انورزیب
ایک دن ملا نصیرالدین بازار سے ایک سیر گوشت لائے اور ایک دوست کو کھانے پر بلایا۔ جب کھانا شروع کیا تو پلیٹ میں گوشت نہیں تھا۔ بیوی سے پوچھنے پر پتہ چلا گوشت بلی نے کھا لیا ہے۔ بلی سامنے ہی موجود تھی۔ ملا نے بلی پکڑی اور ترازو میں ڈال کر بلی کا وزن کیا تو بلی ایک سیر نکلی۔ ملا کو غصہ آیا اور بیوی سے کہنے لگا ”بیگم! اگر یہ ایک سیر بلی ہے تو گوشت کہاں ہے اور اگر یہ ایک سیر گوشت ہے تو بلی کہاں ہے۔”
حالیہ ضمنی انتخابات میں پی ڈی ایم کے امیدواروں کے ساتھ بھی ملا نصیرالدین والا قصہ ہو گیا۔ عام انتخابات میں ان امیدواروں نے جتنے ووٹ لئے تھے ضمنی انتخابات میں ہر ایک نے تقریباً اتنے یا اس سے بھی کم ووٹ لئے ہیں۔ اس لئے سوال تو بنتا ہے کہ پشاور میں پی ڈی ایم کے نامزد امیدوار حاجی غلام بلور کو پڑنے والے ووٹ اگر پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے ہیں تو اے این پی کا ووٹ کہاں گیا اور اگر یہ ووٹ اے این پی کے ہیں تو جے یو آئی، پی پی پی، پی ایم ایل این اور قومی وطن پارٹی کے ووٹ کہاں ہیں؟
عام انتخابات اور ضمنی انتخابات کے نتائج کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ این اے 31 پشاور اور این اے 24 چارسدہ پر اتحادی پارٹیوں نے عوامی نیشنل پارٹی کا ساتھ نہیں دیا جبکہ این اے 22 مردان پر عوامی نیشنل پارٹی، پی پی پی اور مسلم لیگ ن اپنے کارکن جے یو آئی کے مولانا قاسم کو ووٹ دینے پر قائل نہ کر سکیں۔
پولینگ کے دوران بھی پشاور اور چارسدہ میں صرف عوامی نیشنل پارٹی کے کارکن نظر آ رہے تھے جبکہ مردان میں جے یو آئی کے کارکن زیادہ سرگرم نظر آئے۔ پچھلے نتائج کو دیکھ کر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اگر پی پی پی، اے این پی اور پی پی پی کے 10، 10 فیصد ووٹرز بھی نکلتے تو مولانا قاسم آسانی سے جیت سکتے تھے۔
2018 کے عام انتخابات میں این اے 31 پر حاجی غلام بلور نے بغیر کسی اتحاد کے 42 ہزار 526 ووٹ لئے تھے جبکہ پی ڈی ایم میں شامل جماعت پی پی پی نے 7 ہزار 506، پی ایم ایل این 3 ہزار اور متحدہ مجلس عمل کے امیدوار نے 11 ہزار 6 سو ووٹ لئے تھے۔ انہی اعداد و شمار کو دیکھ کر وہی سوال دہریا جا سکتا ہے کہ اگر غلام بلور کر صرف اے این پی کے ووٹ پڑے ہیں تو پی ڈی ایم کے ووٹ کہاں گئے اور اگر یہ ووٹ پی ڈی ایم میں شامل پارٹیوں کے ہیں تو اے این پی کے ووٹ کہاں گئے؟ پی ڈی ایم میں شامل جے یو آئی کے وہ ہزاروں ووٹ کہاں گئے جو میئر پشاور زبیر علی کو بلدیاتی انتخابات میں پڑے تھے۔
این اے 22 مردان میں بھی صورتحال بالکل این اے 31 جیسی نظر آ رہی ہے۔ یہاں مولانا قاسم نے 2018 کے عام انتخابات میں دو ہزار سے شکست کھائی تھی۔ ضمنی انتخابات میں 8 ہزار سے زائد ووٹوں سے ہار گئے ہیں۔ 2018 کے عام انتخابات میں مولانا قاسم کو ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے 56 ہزار 587 ووٹ حاصل کئے تھے جبکہ 16 اکتوبر کو ہونے والے انتخابات میں پی ڈی ایم کی حمایت کے باوجود صرف 68 ہزار ووٹ لینے میں کامیاب رہے۔
اب سوال یہ ہے کہ این اے 22 مردان میں 2018 میں ڈالے گئے اے این پی کے 27 ہزار، مسلم لیگ ن کے 36 ہزار، پی پی کے 13 ہزار ووٹ کدھر گئے؟ اور اگر ضمنی انتخابات میں یہ 68 ہزار ووٹ ان تینوں پارٹیوں کے ہیں تو جے یو آئی کے ووٹ کہاں ہیں؟
2018 کے عام انتخابات میں این اے 24 چارسدہ میں عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار اسفندیار ولی خان کو 59 ہزار ووٹ ملے تھے۔ ضمنی انتخابات میں ان کے بیٹے ایمل ولی خان نے پی ڈی ایم میں شامل پارٹیوں کی حمایت کے ساتھ 68 ہزار ووٹ حاصل کئے۔ اعداد و شمار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور جے یو آئی کے کارکنوں نے یہاں بھی لالٹین کو ووٹ نہیں دیا کیونکہ عام انتخابات میں اس حلقے پر پی پی پی کو 10 ہزار، جے یو آئی کے مولانا گوہر شاہ کو 38 ہزار سے زائد ووٹ ملے تھے۔ مولانا گوہر شاہ متحدہ مجلس عمل کے متفقہ امیدوار تھے لیکن ضمنی انتخابات میں جماعت اسلامی نے امیدوار کھڑے کئے تھے اور ان تین حلقوں پر اس پارٹی کی پوزیشن حالیہ نتائج سے اخذ کی جا سکتی ہے۔
پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف انتخابات لڑ چکی ہیں اور ان پارٹیوں کا اتحاد متحدہ مجلس عمل کے مقابلے میں کافی کمزور ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دو بڑی سیکولر پارٹیاں کس طرح ایک مذہبی پارٹی کی اتحادی ہو سکتی ہیں۔ ووٹرز کو یہ بات سمجھانا کہ سیاست میں سب ممکن ہے بہت مشکل ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی کے کارکن نے آج بھی جے یو آئی کو تسلیم نہیں کیا۔ اس طرح جے یو آئی کے کارکن عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی کے کارکنوں اور لیڈرشپ کو سیکیولر سمجھتے ہیں۔ تمام پارٹیوں کے بیانیے بھی الگ الگ ہیں۔ ماضی قریب میں جے یو آئی کے رہنماء اے این پی کے سخت مخالف تھے۔ جبکہ اے این پی والے جے یو آئی والوں کو طالبان کے حامی تصور کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام پارٹیوں کے کارکنوں میں دوریاں ہیں اور ان کو ختم کرنے میں وقت لگے گا۔