڈا کے اہلکار غریب عوام کو بھاری بھر کم جرمانوں میں پورا کر دیتے ہیں۔

سیکرٹری اطلاعات جے آئی نے دھمکی دی کہ اگر یہ مسئلہ حل نہ ہوا تو وہ عوام کی خاطر پورے نظام کو جام کرسکتے ہیں۔

Show More

Rifaqat ullah Razarwal

رفاقت اللہ رزڑوال چارسدہ کا رہایشی اور ٹرائیبل نیوز نیٹ کے ساتھ پشاور سے بطور رپورٹر کام کر رہے ہیں۔ وہ انسانی حقوق، ماحولیات اور امن و امان کے موضوعات پر ویب اور ریڈیو کیلئے رپورٹس بنا رہے ہیں۔ وہ صحافت کے شعبے سے 2014 سے وابستہ ہے اور انہوں نے 2018 میں پشاور یونیورسٹی سے جرنلزم میں ماسٹر ڈگری کی ہوئی ہے۔
Back to top button