عوام کی آوازکالم

نواز شریف منیجمنٹ سے سپریم کورٹ بیک فٹ پر

ابراہیم خان

پاکستان کے موجودہ سیاستدانوں کی اکثریت چاہے اپنے آپ کو جتنا بھی پاک صاف کرلیں لیکن یہ اپنے آپ کو جنرل ضیاء کی مارشل لائی آلائشوں سے پاک نہیں کرسکتے۔ جنرل ضیاء نے پہلے غیر جماعتی بنیادوں الیکشن کروائے اور پھر جو نووارد اسمبلیوں میں پہنچے اور ان میں مارشل لاء کی بالادستی ماننے والوں کو ملا کر سرکاری مسلم لیگ بنائی۔ محمد خان جونیجو نے کسی حد تک جرات دکھائی اور اعلانیہ مارشل لائی چھتری سے نکل کر باوردی صدر جنرل ضیاء الحق کی محدود جمہوریت قبول کرلی لیکن انہوں نے قدرے بااختیار جمہوریت بحال کرنے کی دامے درمے سخنے کوششیں جاری رکھیں۔

اس کوشش میں سپیکر قومی اسمبلی سید فخر امام کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا مرحلہ آیا تو 1985ء ماڈل کے سیاستدانوں نے ضیاء الحق کے شیدائی ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے فخر امام جیسے جمہوریت پسند شخص کو گھر بھیج دیا۔ اس تحریک نے جنرل ضیاء الحق پر محمد خان جونیجو کی محدود ہی سہی لیکن سرکشی ظاہر کردی، ان کے نام کے سامنے دائرہ لگ گیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کو اس موقع پر ایک نئے وفادار کی تلاش لاحق ہوئی۔ یہاں برسبیل تذکرہ جنرل ضیاء کا بے عزتی سے لبریز جملہ بھی پیش کیا جارہا ہے جس میں موصوف نے کتے کانام لئے بغیر کہا تھا کہ "سیاستدانوں کو جب بھی بلاؤ وہ دم ہلاتے ہوئے آجاتے ہیں”۔

جنرل ضیاء الحق کو محمد خان جونیجو کا متبادل درکار تھا تو ان کو جنرل جیلانی نے اپنے تربیت یافتہ شاگرد نواز شریف پیش کردیا۔ نواز شریف جنرل ضیاء الحق کے "معیار "پر پورے تھے تاہم محمد خان جونیجو کو سبق سکھانے کے لئے ضروری تھا کہ نواز شریف کو پروموٹ کیا جائے اور یوں ہی اس سرکاری مسلم لیگ سے مسلم لیگ(ن) کشید کی گئی۔

نوازشریف نے آگے بڑھنے کے لئے مارشل لائی مسلم لیگ پر شب خون مارا جبکہ محمد خان جونیجو نے ایک پھس پھسی سی مسلم لیگ (ج) جونیجو بنالی اور وزارت عظمیٰ و پارٹی چھن جانے کے بعد مزاحمت کرنے کے بجائے اپنے گاؤں سندھڑی جاکر گوشہ نشینی اختیار کر لی اور پھر راہ عدم آباد اختیار کر لی۔ نواز شریف کو ان کے اساتذہ نے کامیابی کا نسخہ سمجھا دیا کہ سیاست میں کامیابی کے لئے چیزوں کو "مینیج” کرکے ہی کامیاب ہوا جاتا ہے۔ ان کی یہی تربیت تھی کہ جو بھی سامنے کھڑا ہوا انہوں نے اپنا راستہ بنایا۔ اس عمل میں موصوف نے ہر رکاوٹ کو عبور کیا، یہ فتوحات ان کے شاہانہ مزاج کا آئینہ دار ہے۔

قاضی حسین احمد مرحوم نے نواز شریف کی آئین سے "محبت ” کا واقعہ ایک ملاقات میں یوں بیان کیا تھا کہ 1990ء کے انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی ) کے تحت کامیابی کے بعد جب نواز شریف نے آئین کی کتاب دیکھی تو برجستہ بولے کہ اتنے لمبے چوڑے آئین پر کیسے عملدرآمد ہوگا؟ اور ساتھ ہی اپنی جبلت کے مطابق آئین کو مختصر کرنے کا عندیہ بھی دے دیا جبکہ قاضی صاحب کے بقول آئی جے آئی  اس بات پر حیران رہ گئی۔ نواز شریف نے اپنے اقتدار بلکہ سیاسی کیریئر میں آئین ،عدلیہ، سیاسی مخالفین اور اداروں کو فتح کیا اور اس عمل میں اخلاقیات کو بھی کبھی آڑے نہیں آنے دیا۔ آئی جے آئی کا اتحاد خفیہ ایجنسیوں نے بنایا تھا لیکن اس کے لئے اسلام کا نام استعمال کیا گیا تھا تاکہ پیپلز پارٹی جیسی ترقی پسند نظریات رکھنی والی جماعت کو سائیڈ لائن کیا جائے۔ اس عمل میں مولانا سمیع الحق مرحوم بھی نوازشریف کے ہم رکاب تھے۔ مولانا نے اپنی مذہبی سیاست کو آگے بڑھانے کے لئے آئی جے آئی کے منشور کے مطابق جب نوازشریف سے ملک میں نفاذ شریعت کا مطالبہ کیا تو ابتداء میں نواز شریف، جو اس وقت وزیراعظم تھے، نے اس مطالبے کو حیلے بہانوں سے نظر انداز کیا لیکن جب وہ نہ مانے تو اسلام آباد کا ایک قحبہ خانہ چلانے والی میڈم طاہرہ میڈیا میں آئی اور دی نیوز اخبار میں ایک انٹرویو چھپا جس نے سمیع الحق کے سیاسی غبارے سے نفاذ شریعت کی پھونک نکال دی۔ یوں نوازشریف نے مولانا کو ایسا "مینیج” کیا کہ پھر کسی نے ان کی آواز اس دور میں نہ سنی۔

کل کی میڈم طاہرہ اس وقت کے اخبارات میں خوب چھپی آج وہ ماشاءاللہ ایک سینیئر ہیں اور ان کی صاحبزادی وفاقی وزیر ہیں۔ نواز شریف کی کامیابی کی راہ میں سپریم کورٹ آیا اور جسٹس سجاد علی جیسا چیف جسٹس راستے میں آیا تو اس نے رفیق تارڑ کو فرنٹ مین بنا کر یہ معاملہ "مینیج” کرلیا۔ سپریم کورٹ پر حملہ ہوا چیف جسٹس دو بن گئے۔ ایک شریف النفس اور ایماندار چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو رسواء کر کے گھر بھیج دیا گیا اور یوں عدلیہ کو بھی "مینیج” کر لیا گیا۔

بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ نواز شریف 1997 ء کے انتخابات میں دو تہائی اکثریت لے کر اسمبلی پہنچے تو ان کے دل میں امیر المومنین بننے کی خواہش گد گدائی اور اس خواہش کے گدگدانے کے لئے تمام تر لوازمات موجود تھے۔ دو تہائی اکثریت کے مالک نوازشریف کے سامنے پارلیمنٹ ہاتھ جوڑے کھڑی تھی۔ نوازشریف اگر خدانخواستہ امیر المومنین بن جاتے تو ان کے پاس اختیارات آجاتے۔ ان کو اقتدار سے الگ کرنا ناممکن ہو جاتا لیکن شومئی قسمت کہ نواز شریف نے عدلیہ فتح کرنے کے بعد فوج کو فتح کرنے کا قصد کرلیا تاکہ زیادہ مضبوط ہوکر امیر المومنین بنیں۔ اس کوشش میں انہوں نے چیف آرمی سٹاف جنرل جہانگیر کرامت سے کھڑے کھڑے استعفیٰ لے لیا۔ اس سے پہلے پاکستان میں یہ دستور تھاکہ جرنیل چھڑی دکھا وزراء اعظموں سے استعفے لیتے تھے۔ اس استعفے پر فوج کے اندر کھلبلی مچی مگر نوازشریف نے فوج کو "مینیج” کرنے کے لئے سنیارٹی میں نیچے سے لیفٹیننٹ جنرل پرویز مشرف کو یہ سوچ کر جرنیل بنا دیا کہ کمانڈو جرنیل اس کے قابو میں رہے گا۔ کمانڈو کو اباجی نے بی ایم ڈبلیو بھی آفر کی لیکن اس نے لینے سے انکار کر دیا۔ کارگل واقعے کے بعد فوج سے کشیدگی بڑھی تو نواز شریف نے سری لنکا کے سرکاری دورے پر جانے والے کمانڈو جرنیل کو برطرف کرکے فوج کی کمان انجینئرنگ کور کے ضیاء الدین بٹ کے سپرد کر دی جس کا کوئی جنگی تجربہ ہی نہیں تھا۔ اگر اس فیصلے پر عمل درآمد ہوجاتا تو نواز شریف کی منیجمنٹ تو کامیاب ہوجاتی لیکن فوج کا نظم ونسق تباہ ہوجاتا۔ فوج ڈٹ گئی اور نواز شریف امیر المومنین بننے کے بجائے اسیر بنے۔ واقفان حال جانتے ہیں کہ نواز شریف کی پھانسی کی بھی بات ہوئی لیکن یہ مرحلہ نواز شریف کے غیر ملکی دوستوں نے مینیج کیا۔

نواز شریف معاہدہ کرکے جلاوطن ہوئے دوبارہ وطن لوٹے تو پھر عدلیہ کو مینیج کرنے میں جت گئے۔ عدلیہ نے ان کے معاملات کی جانچ پڑتال کے لئے جے آئی ٹی بنائی تو نواز لیگ نے مٹھائی تقسیم کرتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی کو "مینیج” کرلیں گے۔ پرویز مشرف کی طرح جے آئی ٹی اور عدلیہ مینیج نہ ہوسکیں تو نواز شریف کو ایک بار اقتدار بدری کا سامنا کرنا پڑا۔ اقتدار سے بے دخلی پر مجھے کیوں نکالا اقساط شروع ہوئیں۔ وقت بدلا تبدیلی سرکار آئی تو نوازشریف اسیر ہو کر بھی پی ٹی آئی حکومت کو” مینیج”کرکے باہر چلے گئے اور ابھی تک دیار غیر میں رہ کر معاملات”مینیج” کررہے ہیں۔

اپریل 2022ء میں پس پردہ ان کی ایک اور کامیاب منیجمنٹ ہوئی لیکن اس بار ان کے کئی اور ساتھی بھی ان کے ہمراہ تھے۔ تبدیلی سرکار اقتدار سے پاکستان میں کسی بھی وزیراعظم کے خلاف پہلی تحریک عدم اعتماد میں کامیاب ہوئی۔ اس کے بعد کہنے کو تو اتحادی حکومت بنی لیکن وزارت عظمیٰ نواز لیگ کے پاس ہونے کی وجہ سے عملی طور پر ملک میں جو بھی فیصلہ ہو رہا ہے وہ نواز شریف کی مرضی سے ہو رہا ہے۔ اس دور میں نواز شریف نے عدلیہ سے باہر بیٹھے پنگا لیا۔ ان کی خواہش ہے کہ جن ججوں نے انہیں نکالا تھا وہ ان سے معافی مانگیں اور ساتھ ہی ان کی واپسی اور نااہلی ختم کرنے کی راہ ہموار کی جائے۔ اس بار عدلیہ کو "مینیج” کرنے کے لئے نواز شریف کے حکم پر پارلیمنٹ استعمال ہورہی ہے، فرق اتنا ہے کہ دیگر اتحادی نواز شریف کا ساتھ دے رہے ہیں۔

سپریم کورٹ جس کا حکم حرف آخر ہے۔ وہ حکومت کی طرف سے مسلسل حکم عدولی کے باوجود کچھ نہیں کر پارہی۔براستہ پارلیمنٹ عدلیہ کو اس قدر معذرت خواہانہ حالات میں دھکیل دیا گیا ہے کہ اس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی۔

پارلیمانی کارروائی کو دیکھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے کہ عدلیہ کے خلاف کس قسم کی زبان بولی جارہی ہے۔پچھلی دو پیشیوں سے یہ امید وابستہ کی جارہی ہے کہ توہین عدالت جو پوری آب وتاب کے ساتھ ہو رہی ہے کی پاداش میں ایک اور وزیر اعظم گھر جائے گا لیکن عدلیہ کچھ اپنی غلطیوں اور کچھ نواز مینیجمینٹ کی وجہ سے ایک گھائل شیرنی کی مانند ہوچکی ہے۔ یہ شیرنی توہین عدالت کا ہتھیار لئے ہوئے ہے لیکن اسے ایسے سیاست دانوں کا سامنا ہے جو الیکشن سے فرار کی کوشش میں عدلیہ کو جیسے تیسے فتح کرنا چاہ رہے ہیں۔ دوسری طرف عدلیہ بار بار پنجاب میں انتخابات کے فیصلے کو برقرار رکھنے کی بات بھی کررہی ہے لیکن وزیر اعظم کو نااہل کرنے سے کترارہی ہے۔

عدالت کے پاس سردست کرکٹ کے اصطلاح کے مطابق بیک فٹ پر جانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ اس مقابلے میں جیت کا تمغہ جو بھی سینے پر سجائے لیکن ایک بات طے ہے کہ اس کھیل میں جمہوریت کمزور نہیں بلکہ اسے شکست فاش ہوگی۔ یہ شکست نواز لیگ کی”مینیج” کرنے کی اقساط میں ایک اور اضافہ کردے گی۔ سیاستدانوں کی اکثریت کی طرح نواز شریف کو اس پر کوئی ملال نہیں ہوگا البتہ وہ برادر جج جو اس وقت ذاتی پرخاش کی وجہ سے لا تعلق ہیں وہ اپنے ادارے سے منہ موڑ رہے ہیں جو کسی بھی طور درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس لئے کہ نوازشریف جیسے حکمران معاملات کو”مینیج” کرنے میں ید طولی رکھتے ہیں اور یہ بھی ان کی "خوبی” ہے کہ سابق چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی کو بستر مرگ پر سول عہدے سے سرفراز کرکے حساب چکتا کرتے ہیں جبکہ رفیق تارڑ جیسے "معاون” کو صدر مملکت بنادیتے ہیں۔

یہاں آخر میں یہ خبر شئیر کرنا بھی ضروری ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطاء بندیال نے کوشش کی کہ فل کورٹ بنا کر عدلیہ کی عزت بچالیں لیکن برادر ججوں میں سے یہ موقف اپنایا گیا کہ وہ دو ججوں کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے۔ یہ شرط چیف جسٹس کو قبول نہیں کیونکہ وہ کس طرح دو برادر ججوں کو فل کورٹ سے باہر رکھ کر انہیں بغیر کسی کارروائی کے مشکوک قرار دے دیں۔ برادر ججز ذاتی اختلاف بھلا کر متحد نہ ہوئے تو آنے والا مورخ ان کے بارے میں بھی جو رائے دے گا وہ اس میں آزاد ہوگا۔ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہہ دیا ہے کہ بات چیت کا عمل سیاسی جماعتوں پر چھوڑتے ہیں، ہم مناسب حکم جاری کریں گے۔ ہم سیاسی عمل میں مداخلت نہیں چاہتے لیکن عدالت کے تحمل کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے سپریم کورٹ نے تحریری حکم نامہ بھی جاری کیا تھاجس میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کا 14 مئی کو انتخابات کروانے کا حکم اپنی جگہ برقرار ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button