سیاستکالم

عارف علوی ایوان صدر کے سربراہ یا یرغمالی؟

ابراہیم خان

ایوان صدر اسلام آباد میں تو کھچڑی کئی دنوں سے پک رہی تھی۔ اس کھچڑی کے بارے میں ان سطور میں پیشن گوئی کر دی گئی تھی کہ آئندہ چند روز میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی بہت اہمیت اختیار کر جائیں گے۔ صدر کی اچانک اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ سابق وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اپنی حکومت کے آخری ایام میں ڈاکٹر عارف علوی کو میڈیا کے ذریعے یہ پیشکش آشکار کی تھی کہ اگر صدر چاہیں تو وہ اپنے عہدے پر برقرار رہ سکتے ہیں۔ صدر مملکت پر اس ‘مہربانی’ کے بدلے میں ان سے تعاون مانگا گیا تھا۔ عارف علوی نے یہ تعاون، جو بلوں پر دستخط کی صورت میں تھا، وہ تعاون انہوں نے حکومت کے خاتمے تک نہیں کیا۔ صدر کی طرف سے جب مطلوبہ تعاون فراہم نہیں کیا گیا تو ظاہر ہے کہ یہ پیشکش بھی واپس لے لی گئی۔ حکومت نے بلوں پر دستخط کے لئے مبینہ طور پر وہ راستہ چنا جس کی آج تک پاکستان میں نظیر نہیں ملتی۔

یہ سازش ماضی میں ہونے والی کئی سازشوں کی طرح شائد کبھی بے نقاب نہ ہو سکتی اگر صدر مملکت 20 اگست بروز اتوار کو چھٹی کے روز اچانک اپنے ذاتی ٹوئٹر(ایکس) اکاؤنٹ سے اس بارے میں ٹویٹ نہ کرتے۔ صدر مملکت نے اس ایک ٹویٹ سے پاکستانی سیاست کی چولیں ہلا کر رکھ دیں۔ اگرچہ آئینی لحاظ سے اس معاملے پر صدر کو عدالتی سپورٹ تو نہیں مل سکتی۔ حکومت اس کے جواب میں یہ کہہ رہی ہے کہ صدر نے جان بوجھ کر بل کو لٹکایا۔ پھر بھی صدر مملکت نے ٹویٹ کر کے اپنی پوزیشن واضح کی کہ انہوں نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ بل 2023ء اور آرمی ایکٹ بل 2023ء پر دستخط نہیں کئے۔ یہ بل علی الترتیب 8 اور 2 اگست کو قومی اسمبلی سے صدر کے پاس منظوری کیلئے بھجوائے گئے تھے۔ آئین پاکستان کے تحت جو قوانین قومی اسمبلی اور پھر سینٹ میں علیحدہ علیحدہ منظور کئے جاتے ہیں ان پر آخری مرحلے میں صدر مملکت کا دستخط ثبت ہونا لازمی ہوتا ہے۔ قومی اسمبلی اپنے آخری ایام میں جب بل اگلنے والی مشین بنی ہوئی تھی اور محض دو روز میں 50 سے زیادہ بل منظور ہوئے تو ان بلوں کو صدر کے پاس بھجوا دیا گیا۔ جنہوں نے ان میں سے متعدد بلوں کو جو مفاد عامہ سے متعلق تھے ان پر دستخط کر دئے۔ صدر مملکت کے مطابق انہوں نے دو بل, جن میں آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے حوالے سے تھے, سے اتفاق نہ کرتے ہوئے واپس بھجوانے کی ہدایت کی تھی۔ صدر عارف علوی کی یہ ٹویٹ، جس کو لگ بھگ سوا کروڑ لوگ دیکھ چکے ہیں، میں انہوں نے بغیر کسی لگی لپٹی رکھے اللہ کو گواہ بنا کر کہا کہ انہوں نے ایوان صدر کے عملے سے کہا تھا کہ ان دونوں بلوں کو وقت مقررہ کے اندر اندر واپس حکومت کو بھیج دیے جائیں جس پر انہیں بتایا گیا کہ یہ دونوں بل واپس بھیج دئے گئے ہیں۔جیسا کہ بتایا گیا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ والا بل8 اگست کو صدر عارف علوی کے پاس بھجوایا گیا تھا جبکہ اس سے پہلے آرمی ایکٹ والا بل 2 اگست کو صدر مملکت کے پاس منظوری کے لئے بھجوایا گیا تھا۔ قوانین کے اعتبار سے صدر مملکت ان بلوں پر یا تو 10 روز کے اندر اندر دستخط کریں گے یا پھر اسی مدت کے دوران اعتراض لگا کر بغیر دستخط کے اسے واپس بھیج دیں گے۔

صدر کا ان بلوں پر دستخط ہونا لازمی ہے جو قومی اسمبلی اور سینٹ سے علیحدہ علیحدہ اجلاس کے دوران منظور ہو کر آتے ہیں، لیکن وہ بل جو صدر مملکت کے پاس قومی اسمبلی اور سینٹ کے مشترکہ اجلاس سے منظور ہو کر آتے ہیں ان میں فرق یہ ہے کہ اگر صدر مملکت 10 روز کے اندر ان پر دستخط نہیں کرتے تو بھی ایسی صورت میں وہ بل خود بخود قانون کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ان دونوں بلوں کے معاملے میں حکومت عجلت میں غلطیوں پر غلطیاں کر گئی۔ پہلی غلطی تو یہ کی گئی کہ جب حکومت کو معلوم تھا کہ ایوان صدر میں ایک ایسا شخص صدر کے عہدے پر فائز ہے جو غیر مناسب قوانین پر دستخط نہیں کرے گا تو پھر اس قانون کو قومی اسمبلی و سینٹ کے مشترکہ اجلاس سے منظور کرایا جانا چاہیے تھا۔ مشترکہ اجلاس سے منظور ہونے کی صورت میں صدر مملکت کا دستخط پھر غیر اہم ہو جاتا، لیکن حکومت نے ایک تو یہ غلطی کی کہ اسے مشترکہ اجلاس سے نہیں پاس کروایا تو دوسری طرف اس نے یہ غلطی کی کہ آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کو باقاعدہ قانون بنانے کے معاملے میں جو مبینہ غلطیاں کی اس میں بھی احتیاط نہیں برتی گئی۔ اگر حکومت اس دس روزہ مہلت پر انحصار کر رہی تھی، تو اس اعتبار سے تو آرمی ایکٹ کے دس روز 12 اگست کو مکمل ہو رہے تھے اس لئے 13 اگست کو آرمی ایکٹ کے باقاعدہ قانون بننے کا گزٹ نوٹیفیکیشن کر دیا جانا چاہیے تھا

۔حکومت نے اپنی طرف سے یہ چالاکی کی کہ اس نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ جو 8 اگست کو صدر مملکت کے پاس بھجوایا گیا تھا، دس یوم اس حساب سے گنے اور جب 18 اگست کی تاریخ گزر گئی تو 19 اگست کو ان دونوں بلوں کو ملا کر ایک ہی دن ان کا گزٹ نوٹیفیکیشن جاری کر دیا گیا۔ دوسری طرف صدر مملکت کے مطابق انہوں نے اپنے عملے سے بار بار استفسار کیا کہ مذکورہ دونوں بل وقت مقررہ سے پہلے بھجوا دیے گئے ہیں۔ تو انہیں یقین دلایا گیا کہ یہ بل واپس بھیجے جا چکے ہیں۔ صدر جو بات کر رہے ہیں وہ بھلے درست بھی ہو لیکن اگر ان کے پاس عملے سے اس بات چیت کا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ہے تو پھر اس کا انہیں کوئی فائدہ نہیں۔ بہرحال ایوان صدر میں جو کھچڑی پک رہی تھی اس میں افرا تفری اس وقت پھیلی جب 19 اگست کو یہ خبر منظر عام پر آئی کہ صدر مملکت نے مذکورہ دونوں بلوں پر دستخط ثبت کر دیے ہیں۔

صدر مملکت نے لگ بھگ 30 گھنٹے تک اس اس بات کا کھوج لگانے کی کوشش کی کہ بلوں پر کون سے دستخط کئے گئے ہیں؟ مگر انہیں اس کا جواب نہیں مل سکا۔ صدر مملکت کو جب اس بات کا اندازہ ہو گیا کہ ان کا اپنا معاون عملہ انہیں جل دینے پر تلا بیٹھا ہے تو پھر انہوں نے اللہ تعالی کو گواہ بنا کر اس ٹویٹ کا سہارا لیا۔ جس نے پاکستان میں اقتدار کے ایوانوں میں بھونچال برپاء کر دیا ہے۔ عارف علوی نے چونکہ اللہ کی ذات کا سہارا لیا تو شائد اسی یقین کی وجہ سے خود حکومتی اعتراف کے باعث وہ سچے قرار پائے۔ محکمہ قانون پاکستان کی طرف سے عجلت میں اس بات کو تسلیم کر لیا گیا کہ صدر نے دونوں بلوں پر دستخط نہیں کئے ۔ اس ‘بے وقوفی’ یا اعتراف سے صدر مملکت تو سچے ثابت ہو گئے لیکن قانون کی عدالت میں بے سود ہے۔حکومت نے اس قانون کو استعمال کرتے ہوئے رات تین بجے شیریں مزاری کی بیٹی اور ہیومن رائٹس ورکر ایمان مزاری کو گھر کے اندر گھس کر اسے خوابیدگی کے لباس میں اٹھا کر گرفتار کر لیا۔ بات صرف یہیں تک محدود نہیں رہی بلکہ سائفر کے معاملے پر بھی اسی آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے قانون کو استعمال کرتے ہوئے، پہلے تحریک انصاف کے نائب چیئرمین شاہ محمود قریشی اور پھر سابق سیکرٹری جنرل اسد عمر کو گرفتار کر لیا۔

حکومت کی طرف سے ایک غلطی یہ ہوئی کہ اگر اس نے مبینہ جعلی دستخط کی مہم جوئی کر ہی ڈالی تھی تو پھر اس بات پر ڈٹ جاتی کہ یہ دستخط عارف علوی کے ہی ہیں۔ اس لئے کہ ایوان صدر میں جو عملہ موجود ہے اس نے تو عارف علوی پر واضح کر دیا ہے کہ ان کے پاس اللہ کے سواء کوئی گواہ موجود نہیں اور اللہ نے عارف علوی کا مان نہیں توڑا۔

صدر مملکت کی اس ٹویٹ کے بعد پاکستان کی ریاست دنیا بھر میں ایک مذاق بن گئی ہے۔ یہ کس قدر شرمندگی کا مقام ہے کہ دنیا میں یہ بات ہو رہی ہے کہ پاکستان کے موجودہ صدر کے جعلی دستخط کئے گئے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں پاکستان کے بارے میں یہ جگ ہنسائی ہو رہی ہے کہ اس مملکت میں صدر کے بھی جعلی دستخط کئے جا رہے ہیں۔

اس صورتحال کا یہ بھی تکلیف دہ پہلو ہے کہ ایوان صدر میں بیٹھا ملک کا آئینی سربراہ اپنے عملے کے سامنے اس قدر بے بس ہے کہ وہ اس سے دستاویزات کے بارے میں بھی مبینہ دروغ گوئی کررہے ہیں۔ پاکستان کے بارے میں اب طرح طرح کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ وزیراعظم ہاؤس سے تو اس سے پہلے حساس آڈیو لیکس نے خبردار کر دیا تھا کہ وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والی بات چیت محفوظ نہیں ہے۔ لیکن اب تو بات اس قدر بڑھ گئی ہے کہ دنیا بھر میں یہ باتیں ہو رہی ہیں کہ پاکستان کے چیف ایگزیکٹو کا وزیراعظم ہاؤس اور ایوان صدر تک محفوظ نہیں ہیں۔ صدر اپنے صدارتی محل میں عملے کی من مانی کی وجہ سے یرغمال کی حیثیت سے رہ رہا ہے۔ یہ صورتحال پاکستان کا منفی تاثر دنیا میں پیش کر رہی ہے۔ اس صورتحال کے ذمہ داران کی تلاش کی جا رہی ہے۔ اس میں جو نام سامنے آرہا ہے وہ وزیراعظم کے معاون خصوصی احد چیمہ کا ہے۔ احد چیمہ سابق وزیر اعظم شہباز شریف کے دست راست سمجھے جاتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ کوئی بھی کام شہباز شریف کی اجازت کے بغیر نہیں کرتے۔ ملک کے وزیراعظم ہاؤس اور ایوان صدر میں جتنے عملے کی تعیناتی ہوتی ہے وہ احد چیمہ کے ہاتھوں سے ہی ہوتی ہے۔ احد چیمہ کے پاس شہباز شریف کے دور میں بھی یہ ذمہ داری تھی اور اب انوار الحق کاکڑ کے دور میں بھی یہ ذمہ داری احد چیمہ کے پاس ہی موجود ہے۔ اس اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو شہباز شریف وزارت عظمیٰ کے منصب سے اتر کر بھی بالواسطہ طور پر پاکستان کے ان دونوں بڑے ہاؤسز کی تمام سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ یہ احد چیمہ ہی ہے جو اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ ایوان صدر یا وزیراعظم ہاؤس میں کس کو کہاں تعینات کرنا ہے۔

صدر مملکت کی جانب سے اندر کی صورتحال سامنے لانے کے بعد مختلف ردعمل سامنے آئے، تاہم زیادہ تر اگر دیکھا جائے تو صدر مملکت کے اس ٹویٹ کو سراہا گیا۔ اس رد عمل میں اگر ایک طرف خواجہ آصف اور رانا ثنا اللہ کی طرف سے یہ بات کہی گئی کہ صدر مملکت اگر اپنے عملے پر قابو نہیں پا سکتے تو انہیں استعفی دے دینا چاہیے تو دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے صدر کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ عارف علوی نے اپنا حق ادا کر دیا ہے۔ یہ تعریف و تنقید اپنی جگہ لیکن یہ بات بھی زیر گردش ہے کہ بعض حلقے جو اس ٹویٹ سے متاثر ہوئے ہیں، ان کے خیال میں صدر عارف علوی سے استعفیٰ لے لینا چاہیے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صدر کو موجودہ حالات میں ہٹایا جا سکتا ہے؟ تو اس کا مختصر ترین جواب نفی میں ہے۔ صدر کو ہٹانے کے لئے آئین میں ایک ہی راستہ ہے کہ پارلیمنٹ ان کا مواخذہ کر کے صدر کو ہٹا سکتی ہے۔ اب بدقسمتی یا خوش قسمتی یہ ہے کہ پارلیمنٹ 12 اگست کو ختم ہو چکی ہے۔ ان حالات میں نئے صدر کا انتخاب بھی ممکن نہیں ہے۔

یاد رہے کہ صدر عارف علوی عہدے کی مدت 9 ستمبر کو ختم ہونے والی ہے، لیکن اس وقت ملک کی چاروں صوبائی اسمبلیاں اور قومی اسمبلی کا وجود ہی نہیں ہے۔ یہ اسمبلیاں صدر کے انتخاب کا الیکٹورل کالج ہیں اس لئے نئے صدر کے انتخاب تک عارف علوی کو آئینی لحاظ سے منصب صدارت سے ہٹانا ناممکن ہے۔ آئینی اعتبار سے اگر تھوڑی بہت کوئی گنجائش ہے تو وہ یہ ہے کہ اگر صدر کو مخبوط الحواس یا دماغی مریض ثابت کیا جائے تو پھر ان سے جان چھڑائی جا سکتی ہے۔ اس آئینی ‘سہولت’ کو حاصل کرنے کے لئے طبی ماہرین درکار ہوں گے۔ اس کے علاوہ صدر کے منصب سے ہٹنے میں ایک صورت ان کی موت بھی ہوسکتی ہے۔ ان امکانات کے علاوہ صدر کو ہٹانے کا کوئی دوسرا آئینی راستہ نہیں ہے۔ لیکن مملکت پاکستان میں اس قسم کی برطرفیاں یا بھرتیاں کوئی مشکل کام نہیں۔ سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے دور میں صدر رفیق تارڑ ایوان صدر کے مکین تھے۔ وہ کہنے کو تو منتخب صدر مملکت تھے لیکن جب یہ طے ہوا کہ جنرل پرویز مشرف مذاکرات کیلئے ہندوستان جائیں گے اور ہندوستان کی طرف سے یہ شرط رکھی گئی کہ جنرل پرویز مشرف فوجی کی حیثیت سے نہیں بلکہ کوئی سول عہدیدار کی ٹوپی پہن کر ہندوستان آئیں تاکہ ہندوستانی فوج انہیں اس عہدے کے مطابق سلامی دے سکے۔ ہندوستان کی اس خواہش کو پورا کیا گیا، اور پرویز مشرف نے راتوں رات فوجی یونیفارم کے اوپر صدارتی شیروانی پہن لی۔ آئین تب بھی موجود تھا ایوان صدر میں رفیق تارڑ منتخب صدر تھے لیکن انہیں مکھن میں سے بال کی طرح نکال کر باہر کر دیا گیا۔ صرف مسلم لیگ کے اندر سے چند آوازیں اٹھیں لیکن وہ آوازیں بھی نقار خانے میں طوطی کی صدائیں ثابت ہوئیں۔

یہاں یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ عارف علوی کے مقابلے میں اگر دیکھا جائے تو رفیق تارڑ بیچارے نے تو کچھ بھی نہیں کیا تھا۔ لیکن آئینی صدر ہونے کے باوجود اسے فارغ کر دیا گیا۔ صدر عارف علوی کا ‘جرم’ بہت بڑا ہے اس نے پاکستان کے ایوانوں کے اندر جاری مبینہ دھوکہ دہی کے نظام کو آشکارا کیا ہے۔ عارف علوی جن کے بارے میں تحریک انصاف کے اندر سے بدگمانیاں امڈ رہی تھیں کے پاس محدود آپشن ہیں کیونکہ ان کے پاس اپنے عملے کی حکم عدولی کا کوئی تحریری ثبوت نہیں، جس کی بنیاد پر وہ سپریم کورٹ سے اس صورتحال کے بارے میں رجوع کر سکیں۔ حکومت کے پاس بھی سر دست ایسی کوئی سہولت موجود نہیں کہ وہ صدر عارف علوی کے خلاف کوئی مقدمہ کر سکیں یا انہیں عدالت میں گھسیٹ سکیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صدر کو ملک کے آئینی سربراہ ہونے کے ناطے جب تک وہ اس عہدے پر براجمان ہیں انہیں استثنٰی حاصل ہے۔ صدر کی ان سرگرمیوں کے آگے بند باندھنے کیلئے ان سے استعفٰی مانگا بھی جا سکتا ہے اور دوسری صورت میں وہ رفیق تارڑ پارٹ ٹو بھی بنائے جا سکتے ہیں. لیکن اس بار یہ احتیاط کرنی ہوگی کہ یہ 2023 ہے اگر رفیق تارڑ والی تاریخ دہرائی گئی تو دنیا میں پاکستان کی ساکھ مزید متاثر ہوگی۔ اس لئے بہتر یہی ہوگا کہ عارف علوی کو آئین کی پی ٹی آئی برانڈڈ ایک کڑوی گولی سمجھ کر اس وقت تک برداشت کر لیا جائے جب اسمبلیاں معرض وجود میں آئیں اور نئے صدر کا انتخاب کر لیا جائے، اسی میں پاکستان کی بہتری ہے۔

نوٹ: لکھاری کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button