سیاستکالم

صدر مملکت نگرانوں سے بھی زیادہ اہم ہوگئے

 

ابراہیم خان

وزیراعظم میاں شہباز شریف نے پرنم آنکھوں کے ساتھ قومی اسمبلی کی تحلیل کی ایڈوائس پر دستخط کر کے اسے صدر مملکت کے پاس بھجوا دیا۔ صدر مملکت عارف علوی جو اس سے قبل حکومت کی طرف سے آنے والی دستاویزات پر دستخط تاخیر سے کرنے کے لئے خاص شہرت پاچکے ہیں، انہوں نے وزیراعظم کی بھیجی ہوئی اس سمری پر فوری طور پر دستخط کر دئے۔ بلکہ انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور اپنے دفتر تک آنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی۔ انہیں قصر صدارت میں اپنے رہائشی حصے میں یہ ایڈوائس موصول ہوئی اور موصوف نے وہیں اس پر دستخط کر کے آئینی طور پر قومی اسمبلی کو غتر بود کر دیا۔

صدر مملکت کے دستخط کے بعد اسمبلی تحلیل ہو چکی ہے۔ حکومتی کابینہ فارغ ہو گئی ہے لیکن وزیراعظم شہباز شریف ابھی تک اپنے عہدے پر براجمان ہیں۔ وزیراعظم کے عہدے پر برقرار رہنے کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ 14 اگست تک اس عہدے پر برقرار رہنا چاہتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ 14 اگست کے روز وہ جشن آزادی کی تقریبات میں پاکستانی جھنڈا لہرانے کے بعد اپنے منصب سے سبکدوش ہوں۔ ان کی یہ خواہش ہے کہ وہ اس روز بطور وزیراعظم اپنی آخری تقریر کریں۔ وزیراعظم کی یہ خواہش اپنی جگہ لیکن آئین پاکستان کے تحت اسمبلیاں تحلیل ہونے کے تین روز بعد تک سابق وزیراعظم کو یہ چھوٹ حاصل ہے کہ وہ اپنے عہدے پر نئے نگران وزیراعظم کی تقرری تک کام کرتا رہے۔

وزیراعظم شہباز شریف کی یہ خواہش آئین کے تحت اگر دیکھا جائے تو 12 اگست سے آگے نہیں جا سکتی لیکن اس حکومت کے دوران جس طرح آئین کے برخلاف اقدامات بڑی "مستقل مزاجی” سے کئے جاتے رہے ہیں اس کے بعد یہ امکان موجود ہے کہ شہباز شریف کے اقتدار کی یہ آخری خواہش بھی جیسے تیسے کر کے پوری کر دی جائے گی۔ان کی یہ آخری خواہش اگرچہ غیر آئینی ہے لیکن اسے معصوم خواہشوں کی فہرست میں ڈال کر پورا کرنے کی اجازت شائد مل جائے۔ان کی اس خواہش کا احترام سیاسی حلقوں کے مطابق اس وجہ سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ وہ مبینہ طور پر اپنی خواہش کے مطابق نگران وزیراعظم نہیں لا سکے۔ ان حلقوں کا دعوی ہے کہ نگران کابینہ کا چناؤ کوئی اور کر رہا ہے۔ یہ حلقے استدلال کے طور پر نو اگست کو وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض کی ملاقات کی منسوخی کو پیش کر رہے ہیں۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ ابھی نگران پراجیکٹ مکمل نہیں ہوا تھا، اس لئے "مشاورت” منسوخ کر دی گئی۔

جب یہ پراجیکٹ مکمل ہو جائے گا تو وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی صرف رسمی ملاقات ہوگی جس کو فوٹو سیشن سے زیادہ اہمیت نہیں ہوگی۔ راجہ ریاض سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے قومی اسمبلی سے استعفوں کی وجہ سے ملکی تاریخ کے ایسے اپوزیشن لیڈر بنے ہیں جنہیں اپوزیشن لیڈر کہتے ہوئے بھی عجیب سا محسوس ہوتا ہے۔ راجہ ریاض کو خود بھی اس حیثیت کا بخوبی علم ہے۔ اسی لئے وہ کہہ چکے ہیں کہ وہ اگلا انتخاب مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر لڑیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ شہباز شریف اور راجہ ریاض کی ملاقات کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی جا رہی، بس یہ ایک ائینی ضرورت ہے جسے ایک فوٹو سیشن سے مکمل کر لیا جائے گا۔نگران وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے نام اب بہت جلدی سامنے آجائیں گے۔ نگرانوں کے نام تو سامنے آجائیں گے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نگران جس کام کے لئے لائے جا رہے ہیں، اس کا ابھی دور دور تک نام و نشان دکھائی نہیں دے رہا۔ پاکستان کے آئین کے تحت ملک میں عام انتخابات کی شفافیت کو بڑھانے کے لئے نگران کابینہ لائی جاتی ہے۔ نگران حکومتوں کا یہی بنیادی فریضہ ہوتا ہے کہ وہ ملک میں عام انتخابات کرائیں اور گھرچلے جائیں۔ اس بار نگرانوں کے آنے سے پہلے ہی یہ شور گرم ہے کہ نگران لمبے عرصے کے لئے آئیں گے۔ نگران حکومت کو زیادہ با اختیار بنانے کے لئے پہلے سے آئین میں ترمیم کر دی گئی جس کے تحت اب نگران حکومت ماضی کے مقابلے میں بہت مضبوط ہوگی۔ ان کو وہ اختیارات بھی پارلیمنٹ کے ذریعے تفویض کر دیے گئے ہیں جن کی کبھی ضرورت تک محسوس نہیں کی گئی۔ ان حالات میں یہ بات واضح ہے کہ نگران حکومت لمبا قیام کرے گی۔ نگرانوں کایہ قیام کتنے عرصے پر محیط ہوگا اس کے بارے میں بھی کسی کو معلوم نہیں۔

سر دست مشترکہ مفادات کونسل سے ایک ایسا فیصلہ کرایا گیا ہے جس کے تحت انتخابات نئی حلقہ بندیوں کے تحت کرائے جائیں گے۔ یہ فیصلہ ماہرین کے مطابق سراسر غیر آئینی ہے کیونکہ اس فیصلے میں خیبر پختونخوا اور پنجاب کے منتخب وزرائے اعلی نے کی غیر موجودگی میں نگران وزرائے اعلی نے ووٹ ڈالا جو کسی بھی طور آئینی طریقے سے قابل قبول نہیں۔ بہرحال اس کے باوجود حکومت کا اصرار ہے کہ اب نئی ڈیجیٹل مردم شماری اور حلقہ بندیاں کرانے کے بعد انتخابات ہوں گے۔ یہ نیا اعلان بھی کسی طور آئین کے مطابق نہیں ہے۔البتہ اس سے ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ آئین کے تحت نومبر میں انتخابات کا ہونا محال دکھائی دے رہا ہے۔ اس لئے اب ملک میں سیاسی جماعتیں اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد جدوجہد کریں گی کہ جتنا جلد ممکن ہو وہ ملک میں نئے انتخابات کی راہ ہموار کر لیں۔

ملک میں عام انتخابات کے حوالے سے تو دلی ہنوز دورست والا معاملہ ہے، لیکن حکومت کے لئے ایک مشکل یہ بھی ہے کہ آئین کے تحت صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی مدت صدارت نو ستمبر کو پوری ہو رہی ہے۔ موجودہ اسمبلیوں کی تحلیل اور انتخابات میں مبینہ تاخیر کے امکان کے پیشِ نظر اب یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ اگلے صدر کا انتخاب کیسے اور کب ہو گا؟یہ مشکل اس وجہ سے پڑی ہے کہ پاکستانی صدر کا انتخاب مخصوص الیکٹورل کالج کرتا ہے، جس میں چاروں صوبائی اسمبلیاں، سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اراکین ووٹر ہیں۔ قومی اسمبلی بدھ کے دن تحلیل ہو چکی، جبکہ دو صوبوں میں پہلے ہی سے نگران حکومتیں کام کر رہی ہیں اور بقیہ دو بھی اسمبلیاں تحلیل ہونے کو ہیں۔ایسی صورتِ حال میں نئے صدر کا انتخاب ممکن نہیں۔
حکومت کی مشکل یہ ہے کہ اگرصدر مملکت کا تعلق کسی "معقول” سیاسی جماعت سے ہوتا تو شائد اتنے خدشات نہ ہوتے جو اس وقت موجود ہیں۔ صدر ڈاکٹر عارف علوی کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے جس کا ناطقہ بند کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔اس لئے بظاہر تو یہ دکھائی دے رہا ہے کہ صدر مملکت کو ان کے عہدے سے اس وقت تک نہیں ہٹایا جا سکتا، جب تک قومی و صوبائی اسمبلیاں معرض وجود میں نہیں آجاتیں۔نئے صدر کے انتخاب کی یہ تاخیر اس وقت مزید بڑھ سکتی ہے، اگر عام انتخابات مارچ 24 سے آگے چلے گئے۔ ایسی صورت میں پھر پہلے صوبائی اسمبلیاں اور قومی اسمبلی مل کر ایوان بالا کے نصف ممبران جو ریٹائر ہو چکے ہوں گے ،کا چناؤ کریں گی تب جاکر صدارتی الیکٹورل کالج مکمل ہوگا۔ اس تکمیل کے بعد صدر کا انتخاب ممکن ہوگا اس اعتبار سے حکومت کو عارف علوی کے ساتھ ہی گزارا کرنا پڑے گا۔ آئین کے آرٹیکل 44 کے تحت اس وقت تک عارف علوی صدر مملکت کے عہدے پر اس وقت تک فائز رہیں گے جب تک نئے صدر کا انتخاب نہیں ہو جاتا۔آئین کے آرٹیکل 44 کے مطابق چیئرمین سینیٹ قائم مقام صدر مملکت کا عہدہ نہیں سنبھال سکتے۔ واضح ہو کہ چیئرمین سینیٹ اس وقت قائم تمام صدر بن سکتے ہیں جب صدر مملکت بیرونِ ملک ہوں یا بیمار یا رخصت پر ہوں یا پھر اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں یا فوت ہوجائیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ ڈاکٹر عارف علوی کے مسند صدارت پر براجمان رہنے سے اب مسئلہ یہ بھی کھڑا ہو سکتا ہے کہ کیا صدر جانے والی اسمبلی کے آخری دنوں میں انتہائی عجلت میں پاس کرائے گئے بلوں پر دستخط کریں گے یا نہیں؟

سابق حکومت اور اس کے پشت پر کھڑی قوتوں کے حساب سے ان میں سے بعض بل اہمیت کے حامل ہیں۔ اگرچہ زیادہ تر بل ایسے ہیں جو حکمرانوں نے ذاتی فائدے کے لئے منظور کروائے۔اب صدر مملکت کے پاس یہ آپشن موجود ہے کہ وہ اگر چاہیں تو ان بلوں پر دستخط نہ کر کے انہیں روک سکتے ہیں۔قومی اسمبلی نے آخری دو دنوں میں 53 بل منظور کئے۔حکومتی حلقے پر امید ہیں کہ صدر عارف علوی ان بلوں پر دستخط کر دیں گے۔ یاد رہے کہ ابھی چند روز قبل ہی سابق وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے دبے لفظوں میں صدر عارف علوی کو یہ پیشکش کی تھی کہ” اگر وہ چاہیں تو انہیں صدر کے عہدے پر برقرار رکھا جا سکتا ہے”۔ یہ پیشکش ظاہر ہے بغیر کسی سودے کے تو نہیں ہو سکتی۔ اس لئے اب خاص طور پر ان بلوں کو منظور کرنے کے حوالے سے صدر مملکت کا کردار بہت اہم ہے۔ان دستخطوں کے بارے میں اس وقت بحث جاری ہے۔ مختلف لوگ اپنے اپنے موقف کا اظہار کر رہے ہیں۔ مگر اس حوالے سے عمران خان کے توشہ خانے کے مقدمے میں وکیل عبداللطیف کھوسہ نے بڑا بے ساختہ تجزیہ کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ "اگر عارف علوی ابھی بھی اندر سے پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ کھڑے ہیں تو وہ ان بلوں پر دستخط نہیں کریں گے بصورت دیگر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ وہ بھی جلد پریس کانفرنس کر دیں گے”۔پاکستانی سیاست میں اس قسم کے اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں جن میں بہت سی تبدیلیاں وقت اور ضرورت کی وجہ سے پیش آتی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف ان دنوں جن مشکلات کا شکار ہے وہ اس کی اپنی بے وقوفی کی وجہ سے ہے۔ عمران خان کو یہ سوچنا چاہیے کہ ان کے ایک صدر کی وجہ سے حکومت کو کتنے معاملات میں مشکلات اٹھانی پڑیں۔ اگر وہ قومی اسمبلی سے استعفیٰ نہ دیتے اور دونوں صوبوں کی اپنی حکومتیں بھی نہ ختم کرتے تو اتحادی حکومت کے لئے یہ ڈیڑھ سال کاٹنا بہت مشکل ہو جاتا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button