عمران خان: آڈیو لیک کا مقصد کیا؟
محمد فہیم
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد پاکستان کی سیاست میں ایک نیا ٹرینڈ چل نکلا ہے جس میں آڈیو لیکس آ رہی ہیں؛ ابتداء میں آڈیو لیکس موجودہ حکومت یعنی پی ڈی ایم کی سامنے آئیں جن پر پی ٹی آئی نے شادیانے بجائے اور وزیر اعظم ہاﺅس کے اندر ہونے والی گفتگو منظرعام پر آنے کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی ہر ممکن کوشش کی تاہم بعد ازاں عمران خان کی مبینہ آڈیو سامنے آنے لگیں جن میں امریکی سازش سے لے کر اپنے خلاف عدم اعتماد ناکام بنانے کیلئے خرید و فروخت کا معاملہ بھی شامل رہا۔
ان آڈیو لیکس سے سابق خاتون اول بھی محفوظ نہ رہیں اور ان کی پی ٹی آئی سوشل میڈیا کے سربراہ ارسلان خالد، زلفی بخاری اور بعد ازاں بنی گالہ کے معاون کے ساتھ فون کالز پر گفتگو لیک ہو گئیں جن میں پی ٹی آئی بیانیہ کی تیاری اور توشہ خانہ کے تحائف کی فروخت بھی شامل ہے۔
آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کو مبینہ طور پر ناکام بنانے کی کوشش میں سابق وزیر خزانہ سینیٹر شوکت ترین کی پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزیر خزانہ کے ساتھ گفتگو نے معاملہ مزید سنگین بنا دیا۔
معاملہ جب تک سیاسی گفتگو کا تھا سب سمجھ آ رہا تھا تاہم اب یہ معاملہ انتہائی بے ہودگی کی جانب بڑھ گیا ہے اور اب جو آڈیو لیک ہو رہی ہیں ان کی وجہ سے اخلاقیات کا جنازہ اٹھ گیا ہے۔
سوشل میڈیا پر سابق وزیر اعظم عمران خان سے منسوب مبینہ آڈیوز کے لیک ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔ دو روز کے دوران چار مختلف آڈیوز جاری کی گئی ہیں جن میں پی ٹی آئی کے چیئرمین مبینہ طور پر ایک خاتون کے ساتھ انتہائی نامناسب گفتگو کر رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر اس آڈیو کو جعلی قرار دیا جا رہا ہے تاہم تاحال لاہور یا اسلام آباد سے اس بارے میں کوئی موقف سامنے نہیں آیا ہے۔ چاروں آڈیو ٹیپ اس وقت سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارمز پر موجود ہیں اور اس پر منفی و مثبت تبصرے کئے جا رہے ہیں۔
پیر کے روز جاری کی گئی دو آڈیو ٹیپ میں مبینہ طور پر عمران خان سے ملتی جلتی آواز اور لب و لہجہ میں ایک خاتون کے ساتھ انتہائی ذاتی نوعیت کی گفتگو ہے لیکن منگل کے روز جاری ہونے والی آڈیو ٹیپ جو کہ 15 منٹ پر مشتمل ہے اس ٹیپ کو دو حصوں میں جاری کیا گیا ہے۔ اس نئی آڈیو ٹیپ کی ایک خاص وجہ یہ بھی ہے کہ اس وقت پنجاب میں پی ٹی آئی اور ق لیگ کے درمیان ایک کشمکش کی صورتحال ہے۔ تازہ آڈیو میں نواز شریف، شہباز شریف، محمد علی سیف، محمد علی درانی، چوہدری پرویز الہی اور چوہدری شجاعت حسین کا بھی ذکر کیا گیا ہے تاہم ان افراد کو خاص نام سے مخاطب کیا گیا ہے۔
دو روز کے دوران جاری کی گئیں ان مبینہ آڈیو ٹیپس کی کسی جانب سے فرانزک نہیں ہوئی جبکہ تاحال آڈیو میں شناخت ہونے والی خاتون اور پی ٹی آئی چیئرمین کی جانب سے اس ٹیپ کے جعلی یا اصلی ہونے کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔
واضح رہے کہ مبینہ طور پر یہ آڈیو ٹیپ 2013 سے قبل اس وقت ریکارڈ کی گئی ہیں جب عمران خان کی پارٹی کو پارلیمان میں نمائندگی حاصل نہیں تھی۔
ان آڈیو لیکس سے کسی کو فائدہ اور کسی کو نقصان پہنچ رہا ہے تاہم عمران خان کی سیاست سمیت ان کے کردار کو ہر ممکن طریقے سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے ورکرز کے پاس ان آڈیوز کے دفاع میں کہنے کیلئے کچھ نہیں ہے تاہم یہ بھی واضح ہے کہ وہ آج بھی اسی طرح عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں جیسے ماضی میں تھے لیکن ان آڈیو لیکس نے پاکستان کی سیاست کو ایک بار پھر سے داغ دار کر دیا ہے۔
ماضی میں 90 کی دہائی میں یہی سب کچھ کیا گیا جب شیخ رشید جلسوں میں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی کردارکشی کرتے تھے، سابق وزیر اعظم پر یہ الزام تھا کہ انہوں نے شہید بے نظیر بھٹو کی جعلی فحش تصاویر ہیلی کاپٹر کے ذریعے عوام تک پہنچائیں تاکہ ان کی ہر ممکن کردارکشی کی جائے اور اب یہی سب کچھ عمران خان کے ساتھ بھی کیا جا رہا ہے۔
سیاست میں جب کسی ایک کے پاس دوسرے کے بیانیہ کا کوئی جواب نہیں ہوتا تو وہ ایسی حرکتوں پر ہی اتر آتا ہے۔ جب آڈیو لیک کرنے والے ہیکر کو معلوم ہو گیا کہ کرپشن، توشہ خانہ اور پارلیمان میں لگائی جانے والی منڈی کی آڈیو لیک ہونے کے بعد بھی عمران خان کے ورکرز اس کے ساتھ ہیں تو یہ تقریباً ایک دہائی پرانی آڈیو جاری کر دی گئی جس نے اس نظام پر عوام کے رہے سہے اعتماد کو بھی شدید ٹھیس پہنچایا ہے۔
جس طرح آج وزیر اعظم شہباز شریف میثاق معیشت کی بات کر رہے ہیں اور جس طرح 2007 میں میثاق جمہوریت کیا گیا ویسے ہی اب میثاق سیاست کرنے کی بھی ضرورت ہے جس میں ایک فریق دوسرے کیخلاف اس حد تک نہیں گرے گا کہ اخلاقیات کا جنازہ اٹھ جائے۔
سیاست کرنے کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ اہم امور پر مقابلے کی فضا سے عوام کو فائدہ ہو گا؛ موٹرویز، میٹرو، صحت کارڈ، مہنگائی کنٹرول کرنے کے اقدامات اور صحت مند کاروباری سرگرمیوں کیلئے ماحول فراہم کرنے کا مقابلہ ہو گا تو سیاست بھی پھلے پھولے گی اور عوام کا بھی اس نظام پر اعتماد بڑھے گا لیکن اگر کسی کی ذاتی گفتگو لیک کر کے یا وہی تاریخ دہرائی گئی تو عوام کا اعتماد سیاست اور سیاست دانوں پر سے ہمیشہ کیلئے اٹھ جائے گا۔