خیبر پختونخواعوام کی آوازماحولیات

موسمیاتی تبدیلی کے اثرات: خیبرپختونخوا میں شہد کی پیداوار میں 35 فیصد کمی

افتخار خان

نوشہرہ کے 28 سالہ مگس بان گلاب شاہ امسال اپنی شہد کی مکھیوں کی پیداوار سے مطمئن تھے اور اسی لئے اپنی شادی کی تیاریوں میں مصروف تھے لیکن 21 جولائی کی رات بارش اور سیلاب نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔

گلاب شاہ نے مکھیوں کو گرمی سے بچانے کے لئے 200 پیٹیاں مانسہرہ کے ٹھنڈے علاقے شنکیاری میں ایک دریا کنارے رکھی تھیں جو کہ تیز بارش کے بعد سیلاب میں بہہ گئیں۔

گلاب شاہ کو اس حادثے میں 14 لاکھ روپے کا نقصان ہوا، شنکیاری کے اس دریا کنارے گلاب شاہ کے ساتھ ساتھ مزید 20 مگس بانوں کی کل 3 ہزار تک پیٹیاں رکھی گئی تھیں، ان میں سے بھی زیادہ تر پانی کی نذر ہو گئیں۔

"یہ 200 پیٹیاں میری آٹھ سالوں کی جمع پونجی تھی، سوچا تھا اس سال بیر کے سیزن کے بعد شہد فروخت کر کے چند لاکھ کماؤں گا تو گھر کی مرمت کے ساتھ ساتھ شادی بھی کر لوں گا لیکن انسان اور اللہ تعالیٰ کے ارادے ایک جیسے نہیں ہوتے۔” گلاب شاہ نے آہ بھرتے ہوئے کہا۔

خیبر پختونخوا سمیت ملک بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات نے شہد کی پیداوار پر منفی اثر ڈالا ہے اور ماہرین کے مطابق پچھلے چند سالوں میں شہد کی پیداوار تقریباً 35 فیصد تک کم ہو گئی ہے۔

مگس بانی اور شہد کی تجارت سے وابستہ لوگوں کی تنظیم آل پاکستان بی کیپرز، ایکسپورٹرز اینڈ ہنی ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے پاس دستیاب ڈیٹا کے مطابق پچھلے سال ملک بھر میں شہد کی مجموعی پیداوار 15 ہزار میٹرک ٹن تک تھی جبکہ رواں سال یہ پیداوار اس سے بھی کم ہونے کا اندیشہ ہے۔

دس سال پہلے ملک میں شہد کی پیداوار 30 ہزار میٹرک ٹن تک پہنچ چکی تھی جس میں خیبر پختونخوا کا حصہ 10 میٹرک ٹن سے اوپر تھا۔ پچھلے سال خیبر پختونخوا میں شہد کی پیداوار صرف 5 ہزار میٹرک ٹن رہی ہے۔

تنظیم کے سینئیر نائب صدر شیخ گل بادشاہ کا کہنا ہے کہ شہد کی پیداوار میں کمی کی سب سے بڑی وجہ موسمیاتی تبدیلی ہے، ”پچھلے سال شہد کی مکھیوں پر چند بیماریوں نے حملہ کیا تھا لیکن کورونا وباء کی وجہ سے چین سے بروقت دوائیاں نہ منگوائی جا سکیں جس سے بہت سی مکھیاں مر گئیں۔”

امسال تیز بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے مگس بانوں کو تقریباً 3 کروڑ روپے تک نقصان ہوا ہے جن میں بہت سے اب اس شعبہ ہی کو چھوڑنے کا سوچ رہے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی کس طرح اثرانداز ہوتی ہے؟

موسمیاتی تبدیلیوں سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں پاکستان پانچویں نمبر پر ہے اور ماہرین کے مطابق پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں پیش آنے والے واقعات سے ہر سال چھ ارب ڈالر تک کا نقصان ہوتا ہے۔ جانی نقصان کے علاوہ زراعت ایسا شعبہ ہے جو کہ ان تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثرہ ہے۔

نوشہرہ میں زرعی تحقیقاتی سنٹر ترناب فارم میں شہد کی مکھیوں پر تحقیق کرنے والے ڈاکٹر حسین علی کا کہنا ہے کہ ان مکھیوں پر موسمیاتی تبدیلیوں کا دو طرح کا اثر ہوتا ہے؛ ایک براہ راست اور دوسرا بالواسطہ:

براہ راست اثر:

ڈاکٹر حسین نے براہ راست اثر کے حوالے سے بتایا کہ موسم کی شدت سے ان مکھیوں کی شہد کی پیداواری صلاحیت متاثر ہوتی ہے، ”یہ نہ تو زیادہ گرمی برداشت کر سکتی ہیں اور نہ ہی زیادہ سردی، شہد کی مکھیاں بہت ذہین ہوتی ہیں، یہ اپنی کالونی کا درجہ حرارت 35 ڈگری سینٹی گریڈ قائم رکھتی ہیں، اب اگر عام درجہ حرارت 10 ڈگری سینٹی گریڈ تک گرتا ہے تو یہ مکھیاں ایک دوسرے کے ساتھ خود کو رگڑنے سے کالونی کا درجہ حرارت 35 تک پہنچا دیتی ہیں۔ اور اسی طرح اگر باہر زیادہ گرمی پڑے تو یہ باہر سے پانی لاتی ہیں اور کالونی کے اندر اس میں پر مارنے اور پڑپڑاہٹ سے روم کولر جیسا کام کرتی ہیں اور کالونی کو نارمل رکھتی ہیں۔

اب اگر مکھیاں اپنی کالونی کے درجہ حرارت کو قائم رکھنے میں مصروف رہیں گی تو ظاہری بات ہے ان کو شہد کی پیداوار کے لئے وقت نہیں ملے گا اور ان کی صحت کمزور ہونے سے وہ بچے پیدا کرنے سے بھی قاصر ہوں گی۔

پاکستان میں چونکہ ان بکسوں کے علاوہ جنگلی مکھیاں بھی پائی جاتی ہیں جو کہ عام درختوں وغیرہ میں اپنی چھتے بناتی ہیں اس لئے موسمی شدت کا سب سے بڑا اثر ان جنگلی مکھیوں پر پڑا ہے۔”

ڈاکٹر حسین نے بتایا کہ مشاہدے کے مطابق پہلے ایک کلومیٹر کے علاقے میں ان جنگلی مکھیوں کے پندرہ سے بیس تک کالونیاں ہوتی تھیں لیکن بے ترتیب اور طوفانی بارشوں، ژالہ باری اور موسمی شدت سے اب دو سے تین کالونیاں ہی نظر آتی ہیں۔

بالواسطہ اثر:

مکھیاں چونکہ شہد کے لئے پولن مختلف قسم کے پودوں سے جمع کرتی ہیں اس لئے موسمیاتی تبدیلیوں کے ان پودوں پر اثرات کا بالواسطہ اثر ان مکھیوں اور شہد کی پیداوار پر بھی پڑتا ہے۔

پاکستان میں سب سے اچھی قسم کا شہد بیر اور پلوسہ کا ہوتا ہے لیکن پچھلے چند سالوں میں ان درختوں کی بے دریغ کٹائی کی جا رہی ہے۔ دوسری جانب جن مہینوں میں ان درختوں پر پھول اگتے ہیں تو ان میں تیز بارشیں، طوفان اور ژالہ باری آ جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ پھول اور پولن ضایع ہو جاتے ہیں۔

ڈاکٹر حسین کا کہنا ہے کہ چند سال پہلے 14 اگست سے 30 اکتوبر تک بیر کے شہد کا سیزن ہوتا تھا لیکن موسمیاتی تبدیلیوں سے اب بیر کی درخت پر پھول لیٹ اگتے ہیں اور یہ سیزن اب 15 ستمبر سے شروع ہوتا ہے جس سے مکھیوں کو شہد کے لئے خوراک اور وقت کم ملتا ہے۔

بی کیپرز کی تنظیم کے جنرل سیکرٹری شیر زمان مہمند کہتے ہیں کہ سیزن کا دورانیہ مختصر ہونے کے باوجود اگر موسم اچھا ہو تو ملک بھر میں صرف اس ڈیڑھ مہینے میں 10 ہزار میٹرک ٹن شہد پیدا ہوتا ہے جس میں پچاس فیصد تک حصہ خیبر پختونخوا سے ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے سال بیر کے شہد کی پیداوار 50 فیصد کم ہوئی اور اس سال بھی ابھی تک کے اعداد و شمار سے پیداوار میں کمی نظر آ رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پیداوار کم ہونے سے مقامی مارکیٹ میں بیر کے شہد کی قیمت بھی 100 فیصد سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ پہلے مقامی مارکیٹ میں یہ شہد 12 ہزار فی من کے حساب سے فروخت ہوتا تھا جو کہ اب 25 ہزار روپے فی من تک پہنچ چکا ہے۔

ڈاکٹر حسین کے مطابق سیزن کے مختصر ہونے کے ساتھ ساتھ اب فصلوں کا پیٹرن بھی بدل رہا ہے جس سے ان مکھیوں کو درکار فصل بہت کم ملتی ہے۔ مثلا ڈی آئی خان میں مکھیوں کے لئے موزوں جوار کی جگہ اب گنے کی کاشت کی جاتی ہے۔

انسانی کوتاہیاں:

چند عشرے پہلے حکومت کی جانب سے جہاز سے مچھر مار سپرے کیا جاتا تھا جس کے خلاف مگس بانوں نے عدالت سے رجوع کیا تھا اور عدالت نے حکومت کو اس اقدام سے روک دیا تھا۔ اب حکومت کی جانب سے ایسا کوئی سپرے تو نہیں کیا جاتا لیکن فصلوں پر کئے جانے والے سپرے بھی ان مکھیوں کے لئے جان لیوا ثابت ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر حسین کا کہنا ہے کہ اب موسمیاتی تبدیلیوں سے فصلوں پر مختلف بیماریوں کے حملے بھی زیادہ ہو گئے ہیں جن کے تدارک کے لئے زمیندار زہریلے سپرے کا استعمال کرتے ہیں جو ان مکھیوں کے لئے جان لیوا ہوتا ہے۔

ڈاکٹر حسین جنگلی مکھیوں کی کمی کی وجہ بھی آبادی میں اضافہ اور ان مکھیوں کے ساتھ انسانوں کا خراب رویہ گردانتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ آبادی میں اضافے سے ان مکھیوں کی آماجگاہیں کم ہو گئی ہیں اور دوسری جانب اکثر افراد ان کے چھتوں پر حملے بھی کرتے ہیں اور غیرمحفوظ طریقے سے ان سے شہد بھی حاصل کرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ شہد کی پیداوار میں کمی کی ایک وجہ مگس بانوں کی جانب سے وہی پرانے طریقے استمال کرنا ہے حالانکہ باہر ممالک میں ان میں بہت جدت آئی ہے اور فی چھتہ پیداوار کافی بڑھ گئی ہے لیکن یہاں بدقسمتی سے اب یہ پیداوار کم ہو گئی ہے۔

شہد کی عالمی مارکیٹ پشاور میں

پاکستان میں شہد کی صنعت کو 1980 کے بعد سے فروغ ملا ہے۔ جب افغان مہاجرین یہاں پر آباد ہوئے تو اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین یو این ایچ سی آر نے ان  کو چھوٹے چھوٹے روزگار فراہم کئے جن میں مگس بانی یا شہد کی تجارت سرفہرست تھی۔ چونکہ یہ مہاجرین زیادہ تر خیبر پختونخوا میں آباد ہوئے تھے اس لئے ان کے لئے ترناب فارم کے قریب ایک ہنی مارکیٹ بھی قائم کی گئی جو کہ اب انٹرنیشنل حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ یہ مارکیٹ اب 1200 دکانوں پر مشتمل ہے جن میں افغان مہاجرین کے ساتھ ساتھ سینکڑوں پاکستانی تاجر بھی شامل ہیں۔

ترناب ہنی مارکیٹ کے دکاندار اور تنظیم کے جنرل سیکرٹری شیر زمان کہتے ہیں کہ پاکستان سے برآمد ہونے والے شہد کا زیادہ تر حصہ اسی مارکیٹ سے جاتا ہے لیکن اب پیداوار کی کمی کی وجہ سے برآمدات بھی دن بہ دن کم ہوتی جا رہی ہیں۔

 برآمدات پر اثر

شہد کی برآمدات کے سلسلے میں 2011 پاکستان کے لئے بہت خوشگوار رہا جس دوران تقریباً 26 ہزار میٹرک ٹن شہد برآمد کیا گیا تھا۔

شیر زمان کہتے ہیں کہ اس سال کل 700 کنٹینرز شہد برآمد کیا گیا تھا اور ہر کنٹینر میں 18 سے 20 ہزار کلوگرام تک شہد ہوتا ہے۔ پاکستان سے صرف بیر اور پلوسہ ہی کا شہد برآمد ہوتا ہے جبکہ درآمد کرنے والے ممالک میں سعودی اور دیگر خلیجی ممالک شامل ہیں۔

پاکستانی شہد پر، معیار پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے، امریکہ اور یورپی ممالک میں پہلے سے ہی پابندی عائد ہے جبکہ اب پیداوار کم ہونے کی وجہ سے خلیجی ممالک کو بھی برآمدات نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں۔ ایکسپورٹرز تنظیم کے ڈیٹا کے مطابق پچھلے سال صرف 180 کنٹینر شہد ہی برآمد کیا گیا تھا جس کی بڑی وجہ کورونا وباء کی وجہ سے عالمی پابندیاں تھیں، "امسال ہم نے برآمدات سے کافی امیدیں باندھ لی تھیں لیکن بارشوں نے ان پر پانی پھیر دیا۔” انہوں نے کہا کہ رواں سال بھی برآمد ہونے والے شہد کی مقدار 230 سے 240 کنٹینر ہی ہے۔

شہد کی پیداوار اور معیار کے لئے حکومتی کوششیں

گلاب شاہ اور ان کے مزید 20 ساتھیوں نے بارش سے ہونے والے نقصان کے ازالے کے لئے نیشنل ڈزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کو درخواستیں بھیجی ہیں لیکن دو مہینے گرزرنے کے باوجود انہیں کسی قسم کا جواب نہیں ملا جس کی وجہ سے اب وہ حکومت سے مایوس نظر آتے ہیں۔ گلاب شاہ نے اپنی درخواست کی کاپی ٹی این این کے ساتھ بھی شئیر کی ہے۔ دوسری جانب نیشنل ڈزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کا کہنا ہے کہ انہیں یہ درخواست موصول ہوئی ہے لیکن چونکہ یہ صوبائی حکومت کا دائرہ اختیار ہے اس لئے اتھارٹی نے وہ درخواست تین ستمبر کو خیبر پختونخوا کے ادارہ برائے آفات پی ڈی ایم اے کو بھیج دی تھی۔

ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں اتھارٹی کے ڈزاسٹر رسک ریڈکشن یونٹ کے ممبر ادریس محسود نے اس حوالے سے بتایا کہ انہیں یہ درخواست 28 اگست کو موصول ہوئی تھی جو ادارہ کے اندر بحث مباحثے کے بعد کارروائی کے لئے پی ڈی ایم اے بھیج دی گئی۔

پی ڈی ایم اے نے بھی این ڈی ایم اے کی جانب سے بھیجی گئی درخواست موصول ہونے کا اعتراف کیا ہے اور کہا ہے کہ معاوضوں کی ادائیگی اس کی بھی ذمہ داری نہیں ہے۔

ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں پی ڈی ایم اے کے ترجمان تیمور خان نے بتایا کہ این ڈی ایم اے کو اس حوالے سے جوابی خط لکھا جا رہا ہے اور مگس بانوں کی درخواست کو متعلقہ اضلاع کو بھیجا جائے گا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پی ڈی ایم اے کی جانب سے قدرتی آفات سے متاثرہ افراد کو معاوضوں کی ادائیگی کے لئے فنڈ تمام اضلاع کو مون سون سے پہلے ہی جاری کیا جاتا ہے جبکہ متاثرین کو ادائیگی خیبر پختونخوا پی ڈی ایم اے ریلیف ریگولیشن کے تحت کی جاتی ہے۔

خیال رہے کہ اس ریگولیشن میں آفات کی صورت میں پیش آنے والے جانی اور مالی نقصانات کی ادائیگی کے حوالے سے تمام تفصیلات دی گئی ہیں۔ ان میں جانی نقصانات کے علاوہ مالی نقصانات تعمیرات، فصل، باغات، مختلف قسم کے جانوروں کو پہنچنے والے نقصانات کے عوض دیئے جانے والے معاوضے کا ذکر بھی موجود ہے لیکن شہد کی مکھیوں کے حوالے سے کوئی تفصیلات نہیں ہیں جس کا مطلب ہے کہ پی ڈی ایم اے کی جانب سے یہ درخواست متعلقہ اضلاع کو بھجوانے کے بعد بھی متاثرہ مگس بانوں کو معاوضہ ملنے کی کوئی امید نہیں ہے۔

رواں سال قدرتی آفات سے مگس بانی سمیت تمام شعبوں کو پہنچنے والے نقصانات کے حوالے سے راقم نے بھی صوبائی ادارہ برائے حادثات کو معلومات تک رسائی کے قانون 2013 کے تحت تین ستمبر کو درخواست دی تھی لیکن قانون میں طے شدہ چودہ دن گزرنے کے باوجود اس کا جواب نہیں دیا گیا۔

مگس بانوں اور شہد کے تاجروں کا حکومت سے ہمیشہ سے یہ شکوہ بھی رہا ہے کہ اس شعبے کو صنعت کا درجہ نہیں دیا جا رہا اور امریکہ و یورپ کی منڈیوں تک رسائی کے لئے کوششیں بھی نہیں کی جا رہیں۔

ترکی کے شہد کی پیداوار میں اضافے کی وجوہات

دنیا بھر میں شہد کی ساڑھے چار لاکھ میٹرک ٹن تک سالانہ پیداوار کے ساتھ چین پہلے جبکہ ایک لاکھ میٹرک ٹن کے ساتھ ترکی دوسرے نمبر پر ہے۔

ترکی کے مگس بانوں کو بھی 12-2011 میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پیداوار میں کمی کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن اس کے بعد حکومت نے ان کے لئے مختلف پالیسیاں اور منصوبے بنائے جس کے بعد وہاں پیداوار میں نمایاں اضافہ دیکھنے کو ملا۔

ترک حکومت نے 2015 میں مگس بانوں کو فی چھتہ کے حساب سے دس لیرا (ترکی کی کرنسی) اور اپنے چھتوں کو گرین ہاؤسز میں پولی نیشن کے لئے ایگری کلچر گرین ہاؤس سسٹم کے ساتھ رجسٹر کرنے والے مگس بانوں کو 60 لیرا دینے کا آغاز کیا تھا جس سے دیکھتے ہی دیکھتے یہ صنعت آگے بڑھتی گئی۔

خیبر پختونخوا حکومت کا منصوبہ

لیکن اب خیبر پختونخوا کی حکومت نے اس شعبے میں سرمایہ کاری کا فیصلہ کر لیا ہے اور اس ضمن میں صوبے کے دس ضلعوں میں ایک پراجیکٹ شروع کرنے کی تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں جس کا آغاز جلد کیا جائے گا۔

پراجیکٹ کے سربراہ اور انٹامالوجی ریسرچ سنٹر چارسدہ کے سینئر محقق ڈاکٹر محمد یونس کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ گورنر شاہ فرمان کی ہدایات پر شروع کیا جا رہا ہے کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ یہاں سے حاصل ہونے والے شہد کے معیار کو بہتر بنایا جا سکے تاکہ نا صرف صوبے میں اس سے براہ راست اور بالواسطہ وابستہ ایک لاکھ سے زائد افراد کو فائدہ ہو بلکہ پھر یہ شہد امریکہ اور یورپی ممالک بھی برآمد کیا جا سکے۔ منصوبہ دو حصوں پر مشتمل ہو گا:

1: منصوبے کے تحت ترناب فارم میں ہنی کوالٹی ٹیسٹنگ لیب یعنی شہد کا معیار جانچنے کی لیبارٹری قائم کی جا رہی ہے جس سے ایک تو مقامی لوگوں کو اصلی اور جعلی شہد کی پہچان میں مدد ملے گی اور دوسری جانب ہم امریکہ اور یورپی ممالک کے معیار کے مطابق شہد بھی تیار کر سکیں گے۔

2: منصوبے کے دوسرے حصے میں صوبائی حکومت کی جانب سے مگس بانوں کو مکھیوں کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی کے حوالے سے تربیت فراہم کرنا، ان کی دیکھ بال کے جدید طریقے اور ان پرانی پیٹیوں کی جگہ نئے جرمن اور ترکی ماڈل کی پیٹیاں فراہم کرنا شامل ہے۔

موٹروے کے کنارے مخصوص درخت مکھیوں کے مسکن

مگس بانوں اور شہد کے تاجروں کی تنظیم کے نائب صدر گل بادشاہ کہتے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے وزیر مواصلات نے مگس بانوں ہی کے مشورے پر پشاور سے اسلام آباد تک موٹروے کے کنارے بیر، سفیدہ، کیکر اور دوسرے ایسے مخصوص درخت اگائے ہیں جو شہد کی پیداوار کے لئے موضوع ترین ہیں۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے بلین ٹری سونامی پراجیکٹ میں ان لوگوں کے ساتھ کوئی صلاح مشورہ نہیں کیا تھا اور اس میں زیادہ تر ایسے درخت لگائے گئے ہیں جن کا شہد کی مکھیوں کو کوئی فائدہ نہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مگس بانی اور شہد کی پیداوار حکومت کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button