کالمکھیل

ٹی 20 ورلڈکپ: شاہینوں کی راہ میں کیا چیز حائل ہو سکتی ہے؟

خیرالسلام

گزشتہ روز پاکستان کے تین صوبوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات کی گہماگہمی میں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے بینر تلے کھیلی جانے والی آئی سی سی ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ 2022 کے آٹھویں ایڈیشن کا آغاز کینگروز کے دیس آسٹریلیا میں ہو چکا ہے۔ ایونٹ کے پہلے دو میچز میں نمیبیا جیسی بے بی ٹیم نے سری لنکا جیسی تجربہ کار اور ایشیاء کپ کی چیمپئن ٹیم کو 55 رنز سے شکست سے دوچار کر کے کرکٹ پنڈتوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔

اسی طرح کل ہونے والے دوسرے میچ میں نیدر لینڈ نے یو اے ای کو تین وکٹوں سے شکست دی جبکہ آج ایک اور اپ سیٹ سکاٹ لینڈ کی ٹیم کے ہاتھوں ویسٹ انڈیز کی شکست کی صورت میں سامنے آیا ہے۔

آج ہونے والے دوسرے میچ میں زمبابوے کی آئرلینڈ کے خلاف بیٹگ جاری ہے دسویں اوور کے اختتام پر جس نے 79 رنز بنائے ہیں اور اس کے چار کھلاڑی آؤٹ ہوئے ہیں۔

مختصر فارمیٹ کے اس میگا ایونٹ کی خاص بات یہ ہے کہ آسٹریلیا کو دفاعی چیمپئن کی حیثیت سے اپنے دیس میں اس ایونٹ کی میزبانی کا شرف بازیابی حاصل ہے۔ دفاعی چیمپئن اور ہوم کنڈیشن کا استفادہ حاصل کرتے ہوئے سپورٹس جرنلسٹ اور تجزیہ نگاروں کی رائے میں کینگروز ٹیم کو ٹائٹل کیلئے فیورٹ قرار دیا جا رہا ہے لیکن ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کے غیرمتوقع نتائج کے پیش نظر کسی بھی ٹیم کو فیورٹ قرار دینا خاصا قبل از وقت ہے کیونکہ ٹی ٹونٹی کرکٹ اعصابی گیم ہے لہٰذا اعصاب پر قابو پا کر حالات کے مطابق کھیلنے والی ٹیم مقدر کا سکندر ٹھہرتی ہے۔

اس مرتبہ ورلڈ کپ مقابلوں میں کل 16 ٹیمیں شریک ہیں؛ افغانستان، آسٹریلیا، انگلینڈ، نیوزی لینڈ، بنگلہ دیش، بھارت، پاکستان، جنوبی افریقہ پچھلے ورلڈکپ کے دوران دکھائی جانے والی کارکردگی کی بنیاد پر پہلے ہی سپر 12 مرحلے کیلئے کوالیفائی کر چکے ہیں جبکہ ویسٹ انڈیز اور سری لنکا سمیت نمیبیا، سکاٹ لینڈ، آئرلینڈ یو اے ای، نیدر لینڈ اور زمبابوے کی کرکٹ ٹیمیں کوالیفائنگ مرحلے سے گزر کر سپر فور مرحلے میں کھیلنے کی حقدار ٹھہریں گی۔

طریقہ کار کچھ یوں ہے کہ ان تمام ٹیموں کو دو گروپس میں رکھا گیا ہے گروپ اے نمیبیا، نیدر لینڈ، سری لنکا اور متحدہ عرب امارات کی کرکٹ ٹیموں پر مشتمل ہے جبکہ گروپ بی میں آئر لینڈ، سکاٹ لینڈ، ویسٹ انڈیز اور زمبابوے کی کرکٹ ٹیمیں شامل ہیں۔ گروپ اے کی ونر اور رنر اپ ٹیموں سمیت گروپ بی کی ونر اور رنراپ ٹیمیں سپر بارہ مرحلیں میں کھیلنے کی حقدار ہوں گی۔

سپر بارہ راؤنڈ کے لیے تمام ٹیموں کو دو گروپس میں رکھا گیا ہے جس کی ترتیب کچھ اس طرح ہے: گروپ ون میں افغانستان، آسٹریلیا، انگلینڈ، نیوزی لینڈ، گروپ اے کی ونر ٹیم اور گروپ بی کی رنراپ ٹیم جبکہ گروپ ٹو میں بنگلہ دیش، بھارت، پاکستان، جنوبی افریقہ، گروپ بی کی ونر ٹیم اور گروپ اے کی رنراپ ٹیم شامل ہوں گی۔

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2022 کے میچوں کو سپروائز کرنے کے لیے آئی سی سی نے امپائرز پینل تشکیل دیا ہے جس میں پاکستان کے علیم ڈار اور احسن رضا سمیت مختلف ممالک کے سولہ امپائرز شامل ہیں جو انٹرنیشنل کرکٹ میچز کو سپروائز کرنے کا ایک وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ آسٹریلیا کے ڈیوڈ بون، انگلینڈ کے کرس براڈ، سری لنکا کے رنجن مدوگالے اور ویسٹ انڈیز کے اینڈی پائیکرافٹ میگا ایونٹ کے دوران میچ ریفری کی حیثیت سے فرائض سرانجام دیں گے۔

آسٹریلیا کو گزشتہ سال یعنی 2021 کا آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیتنے کا اعزاز حاصل ہے لہذا کینگروز ٹیم اس بار اپنی ہی سرزمین پر ورلڈ کپ ٹائٹل کا دفاع کرے گی۔ آسٹریلیا کے سات وینیوز نے ورلڈ کپ میچوں کی میزبانی کرنی ہے جن میں ایڈیلیڈ، برسبن، گیلانگ، ہوبارٹ، میلبورن، پرتھ اور سڈنی شامل ہیں۔ ان تمام وینیوز پر راؤنڈ رابن لیگ کے تمام میچوں کو براہ راست دکھانے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ سیمی فائنل میچوں کیلئے سڈنی کرکٹ گراؤنڈ اور ایڈیلیڈ کا انتخاب کیا گیا ہے۔ فائنل 13 نومبر کو ملبورن کرکٹ گراؤنڈ (ایم سی جی) پر شیڈول ہے۔

انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی اہمیت کے پیش نظر ایونٹ کی انعامی رقم کی تقسیم کچھ اس طرح کی گئی ہے کہ ٹورنامنٹ میں شریک تمام ٹیمیں اس انعامی رقم سے استفادہ کر سکیں۔

آئی سی سی کی دریادلی کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ورلڈ کپ 2022 کے پہلے مرحلے میں ٹائٹل کی دوڑ سے باہر ہونے والی ٹیم کو بھی 40000 امریکی ڈالرز کی ادائیگی کی جائے گی۔

ٹورنامنٹ کی مجموعی انعامی رقم 56 لاکھ ڈالرز ہے جس میں سے شریک تمام ٹیموں کو کارکردگی کی بنیاد پر کچھ نہ کچھ دینے کا پروگرام بنایا گیا ہے۔ ورلڈکپ ٹائٹل جیتنے والی ٹیم کے اکاؤنٹ میں 1.6 ملین ڈالرز جمع ہوں گے۔ رنراپ ٹیم آٹھ لاکھ ڈالرز کی ایک خطیر رقم پر ہاتھ صاف کرے گی جبکہ سیمی فائنل ہارنے والی دونوں ٹیموں کو فی ٹیم چار لاکھ ڈالرز کی ادائیگی کی جائے گی۔

ورلڈ کپ مقابلوں کا انعقاد اسے آرگنائز کرنا اگر ایک طرف اچھا خاصا مشکل اور جان جوکھوں والا کام ہے ساتھ ہی یہ آج کل ایک منافع بخش کاروبار بھی بن گیا ہے۔ میڈیا رائٹس کی فروخت، اشتہاری کمپنیوں کے ساتھ ہونے والے کروڑوں ڈالرز کے معاہدے اور ٹکٹوں کی فروخت سے ہونے والی آمدنی کا تخمینہ اس بار اربوں ڈالرز سے متجاوز ہے۔

میگا ایونٹ کا باقاعدہ آغاز آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے مابین کھیلے جانے والے میچ سے ہو گا۔ یہ میچ 22 اکتوبر کو برسبین میں شیڈول ہے۔ اگلے روز یعنی 23 اکتوبر کو ایشیاء کی دو بہترین اور روایتی حریف پاک بھارت کرکٹ ٹیموں کے مابین ٹاکرا ہو گا۔ دونوں میچوں کیلئے ہاؤس فل رہنے کی امید ہے کیونکہ پاک بھارت میچ کیلئے آن لائن ٹکٹوں کی فروخت چند منٹوں میں مکمل ہو چکی ہے۔

آئی سی سی ذرائع کے مطابق ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کیلئے تادم تحریر 6 لاکھ ٹکٹیں فروخت ہو چکی ہیں۔ ٹورنامنٹ کی دلچسپی کے پیش نظر مزید لاکھوں افراد کے اسٹیڈیم جا کے میچز دیکھنے کا قوی امکان ہے۔

پاکستان، بھارت، سری لنکا اور انگلینڈ کی کرکٹ ٹیمیں ایک ایک مرتبہ ورلڈکپ ٹائٹل جیتنے کا اعزاز اپنے پاس رکھتی ہیں، ویسٹ انڈیز دو مرتبہ (2012 اور 2016) کی چیمپیئن ٹیم ہے جبکہ کینگروز دفاعی چیمپیئن کی حیثیت سے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا آغاز کرنے والی واحد ٹیم ہے۔ ہوم گراؤنڈ اور ہوم کراؤڈ کے سامنے کھیل کر آسٹریلیا کے جیتنے کے امکانات سب سے زیادہ ہیں لیکن کوالیفائنگ راؤنڈ کھیلنے والی کوئی بھی ٹیم متاثر کر سکتی ہے۔

تمام ٹیمیں اپنے بہترین کھلاڑیوں کو میدان میں اتار چکی ہیں لہذا ٹورنامنٹ کے دوران میچوں کی سنسنی خیزی یقینی ہے۔

گرین شرٹس کے پاس ایک اور ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ ٹرافی اپنے شوکیس میں سجانے کا بہترین موقع ہے۔ قومی ٹیم چند روز قبل نیوزی لینڈ کو فائنل میں پانچ وکٹوں سے ہرا کر سہ فریقی کرکٹ سیریز جیت کر بہترین فارم میں ہے۔ شاہین شاہ آفریدی کی ٹیم میں واپسی سے شاہینوں کی پرواز کو مزید وسعت مل گئی ہے۔ محمد نواز اور خوشدل شاہ کی جاندار بیٹنگ سے مڈل آرڈر کا مسئلہ بھی اب باقی نہیں رہا۔

ٹاپ آرڈرز میں فخر زمان کی واپسی گرین شرٹس کیلئے پلس پوائنٹ ہے ایسے میں اگر کوئی چیز شاہینوں کے ٹائٹل لے اڑانے کی راہ میں حائل ہو سکتی ہے تو وہ ہے قومی پلیئرز کی خوش فہمی۔ پاکستان پہلے ہی خوش فہمی کا شکار ہو کر ایشیاء کپ کا ٹائٹل گنوا چکا ہے لہذا دوسری بار ورلڈ چیمپیئن بننے کے لئے شاہینوں کا خوش فہمی کے اس خول سے باہر نکلنا بہت ضروری ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button