لائف سٹائل

سیلاب 2022: ”سر پر چھت نہیں ہے تو بہت زیادہ غمگین ہیں ہم”

رخما یوسفزئی

رواں سال اگست میں آنے والے سیلاب نے جہاں ملکی آبادی، زرعی اراضی اور املاک کو نقصان پہنچایا وہیں یہاں پر مقیم افغان پناہ گزین بھی اس کی زد میں آئے، ملک کے اپنے شہریوں کی طرح افغان مہاجرین بھی تاحال مختلف قسم کے مسائل سے دوچار ہیں۔

ضلع نوشہرہ کے ‘کیمپ کورونہ’ میں مقیم افغانی بھی سیلاب کے باعث نقل مکانی پر مجبور ہوئے جو آج بھی خیموں میں شب و روز بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ کیمپ کورونہ میں 147 خاندان قیام پذیر تھے تاہم سیلاب کی وجہ سے یہ پورا کیمپ اجڑ کر رہ گیا ہے اور اس میں مقیم باشندے آج کل شدید قسم کے مسائل سے دوچار ہیں۔

کیمپ کورونہ کی راہئشی بشیرا بی بی نے اپنی مشکلات کے حوالے سے بتایا کہ سیلاب سے قبل ان کی زندگی ٹھیک ٹھاک گزر رہی تھی، ”غربت تھی لیکن گزارہ چل رہا تھا، اپنا گھر تھا، چھت تھی تو ہم خوش تھے لیکن اب چھت چھن گئی ہے تو بچے روزانہ بیمار ہوتے ہیں، بڑے بھی بیمار رہتے ہیں، دست کی شکایت ہوتی ہے، گرمی تو گزر گئی اب سردیاں ہیں، خیمے سے پانی ٹپکتا ہے لیکن مجبوری ہے، زندگی گزر رہی ہے، سر پر چھت نہیں ہے، خوراک ٹھیک نہیں ہے، وضو کا پانی بھی نہیں ہے، اب سر پر چھت نہیں ہے تو بہت زیادہ غمگین ہیں ہم۔”

سیلاب سے قبل اپنے گھر بارے بشیرا بی بی نے بتایا۔ ”ایک اس میں تندور کا کمرہ تھا، ایک کمرہ مویشیوں کا تھا، چار میرے بھانجوں کے کمرے تھے، ایک میری بہن کا کمرہ تھا ور ایک میرا تھا، تقریباً پانچ چھ کمرے اس میں تھے جو سیلاب میں سارے ہموار ہو کر رہ گئے، ہم صرف اپنی جانیں بچا کر نکل آئے مزید کچھ بھی نہ نکال سکے صرف ایک بوری بھس ہی نکال پائی۔”

سیلاب سے یہ لوگ خود کو کس طرح بچانے میں کامیاب ہوئے، اس حوالے سے بشیرا بی بی نے بتایا، ”سبھی، ساری دنیا کہہ رہی تھی کہ سیلاب آ رہا ہے تو ہم بھی چوکنا تھے، تیار بیٹھے ہوئے تھے کہ جیسے ہی سیلاب آیا ہم نکل جائیں گے، تو سہ پہر، شام کا وقت تھا جب سیلاب آیا اور ہم اپنی جانیں بچا کر نکل آئے جبکہ گھر پیچھے رہ گئے، دروازے زیرآب آ گئے، لکڑیاں بھی زیر آب، صرف انسان/افراد نکل آئے باقی کا سارا مال اسباب پانی میں بہہ گیا۔”

بشیرا بی بی کے مطابق وہ جن خیموں میں پناہ گزیں ہیں یہ انہیں افغان کمشنریٹ کی طرف سے دیئے گئے ہیں، ”اک رات گزارنے کے بعد اگلے روز ہم نے افغان کمشنریٹ کو فون کیا کہ ہمیں سیلاب نے متاثر کر دیا ہے تو بھلا ہو ان کا کہ انہوں نے ہمارے ساتھ امداد کی۔”

کیمپ کورونہ کی رہائشی ایک اور خاتون نے بتایا، ”بہت پیارا گھر تھا میرا، چھ اس میں کمرے تھے، سبھی بیٹوں کے کمرے تھے جن میں سے دو ہم سے الگ ہو چکے ہیں جبکہ باقی ایک ساتھ رہ رہے تھے، دو جوان بیٹیاں ہیں گھر میں، کمرے سب کے تباہ ہو گئے ہیں، دو برآمدے تھے چار واش رومز تھے سب تباہ ہو گئے، نہ ہسپتال ادھر ہے نہ ہماری اتنی بساط ہے، استطاعت والے تو گاڑی کا بندوبست کر لیتے ہیں، ہسپتال دور ہی ہوتا ہے لیکن پیسہ ہو تو قریب ہوتا ہے، ہمارا تو دیہاڑی کا پیسہ ہے جھوٹ کیوں بولیں سرے سے دل ہی نہیں کرتا کہ اسے اپنے اوپر خرچ کریں، ابھی (ان میں سے ایک) حاملہ ہے، آج کل میں بچے کی پیدائش متوقع ہے، اک اللہ کا ہی سرا ہے، اس کا کیا بنے گا، رات کو خیمے میں تھوڑا سا شور اٹھتا ہے تو یہ فکر دامن گیر ہو جاتی ہے کہ اس حال میں ہسپتال کیسے جائیں گے۔”

انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان کیلئے چھت کا بندوبست کیا جائے، ”سچ جھوٹ کیوں بولیں، انہیں چاہئے کہ صبح تڑکے آ کر ہمارا حال دیکھ لیں کیونکہ اس وقت دھوپ پڑنے سے ہمارا رنگ تروتازہ ہو جاتا ہے لیکن صبح سویرے ہمارا حال دیکھ کر آپ خود بھی رونے لگ جائیں گے۔”

اس حوالے سے اسسٹنٹ کمشنر نوشہرہ تنویر احمد نے ٹی این این کو بتایا، ”کیمپ کورونہ سمیت سیلاب سے جتنے بھی علاقے متاثر ہوئے، یا جو ہمارے اور علاقے ہیں جیسے امان گڑھ، پیرپائی، نوشہرہ کلاں اور کابل ریور کے علاقے جو بہت زیادہ متاثر ہوئے تھے، ان میں کیمپ کورونہ کا علاقہ بھی شامل تھا تو ان علاقوں میں ایک ڈیجیٹل سروے کرایا گیا تاکہ جس کی فصل خراب ہوئی ہو یا اگر کسی کا گھر تباہ ہوا ہو تو انہیں امداد مل سکے، ان میں کیمپ کورونہ کا علاقہ بھی شامل تھا، یہ سروے ہم نے پورے نوشہرہ میں کرایا تھا۔”

انہوں نے بتایا کہ سروے کا پورا ریکارڈ ان کے پاس موجود ہے، کیمپ کورونہ میں 147 خاندان آباد تھے جو متاثر ہوئے، ”ہمیں امید ہے کہ اس سیلاب کا مسئلہ ہو یا ڈینگی کا یا اس طرح کے اور دیگر مسائل، وہ آپ ہمارے نوٹس میں لائیں گے تاکہ ہم ان کے حل کی طرف جا سکیں۔”

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button