لائف سٹائلکالم

شہادتوں کا سفر، سعادتوں کی روایت، شہدائے پولیس خیبر پختونخوا کو سلام!

ڈاکٹر جمشید نظر

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے تب سے لے کر آج تک ملک کو معاشی مسائل، اندرونی و بیرونی سازشوں کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کا بھی سامنا رہا ہے خصوصاً امریکہ میں 9/11 حملوں کے بعد پاکستان کو دنیا کی سب سے زیادہ خطرناک دہشت گردی کا سامنا تھا جس کا مقابلہ افواج پاکستان نے بڑی دانشمندی اور جراتمندانہ انداز میں کیا۔ پاک فوج نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے کے لئے کئی کامیاب آپریشنز کئے جن میں سرفہرست آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد ہیں۔ آپریشن ردالفساد آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سن 2017 میں شروع کیا تھا جبکہ آپریشن ضرب عضب سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے سن 2014 میں شروع کیا تھا۔ آپریشن رد الفساد اپنی نوعیت کا منفرد ملک گیر آپریشن تھا جس میں پاکستان کی تینوں مسلح افواج کے ساتھ رینجرز، سیکیورٹی اداروں اور تمام صوبوں کی پولیس فورس نے بھی حصہ لیا تھا۔ خیبر پختونخوا سمیت تمام صوبوں کی پولیس پاک فوج کے شانہ بشانہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔

جس طرح وطن عزیز کی خاطر جانوں کا نذرانہ دینے والے پاک فوج کے شہداء کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ہر سال 30 اپریل کو ”یوم شہدائے پاکستان” قومی جوش و جذبے سے منایا جاتا ہے اسی طرح ملک میں بسنے والے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت اور امن و امان کو یقینی بنانے کی خاطر اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر دہشت گردوں سے ٹکرانے والے پولیس کے شہید اہلکاروں، جوانوں کی یاد میں ہر سال 4 اگست کو ”یوم شہدائے پولیس” منایا جاتا ہے۔ اس دن کی مناسبت سے ملک بھر میں قرآن خوانی اور عبادات میں شہداء اور ملک و قوم کے لئے خصوصی دعائیں مانگی جاتی ہیں، پولیس کے اعلیٰ افسران شہداء کے مزار پر حاضری دے کر سلامی دیتے ہیں اور فاتحہ خوانی کرتے ہیں، خصوصی تقریبات میں شہداء کے اہل خانہ کو قومی اعزازات اور تعریفی اسناد سے نوازا جاتا ہے اور انھیں یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو تنہا نہ سمجھیں بلکہ پولیس فورس اور پوری قوم ہمیشہ ان کے ساتھ ہے۔ شہروں میں جگہ جگہ ریلیاں نکال کر شہداء کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے، شہداء کی یاد اور عقیدت میں پولیس اہلکار اپنے خون کے عطیات دینے کے لئے بلڈ کیمپ لگاتے ہیں تاکہ مریضوں کی جان بچائی جا سکے۔ کیا خوب جذبہ ہے! ایک طرف شہید ہونے والے پولیس اہلکار عوام کے کل کو محفوط بنانے کے لئے اپنا آج قربان کرتے ہوئے لہو کا قطرہ قطرہ بہا دیتے ہیں تو دوسری جانب غازی پولیس اہلکار مریضوں کی جان بچانے کے لئے خود اپنے خون کے عطیات پیش کرتے ہیں۔

یوں تو پاکستان کے ہر صوبے کی پولیس کو شہادت کا اعلیٰ مرتبہ مل چکا ہے لیکن ان میں سب سے زیادہ شہادتیں پانے کا اعزاز صوبہ خیبر پختونخوا کی پولیس کو حاصل ہے جہاں دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں اب تک دو ہزار سے زائد پولیس اہلکار شہید ہو چکے ہیں۔ خیبر پختونخوا پولیس کے انسپکٹر جنرل معظم جاہ انصاری نے حال ہی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ موجودہ سال کے پہلے 6 ماہ کے دورا ن دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں خیبر پختونخوا پولیس کے 54 اہلکار شہید ہو چکے ہیں جبکہ سن 2006 سے لے کر اب تک شہید ہونے والے اہلکاروں کی تعداد دو ہزار سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کا نیٹ ورک توڑ دیا گیا ہے۔

یہ بھی یاد رہے کہ خیبر پختونخوا کی بہادر پولیس سن 1948 میں غیرت مند قبائل اور افواج پاکستان کے ساتھ جہاد کشمیر میں بھی کارہائے نمایاں انجام دے چکی ہے۔

خیبر پختونخوا پولیس کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق صوبے میں سن 2021 کے دوران 19220 سرچ اینڈ سٹرائیک آپریشنز کئے گئے جس کے نتیجہ میں پولیس مقابلوں کے دوران 110 دہشت گرد مارے گئے جبکہ 599 دہشت گردوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ ان میں سے کئی دہشت گردوں کے سر کی قیمت بھی مقرر تھی۔ اسی سال دہشت گردوں کے خلاف مختلف کارروائیوں میں 2397.91 کلو گرام دھماکہ خیز مواد، 206 ہینڈ گرنیڈ، 5 خودکش جیکٹس، 7 آر پی جی، 31076 ڈیٹو نیٹرز اور 37 ایس ایم جیز برآمد کئے گے۔ اندازہ لگائیں کہ کس طرح خیبر پختونخوا پولیس کے شہیدوں اور غازیوں کی جرات اور شجاعت کی بدولت صوبہ ایک بڑی تباہی سے بچ گیا۔ یہی وہ شہید ہیں جن کے خون سے جنت کے دیپ جلائے جائیں گے۔

دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک کی پولیس فورس کے پاس ہر طرح کے جدید ہتھیار اور آلات ہیں اس کے باوجود وہ دہشت گردوں کا مقابلہ اس طرح نہیں کر سکتے جس طرح خیبر پختونخوا کی پولیس نے اپنے محدود وسائل استعمال کرتے ہوئے دہشت گردوں کا مقابلہ کیا اور صوبہ میں امن کی فضاء قائم کی۔ خیبر پختونخوا پولیس کو آرمی کے زیر انتظام ٹریننگ سنٹرز میں بنیادی تربیت بھی دی جا رہی ہے۔

انسپکٹر جنرل معظم جاہ انصاری کا کہنا ہے کہ پولیس اہلکاروں کو ہر قسم کے جدید اسلحہ سے لیس کرنے اور گاڑیاں فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی بہترین تربیت کے عمل کو بھی بڑی تیزی سے آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ 2021 تک 26 ہزار سے زائد جوانوں کو بنیادی تربیت فراہم کی جا چکی ہے۔

وطن عزیز کی خاطر اپنی قیمتی جانیں نچھاور کرنے والے پولیس شہداء قوم کے ہیرو ہیں اور ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گے کیونکہ ان کی لازوال قربانیوں کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا، قوم ان کی قربانیوں کو سلام پیش کرتی ہے۔ ہم سب کا فرض ہے کہ شہداء پولیس کے اہل خانہ سے صرف یکجہتی کا اظہار ہی نہ کریں بلکہ ان کے دکھ درد میں بھی ان کا ہر ممکن ساتھ دیں کیونکہ یہ ان شہیدوں کا خاندان ہے جو وطن کی خاطر اپنا ایک بیٹا قربان کر کے دوسرے کو بھی فخر سے قربان ہونے کے لئے بھیج دیتے ہیں۔ شہدائے پولیس خیبر پختونخوا کو سلام!

ڈاکٹر جمشید نظر ملک کے نامور صحافی، شاعر و ادیب غلام محی الدین نظر مرحوم کے صاحبزادے ہیں۔ حکومت پاکستان سے 1996 میں ایکسی لینس ایوارڈ یافتہ رائٹر ہیں اور ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی سمیت دیگر میڈیا کے لئے سکرپٹ رائٹر کے طور پر خدمات انجام دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف قومی و بین الاقوامی اخبارات میں کالم، آرٹیکل اور فیچرز لکھتے ہیں، سیمینارز، تعلیمی ورکشاپس میں صحافت کے موضوع پر خصوصی لیکچرز دیتے ہیں۔ ان کی لکھی ہوئی کچھ کتابیں زیر طبع ہیں۔
ملکی و بین الاقوامی ویب سائٹس کے لئے کالم بھی لکھتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button