لائف سٹائلکالم

یومِ آزادی: لہو سے روشن چراغوں کو بجھنے نہیں دیں گے

ڈاکٹر جمشید نظر

تاریخی کتابیں بتاتی ہیں کہ برصغیر میں جتنی بھی قومیں حملہ آور ہوئیں وہ سب بعد میں مقامی تہذیب (ہندو تہذیب) میں جذب ہو کر اپنی الگ پہچان کو مٹا بیٹھیں لیکن اسلام وہ پہلا مذہب ہے جس نے ہزاروں سال ہندو تہذیب کے ساتھ رہ کر بھی اپنی علیحدہ پہچان کو برقرار رکھا اور پھر برصغیر پر اپنی حکمرانی قائم کی۔

مغلیہ سلطنت کے آخری عظیم الشان شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر کی سن 1707 میں وفات کے بعد برصغیر میں مسلمانوں کا ایسا زوال شروع ہوا کہ خطہ میں مسلمانوں کا اقتدار ختم ہو کر رہ گیا۔

مسلمانوں کے زوال کے بعد انگریزوں نے برصغیر پر اپنا قبضہ جمانا شروع کر دیا، سن 1757 میں انگریزوں نے پہلے بنگال پر قبضہ کر کے اپنی حکومت قائم کی اور پھر 1857 کی جنگ آزادی کے بعد پورے برصغیر میں انگریز راج قائم کر لیا اس طرح مسلمان جو برصغیر پر راج کرتے تھے وہ اپنے ہی خطہ میں محکوم بن کر رہ گئے۔

انگریزوں کو ہمیشہ سے اس بات کا خدشہ رہتا تھا کہ مسلمان کہیں پھر سے اپنی حکومت واپس پانے کی کوشش نہ کریں اسی لئے انھوں نے ہندوستان میں ”تقسیم کرو اور حکومت کرو” کی پالیسی اپناتے ہوئے ہندوؤں کو اپنے ساتھ ملا لیا اور مسلمانوں کے لئے مشکلات پیدا کرتے رہے، ہندو جو ہمیشہ سے مسلمانوں کے خلاف تھے انھوں نے انگریزوں کا منظور نظر بننے کے لالچ میں اور مسلمانوں سے اپنے پرانے بدلے اتارنے کی خاطر ان کا معاشی، تعلیمی و سیاسی استحصال کرنا شروع کر دیا۔ اس صورتحال کو دیکھ کر سر سید احمد خان کو اندازہ ہوا کہ ہندو کبھی بھی مسلمان کے دوست نہیں ہو سکتے چنانچہ جب ہندوؤں نے اردو زبان کو ختم کر کے ہندی زبان کورائج کرنے کا تنازعہ کھڑا کیا تو سر سید احمد خان نے واضح الفاظ میں اعلان کر دیا کہ ”مسلمان اور ہندو الگ الگ قومیں ہیں۔”

دو قومی نظریہ مذہب اور تہذیب کی بناء پر قائم ہوا جس کی بنیاد اسی وقت پڑ گئی تھی جب برصغیر میں پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا۔ قائد اعظم نے سن 1944 میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے طلباء سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ”پاکستان تو اسی روز وجود میں آ گیا تھا جب پہلا ہندوستانی باشندہ مسلمان ہوا تھا۔”

حضرت مجدد الف ثانی برصغیر کے پہلے بزرگ تھے جنھوں نے دو قومی نظریے کی بنیاد رکھی۔ کہا جاتا ہے کہ جنوبی ہندوستان کے ایک ہندو فلسفی رامانج نے ایک تحریک کا آغاز کیا جس کا نام ”بھگتی تحریک” تھا اس تحریک کے تحت ہندو سادہ لوح مسلمانوں کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ رام اور رحیم میں کوئی فرق نہیں، تحریک کا بنیادی مقصد مسلمانوں کو ہندوؤں میں ضم کرنا تھا۔ اس دور میں حضرت مجدد الف ثانی نے ہندو بھگتوں کی سازش کو بے نقاب کیا اور مسلمانوں کو دین سے بھٹکنے سے بچایا۔

حضرت شاہ ولی اللہ بھی دو قومی نظریے اور مسلم قومیت پر یقین رکھتے تھے۔ اسی طرح دیگر مسلمان زعماء مولانا جمال الدین افغانی، مولانا عبدالحلیم شرر، ولایت علی بمبوق، مولانا مرتضیٰ احمد، مولانا اشرف علی تھانوی نے بھی دو قومی نظریہ کی بنیاد پر مسلمانوں کو علیحدہ قوم قرار دیا۔ ایک انگریز مفکر ”جان برائٹ” نے برطانوی راج کے قیام کے صرف ایک سال بعد یعنی 24 جون 1858 کو مسلمانوں کی الگ ریاست کا تصور پیش کیا تھا۔

قائد اعظم محمد علی جناح اور شاعر مشرق علامہ اقبال سمیت تحریک پاکستان کے دیگر رہنماؤں نے دو قومی نظریے کے تحت الگ وطن پاکستان کا مطالبہ کیا تو ہندوؤں نے اس کی مخالفت شروع کر دی۔

ایک مرتبہ سن 1941 ء میں قائد اعظم مدراس میں مسلم لیگ کا جلسہ کر کے واپس جا رہے تھے کہ راستے میں ایک قصبہ سے گذر ہوا جہاں مسلمانوں نے ان کا پرجوش استقبال کیا، سب پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگا رہے تھے اسی ہجوم میں پھٹی پرانی نیکر پہنے ایک آٹھ سال کا بچہ بھی پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہا تھا، اسے دیکھ کر قائد نے اپنی گاڑی روکنے کو کہا اور لڑکے کو پاس بلا کر پوچھا ”تم پاکستان کا مطلب سمجھتے ہو؟” لڑکا گھبرا گیا۔ قائد نے اس کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے پیار سے پھر وہی سوال پوچھا۔ لڑکا بولا ”پاکستان کا بہتر مطلب آپ جانتے ہیں، ہم تو بس اتنا جانتے ہیں جہاں مسلمانوں کی حکومت وہ پاکستان اور جہاں ہندوؤں کی حکومت وہ ہندوستان۔” قائد اعظم نے اپنے ساتھ آئے صحافی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ”مدراس کا چھوٹا سا لڑکا پاکستان کا مطلب سمجھتا ہے لیکن گاندھی جی نہیں سمجھ سکتے۔” یہ بات صحافیوں نے نوٹ کر لی اور اگلے روز دنیا کے اخبارات میںیہ خبر شہ سرخیوں کے ساتھ شائع ہوئی جس کے بعد دنیا جان گئی کہ مسلمان اور ہندو دو الگ قومیں ہیں۔

مسلمانوں کے لئے الگ وطن کا مطالبہ اتنا فطری تھا کہ 1947 میں پاکستان وجود میں آ گیالیکن انگریزوں اور ہندوؤں نے ایک سازش کے تحت پاکستان کو بہت سے مسلمان اکثریتی علاقوں سے محروم کر دیا جن میں مقبوضہ کشمیر بھی شامل ہے۔

3 جون سن 1947 کو پاکستان اور بھارت کی سرحدوں کا تعین کرنے کے لئے ایک باونڈری کمیشن تشکیل دیا گیا، برطانوی حکومت نے ریڈ کلف کو اس کا سربراہ منتخب کیا جبکہ قائد اعظم برطانوی ہاوس آف لارڈز کے لاء ممبر کو باونڈری کمیشن کا سربراہ بنانے کی خواہش رکھتے تھے۔ ریڈ کلف کو چونکہ وائسرائے لارڈ ماونٹ بیٹن کے کہنے پر کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا اس لئے اس نے ریڈ کلف پر دباو ڈال کر ہندوستان کی غیرمنصفانہ تقسیم کی جس سے قائداعظم کی دور اندیشی ثابت ہو گئی کہ وہ ریڈ کلف کی بجائے کسی اور کو باونڈری کمیشن کا سربراہ بنانے کی خواہش رکھتے تھے۔

ہندوستان کی تقسیم کے موقع پر ہندوؤں نے سازش کر کے مقبوضہ کشمیر پر اپنا غیرقانونی تسلط قائم کر لیا حالانکہ کشمیر کی سرحد بھارت کی بجائے پاکستان سے ملتی ہے اور وہاں مسلمان اکثریت میں آباد تھے۔ بھارت نے ایک چال کھیلتے ہوئے اقوام متحدہ میں کشمیر سے متعلق قرارداد پیش کی، اس کا خیال تھا کہ اقوام متحدہ اس کے تسلط کو درست قرار دے گا لیکن بھارت خود اپنے ہی بچھائے ہوئے جال میں پھنس گیا، اقوام متحدہ نے کشمیر کی ریاست میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کرانے کی قرارداد منظور کی تاکہ کشمیری عوام کی رائے معلوم ہو سکے کہ وہ ہندوستان اور پاکستان میں سے کس کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے ہیں۔ بھارت نے اقوام متحدہ کی اس قرارداد کو ماننے سے انکار کر دیا اور ہٹ دھرمی دکھاتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں اپنی فوجیں بھیج کر وہاں زبردستی قبضہ کر لیا اور آج تک کشمیریوں کو حق خود ارادیت استعمال کرنے نہیں دے رہا۔

ہندوستان کی تقسیم کے بعد انتہاپسند ہندوؤں نے جس طرح مسلمان بچوں، بوڑھوں اور نوجوانوں کا قتل عام کیا، خواتین اور لڑکیوں کی عزتوں کو پامال کیا وہ انسانیت سوز اور دلخراش واقعات ہمیشہ تاریخ کے آئینہ میں یاد رکھے جائیں گے۔

بین الاقوامی ویب سائٹ ”پارٹیشن آرکائیو 1947” کی ایک رپورٹ کے مطابق تقسیم ہند کے وقت پرتشدد واقعات میں بیس لاکھ افراد مارے گئے۔ برطانوی میڈیا کے مطابق پارٹیشن کے وقت تقریباً ڈیڑھ کروڑ افراد کو اپنا گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرنا پڑی۔ اتنی بڑی تعداد میں انسانی ہجرت ایک عالمی ریکارڈ ہے۔

پارٹیشن کے بعد ابھی پاکستان اپنے پاؤں پر صحیح کھڑا نہیں ہوا تھا کہ 11 ستمبر 1948 کو قائد اعظم وفات پا گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ لاکھوں قربانیوں کے بعد ملنے والے وطن پاکستان کی ڈائمنڈ جوبلی کے موقع پر آج ہمیں یہ عہد کرنا ہو گا کہ لہو سے جن چراغوں کو روشن کیا گیا ہے ہم ان کو کبھی بجھنے نہیں دیں گے چاہے خون کا ایک ایک قطرہ ہی کیوں نہ بہانا پڑے۔

nazar
ڈاکٹر جمشید نظر ملک کے نامور صحافی، شاعر و ادیب غلام محی الدین نظر مرحوم کے صاحبزادے ہیں۔ حکومت پاکستان سے 1996 میں ایکسی لینس ایوارڈ یافتہ رائٹر ہیں اور ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی سمیت دیگر میڈیا کے لئے سکرپٹ رائٹر کے طور پر خدمات انجام دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف قومی و بین الاقوامی اخبارات میں کالم، آرٹیکل اور فیچرز لکھتے ہیں، سیمینارز، تعلیمی ورکشاپس میں صحافت کے موضوع پر خصوصی لیکچرز دیتے ہیں۔ ان کی لکھی ہوئی کچھ کتابیں زیر طبع ہیں۔
ملکی و بین الاقوامی ویب سائٹس کے لئے کالم بھی لکھتے ہیں۔

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button