صحتکالم

انزائٹی اور ڈپریشن میں فرق، بچاؤ کیسے ممکن ہے؟

ڈاکٹر سردار جمال

چونکہ انسان احساسات کا مالک ہے اس لئے ایک طرف ان احساسات کے بہت سارے فائدے ہیں جبکہ دوسری طرف تربیت میں کمی کی وجہ سے ان احساسات سے انسان بہت ساری پیچیدگیوں میں پھنسا ہوا بھی ہے۔

عام طور ڈپریشن اور انزائٹی کو ایک ہی معنوں میں لیا جاتا ہے مگر ان دونوں میں کافی فرق ہے؛ ڈپریشن ایک مستقل ذہنی تناؤ ہے جبکہ انزائٹی ایک عارضی ذہنی کیفیت ہوتی ہے۔ انزائٹی کی مختلف حالتیں ہیں جن میں خوف، بے چینی، فوبیا اور گھبراہٹ شامل ہیں۔ انزائٹی کے جسمانی اور ذہنی علامات درج ذیل ہیں:

دل کی دھڑکن محسوس کرنا، ہر وقت پریشانی کا احساس، زیادہ پسینہ آنا، پٹھوں میں کھنچاؤ، پٹھوں میں درد، تھکن کا احساس، توجہ مرکوز نہ کر پانا، سانس کا تیزی سے چلنا، سر چکرانا، چڑچڑے پن کا احساس، بے ہوش ہونے کا ڈر، نیند کے مسائل، بدہضمی اور اسہال وغیرہ۔

انزائٹی عام طور وقتی ذہنی کیفیت کا نام ہے، مثال کے طور پر جب انسان اندھیرے میں چل رہا ہے تو تھوڑا بہت ڈر ضرور محسوس کرے گا مگر جب اندھیرا ختم ہو جاتا ہے تو گھبراہٹ بھی ختم ہو جاتی ہے، بالکل اسی طرح امتحان کے دوران طالب علم امتحان کا بوجھ محسوس کر رہا ہوتا ہے مگر امتحان ختم ہونے پر طالب علم ذہنی طور پر فریش ہو جاتا ہے، بالکل اسی طرح جب بندہ پہلی بار ڈرائیونگ کرنے بیٹھتا ہے تو گھبراہٹ کی وجہ سے پسینہ نکل آتا ہے لیکن ڈرائیونگ سیکھنے کے بعد گھبراہٹ والی کیفیات ختم ہو جاتی ہیں۔

انزائٹی کی ایک قسم فوبیا بھی ہے جس میں سوشل فوبیا سرفہرست ہے۔ اس تکلیف میں مبتلا بندہ ہجوم سے ڈرتا ہے اور جب بھی ہجوم کا سامنا ہوتا ہے تو کپکپاہٹ طاری ہوتی ہے، اس کے ساتھ ہی بات کرنے سے قاصر ہوتا ہے، اول تو کچھ بول نہیں سکتا اگر بولے بھی تو لڑکھڑا کر بولے گا۔ بعض اوقات سوشل فوبیا میں مبتلا لوگ ہجوم کے درمیان میں گر کر بے ہوش بھی ہو جاتے ہیں۔

ہر انسان روزمرہ کی بنیاد پر کسی نہ کسی شکل میں انزائٹی کا سامنا کرتا ہے جو عام روٹین کی باتیں ہیں مگر متاثرہ شخس جب اپنی تکلیف دوسرے کو بیان کرتا ہے تو لاعلمی کی بنیاد پر وہ دوسرا بندہ بات سے بتنگڑ بنا کر متاثرہ فرد کو مزید تناؤ میں مبتلا کر دیتا ہے جس سے وہ بندہ مستقل مریض بن جاتا ہے۔ مثال کے طور جب شادی کی پہلی رات دلہا دلہن کا سامنا کرتا ہے تو نئے بندے کو دیکھ کر دلہا کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں، ضروری بات ہے کہ زندگی میں پہلی بار دلہن کو اپنی چارپائی پر پا کر وہ عجیب سا محسوس کرے گا اور وہ ضرور گھبراہٹ سے دوچار ہو گا، ایسی کیفیت میں نئے بندے کے ساتھ ملنا اور بات کرنا واقعی مشکل کام ہے، جب صبح دلہا اپنے دوستوں سے دل کی بات کرتا ہے تو وہ دلہے کو نامرد سمجھ کر حکیموں کے پاس بھیج دیتے ہیں۔

انزائٹی خودبخود ختم ہونے والی بیماری ہے لیکن اس کے لئے تھوڑا وقت درکار ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک طالب علم نے امتحان دیا ہے لیکن پرچے اچھے نہ دینے کی بناء پر طالب علم سوچ رہا ہے اور اپنے آپ سے پوچھ رہا ہے کہ میں پاس ہو جاؤں گا یا فیل؟ طالب کا یہ اضطراب نتیجہ آنے تک رہتا ہے اور جب نتیجہ نکلتا ہے تو اگر طالب علم پاس ہوا تو مطمئن ہو جائے گا اور اگر فیل ہوا تو بھی اضطراب چلا جائے گا اور فیل ہونے کی صورت میں طالب علم نئے سرے سے داخلہ کرنے اور خوب مشقت کرنے کی ٹھان لے گا، بالکل اسی طرح جب گھر میں کوئی بندہ بیمار ہو تو گھر کے سارے لوگ فکرمند رہتے ہیں، گھر کے لوگ کبھی سوچتے ہیں کہ مریض ٹھیک ہو جائے گا اور کبھی سوچتے ہیں کہ نہیں مرنے والا ہے اور جب مریض ٹھیک ہو جاتا ہے تو ساری پریشانی ختم ہو جاتی ہے، اور اگر مریض مر گیا تو بھی سوچ و فکر ختم ہو جاتی ہے مطلب یہ کہ جب بھی کوئی فیصلہ درمیان میں آ جاتا ہے تو انزائٹی چلی جاتی ہے۔

انزائٹی سے بچنے کا آسان حل یہ ہے کہ بندے کو پرسکون رہنا چاہیے اور فطرت کے اصولوں کو سمجھنا جاہیے اور وہ ایسے کہ ہم کو ماننا چاہیے کہ جو چیز آ جاتی ہے تو وہ ضرور چلی بھی جاتی ہے اس لئے تھوڑا انتظار کرنا ہو گا، ہر تکلیف اور مسئلے کا حل وقت ہے، وقت بذات خود ماہر معالج ہے، اگر ہم فیصلہ وقت پر چھوڑ دیں تو انسان کے اس عمل کو صبر کہا جاتا ہے، اگر بے صبری کی گئی اور برداشت سے کام نہ لیا گیا تو پھر انزائٹی جیسی معمولی بیماری بڑھ کر ڈپریشن میں تبدیل ہو سکتی ہے اور ڈپریشن بڑھ کر پاگل پن تک پہنچ سکتا ہے، تکلیف میں مبتلا شخص کو صبر و تحمل اور برداشت کا درس ماہرانہ طور دینے کا نام سائیکو تھراپی ہے اس لئے ضروری یہ ہے کہ سمجھ دار لوگ غمزدہ بندے کو وقت دیں، ان کو سمجھائیں کہ ہر تکلیف اور مصیبت مہمان جیسا ہوتا ہے، جس طرح مہمان اللہ کی طرف سے رحمت ہوتے ہیں اسی طرح ہر تکلیف سے مصیبت زدہ انسان بہت کچھ سیکھ لیتا ہے۔ اور پھر انزائٹی اگر اپنے ساتھ خوف لے آتی ہے تو چلنے کے بعد بہادری جیسی صفات اپنے پیچھے چھوڑ جاتی ہے۔

Sardar Jamal
ڈاکٹر سردار جمال پیشے کے لحاظ سے ایک ڈاکٹر ہیں لیکن ان کی نظر مریض کے ساتھ ساتھ سماج کے نبض پر بھی ہوتا ہے اور وہ اکثر ملکی اخبارات میں سیاسی و سماجی امراض کی نشاندہی کرتے رہتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button