ابراہیم خان
ایک بات تو طے ہے کہ اگر کوئی بہت بڑی انہونی نہیں ہوتی تو پاکستان میں طاقت کے موجودہ حلقے کسی بھی طور ایسے انتخابات کے حق میں نہیں کہ جن میں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کو انتخابی عمل میں شمولیت کی کھلی چھوٹ ہو کیونکہ مستقبل کا جو انتخابی نقشہ دکھائی دے رہا ہے اس میں صرف اسی تحریک انصاف کو انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت ہو گی جس کے لیے عمران خان انتخابی مہم نہیں چلا سکیں گے جبکہ عین ممکن ہے کہ انہیں گرفتار کرلیا جائے اور یہ اسیری اس وقت ختم ہو جب انتخابی عمل اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہو۔
گویا انتخابی عمل ختم ہو جائے اور اس کے بعد عمران خان کو رہا کر دیا جائے گا لیکن اس طرح کم از کم انتخابات مائنس عمران خان ہوجائیں گے۔ یہ تجویز فیصلہ سازوں کے زیر غور ہے جس کو پلان (بی) یا شائد پلان (سی) بھی کہا جاسکتا ہے۔ پلان (اے) کے تحت عمران خان سمیت پاکستان تحریک انصاف کی باقی ماندہ ننھی منی سی قیادت کو تو 9 مئی کے واقعات کی بنیاد پر ہی سزا دینی ہے۔ اس سزا کے بارے میں سپریم کورٹ نے استفسار بھی کیا ہے کہ فوجی عدالتیں کتنی سزا دیں گی؟ اگر یہ مقدمات حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی منشاء کے مطابق فوجی عدالتوں کی طرف جاتے ہیں تو وہاں سے ملنے والی سزائے قید پوری ہونے کے دوران انتخابات ہوجائیں گے۔ عمران خان اگر جیل میں ہوئے ‘تو نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری’ والا معاملہ ہوگا۔ الیکشن کے بعد والی تحریک انصاف کے خدو خال کیا ہوں گے؟ اس کا اندازہ کرنا بھی کچھ مشکل نہیں کیونکہ پاکستان تحریک انصاف کے قائد ابھی سے انتخابات کو مستقبل کی بندربانٹ سے تعبیر کر رہے ہیں۔ ان باتوں کا مطلب یہ ہے کہ انتخابات کے بعد بھی تحریک انصاف وہی احتجاج کرتی رہے گی جو وہ ماضی میں کرتی رہی ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ ملک میں میثاق معیشت کے تحت جس طرح سول اور عسکری قیادت نے مشترکہ پروگرام شروع کئے ہیں، ان کی وجہ سے احتجاج کے لیے شائد حکومتی برداشت بھی نہیں ہوگی۔
بہرحال یہ تو ممکنات کی بنیاد پر ملک کے سیاسی مستقبل کا نقشہ ہے جس میں انتخابات سے عمران خان کو باہر رکھنا مقصود ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو انتخابی عمل سے دور رکھنے کے لیے ان کے خلاف مقدمات کا گھیرا تنگ کیا جارہا ہے تو دوسری طرف تحریک انصاف کے اندر بھی توڑ پھوڑ کا عمل جاری ہے۔ اس سلسلے میں پشاور کے مضافاتی علاقے جھگڑا میں پرویز خٹک جیسے گرو کی سرکردگی میں پاکستان تحریک انصاف کے اندر "پارلیمنٹرینز ” والی نقب بھی کامیاب نہیں ہوئی۔ یہ نئی پارٹی تو استحکام پاکستان پارٹی سے بھی زیادہ کمزور ثابت ہوئی جبکہ اس کی کمزوری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ابھی میڈیا نے "فضائل” پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹرینز بیان کرنے کے لیے تیاری پکڑی ہی تھی کہ اس گاڑی کی سواریوں نے باہر چھلانگیں لگانی شروع کردیں۔ پارٹی اس قدر غیر مستحکم رہی کہ اس سے دستبرداریوں کی خبر اس کے قیام سے زیادہ تیزی کے ساتھ پھیل گئیں۔ اس ناکام کوشش کی بنیادی وجہ پلان بی میں تاخیر ہونے پر غیر ضروری عجلت رہی۔ اگر تو پرویز خٹک کو ان کی مرضی پر چھوڑ دیا جاتا تو ان کے پاس ایسے گرہیں کہ وہ اس کو سیاسی اعتبار سے آگے بڑھا سکتے تھے لیکن ایسا نہ ہوسکا اور پارلیمنٹرینز والی قسط فلاپ ہو گئی۔
پاکستان تحریک انصاف کے خلاف پلان بی کے تحت توشہ خانہ سمیت عمران خان کے نکاح کی مدت تک کا کیس بھی دوبارہ زندہ ہوگیا۔ ان کیسز کے بارے عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ عدالتوں نے ان کے بارے میں جو پہلے فیصلے جاری کئے تھے کیا وہ غلط تھے یا آج جو کارروائی ہو رہی ہے وہ غلط ہے؟ ان تمام کیسز کے متعلق ماہرین یہ کہہ چکے ہیں کہ یہ ایسے کیسز نہیں جن کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف پر پابندی عائد کی جا سکے۔ اس کے باوجود حکومت کی کوشش یہی ہے کہ سربراہ پاکستان تحریک انصاف پر اس طرح کی پابندی لگا دی جائے۔ اس سلسلے میں القادر ٹرسٹ کے کیس کی بھی مس ہینڈلنگ کی گئی۔ اس کیس میں عمران خان یا ان کی اہلیہ نے کیا فوائد حاصل کئے؟ یہ معمہ ملک ریاض کے صرف ایک بیان سے حل ہوسکتا ہے لیکن لگ بھگ تین مہینے ہونے کو ہیں، القادر ٹرسٹ کیس کے اس مرکزی گواہ سے باز پرس تو بہت دور کی بات ہے ان کا کسی نے نام تک لینے کی جرات نہیں کی۔ اسے احتیاط کہئے یا کوئی اور جذبہ کہ ملک ریاض کا نام بھی کسی نے نہیں لیا۔ ان احتیاطوں کے باجود حکومت کی شدید خواہش ہے کہ عمران خان جلد از جلد انتخابی عمل سے باہر ہو جائیں۔
حکومت کو پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان کو نا اہل یا انتخابی عمل سے باہر رکھنے کی جلدی اس وجہ سے ہو رہی ہے کہ جب یہ مرحلہ سر کر لیا جائے گا، تو اس کے بعد حکومت انتخابات کی تاریخ دے دے گی۔ حکومتی اتحاد کے اندر اب انتخابات کے انعقاد پر اختلافات سامنے آ رہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی وقت مقررہ سے اسمبلی کی معیاد ایک دن بھی اگے بڑھانا نہیں چاہتی۔ مسلم لیگ (ن) ایسے کسی انتخاب میں جانے کے لئے سرے سے تیار ہی نہیں کہ جس میں اس سے لیول پلینگ فیلڈ میسر نہ ہو۔ مسلم لیگ (ن) کی لیول پلینگ فیلڈ یہی ہے کہ انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف ہی سرے سے موجود نہ ہو۔ اس لیے کہ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف دونوں کا میدان صوبہ پنجاب ہے۔
مسلم لیگ یہ چاہتی ہے کہ اس کی لیول پلینگ فیلڈ ایسی ہو کہ جہاں وہ میدان میں اترے تو اس کی کامیابی میں کوئی بھی مشکل حائل نہ ہو۔ انتخابات کے فوری انعقاد کے معاملے میں مولانا فضل الرحمن کو بھی کوئی جلدی اس وجہ سے نہیں ہے کہ خیبر پختونخوا میں ایک بنی بنائی حکومت ان کے ہاتھ لگ چکی ہے۔ مولانا اس حکومت سے انتخابات سے پہلے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ جس انداز سے صوبے میں جے یو آئی کے حمایتی لوگوں کی بھرتیاں ہو رہی ہیں انہیں دیکھتے ہوئے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ممکن ہے کہ صوبے میں اگلی حکومت مولانا کی جماعت کے حصے میں آ جائے۔ یہ وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) اور مولانا فضل الرحمن کی جماعت کا انتخابات کے حوالے سے یکساں موقف ہے۔ فرق ان دونوں کے موقف میں صرف اتنا ہے کہ جے یو آئی کو انتخابات کی کوئی جلدی ہی نہیں ہے۔ وہ اتنی آسانی سے ملے ہوئے اقتدار کو زیادہ سے زیادہ انجوائے کرنا چاہتی ہے۔
دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کو اگر فکر ہے تو وہ صرف پاکستان تحریک انصاف کی ہے کہ وہ کسی بھی طرح اس انتخابی میدان سے باہر رہے۔ مسلم لیگ (ن) کی طرح مقتدر قوتیں بھی یہی خواہش رکھتی ہیں کہ اگلے انتخابات مائنس عمران خان ہو۔ حکمران اتحاد میں اس حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کی رائے قدرے مختلف ہے۔ اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ پاکستان تحریک انصاف یا خود عمران خان اگلے عام انتخابات میں حصہ لیں یا نہ لیں بلکہ ان کی طرف سے اس بات کا اظہار بھی کیا جا چکا ہے کہ کسی سیاسی جماعت پر پابندی نہیں لگنی چاہیے۔ پاکستان پیپلز پارٹی یہ بھی نہیں چاہتی کہ اس قدر کھلی لیول پلینگ فیلڈ مسلم لیگ (ن) کو مل جائے کہ کل کو وفاق میں وہ اپنی وزارت عظمیٰ کے مطالبے پر ڈٹ جائے۔ پیپلز پارٹی کے لیے یہ صورتحال زیادہ بہتر ہو گی کہ صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف ،مسلم لیگ (ق) اور استحکام پارٹی آپس میں ٹکرائیں جبکہ پیپلز پارٹی ان میں خاص خاص سیٹوں کو ٹارگٹ کر کے وہاں مقابلہ کرکے جیتنے کی کوشش کرے کیونکہ آصف علی زرداری اپنی اس خواہش کا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ اپنی زندگی میں بلاول بھٹو کو وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز دیکھنا چاہتے ہیں۔
آصف علی زرداری کی خواہشیں یہیں تک محدود نہیں بلکہ ان کی خواہشات اب اس حد تک بھی بڑھ رہی ہیں کہ شنید ہے کہ وہ سندھ کی وزارت علیا پر آصفہ بھٹو کو تعینات کرنا چاہتے ہیں۔ ‘گویا ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے’ والی بات ہے۔
آصف علی زرداری کی یہ خواہش یا کوشش اس لیے ہے کہ پاکستان تحریک انصاف انتخابات میں رہ کر مسلم لیگ (ن) کے لیے قومی اسمبلی کی سطح پر "سپائلر” کا کردار ادا کرے۔ تحریک انصاف کی یہ موجودگی پاکستان پیپلز پارٹی کو فائدہ دے سکتی ہے، اس لیے اس کی طرف سے تحریک انصاف کے الیکشن میں حصہ لینے کا موقف بہت نرم بلکہ تحریک انصاف کے حق میں ہے۔
یہاں آخر میں یہ بات بتانا ضروری ہے کہ جیسے شروع میں کہا گیا کہ بظاہر پاکستان تحریک انصاف اگلے عام انتخابات میں دکھائی نہیں دے رہی۔ حکومت کوشش کر رہی ہے کہ عمران خان کو جلد اس طرح پابند سلاسل کر دیا جائے، کہ عوام سے بذریعہ سوشل میڈیا جو ان کا رابطہ بدستور جاری ہے، اسے بھی ختم کر دیا جائے۔ یہ صورتحال صرف ایک صورت میں ہی پاکستان تحریک انصاف کے حق میں جا سکتی ہے، اگر پاکستان کے وہ دوست ممالک جن کا پاکستان کی سیاست میں بہت زیادہ عمل دخل رہا ہے اور اب بھی ہے۔ اگر ان ممالک نے اصرار کیا تو یہی ایک واحد صورت ہو گی کہ پاکستان تحریک انصاف اگلے انتخابات میں شائد حصہ لے لے لیکن ایسی صورت میں بھی پھر بڑا امتحان یہ ہوگا کہ تحریک انصاف کو اپنے ٹکٹ دینے کے لیے امیدواروں کو بھی خود سے تلاش کرنا ہوگا۔ شائد ایسا ماحول بھی بن جائے کہ کوئی پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ لینے کا طلبگار ہی نہ ہو۔ اگر ایسا ہوا تو یہ جمہوریت کے لئے بہت کٹھن مرحلہ ہوگا جس کی وجہ سے اگلے انتخابات کے نتائج سے متعلق مخالفانہ رائے یا احتجاج کو مستقبل میں روکنا مشکل ہوگا۔