سیاستکالم

گورکن کی دعا مرے کوئی یا خدا

ماخام خٹک

میں اکثر یہ جملہ لوگوں سے سنتا ہوں کہ اللہ بچائے کورٹ کچہری اور ہسپتال سے! اور عموماً دیکھا گیا ہے کہ ان دونوں جگہوں پر اکثر لوگوں کا مشاہدہ یا پھر تجربہ بھی کوئی اتنا خوشگوار نہیں ہوتا۔

پرائیویٹ ہسپتالوں میں ہر کوئی علاج کروا نہیں سکتا اور سرکاری ہسپتالوں میں اس طرح سے سہولیات نہیں جیسی لوگ چاہتے ہیں جس کے نتیجے میں لوگ ایک تلخ تجربے بلکہ عزت نفس کو مجروع کر کے لوٹتے ہیں۔

اسی طرح کورٹ کچہری میں بھی انصاف عدالتوں سے فوری ملنا اتنا آسان نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ لوگ فوری انصاف کا سوچ کر آتے ہیں اور اس فوری انصاف کے چکر میں ان کو سالہا سال لگ جاتے ہیں جس کے نتیجے میں بھی اکثر لوگ ایک تلخ تجربے کے ساتھ لوٹتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہسپتالوں میں ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل سٹاف اور کورٹ کچہری میں ججز، کورٹ کے عملے اور وکیلوں کا رویہ بھی شامل ہے (یہ میں پہلے واضح کر دوں کہ اچھے بھرے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں، مستثنیات ہر جگہ نافذ العمل ہوتی ہیں)۔

دراصل بعض پروفیشن یا کاروبار ہوتے ہی ایسے ہیں کہ ادھر آتے ہی دکھی، پریشان حال اور حالات و واقعات کے مارے اور ستائے ہوئے لوگ اور ان سے وابستہ لوگوں کی بقول شخصے روزی روٹی بھی جڑی ہوئی ہوتی ہے اور دوسری طرف خدمات بھی ہیں۔ اگر چارج زیادہ کریں تو لوگ نالاں، کم فیس یا سرے سے فیس ہی نہ لیں تو اپنا سروائیول مشکل بلکہ بعض تو اسی فارمولے پر عمل پیرا ہوتے ہیں کہ گھوڑا اگر گھاس سے یاری کرے گا تو کھائے گا کیا؟

ڈاکٹروں کا بھی سیزن ہوتا ہے۔ جب موسم بدل رہا ہوتا ہے تو موسمی بیماریوں کے وائرس پھیل جاتے ہیں؛ بخار، بدن درد، زکام اور کھانسی چلتی رہتی ہے۔ ویسے زکام کے بارے میں کسی سیانے کا قول ہے کہ "زکام کا اگر علاج کراؤ تو ایک ہفتے میں بیمار ٹھیک ہو جائے گا اور اگر علاج نہیں کرتے تو سات دنوں میں بندہ شفایاب ہو جاتا ہے۔”

دراصل ہر پروفیشن یا کاروبار کا طلب و رسد کا اپنا پیمانہ ہے، وہ اسی پر خود کو اور لوگوں کو ناپتا ہے۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر کے پاس اگر ہفتہ دس دن میں کوئی مریض نہیں آتا تو وہ اگر دعا یہ نہیں کرتا کہ اللہ کرے کہ کوئی بیمار ہو جائے تو دل میں یہ خواہش ضرور کرے گا کہ ہفتہ آٹھ دنوں سے کوئی بیمار ہی نہیں ہو رہا ہے تاکہ اس کی کلینک کا رخ کرے۔ بالکل اسی طرح جب کسی کے آپسی تنازعات ہوں گے یا پکڑ دھکڑ ہو گی تو کوئی کورٹ کچہری کا رخ کرے گا اور کسی وکیل صاحب کی خدمات ان کو درکار ہوں گی۔ بالکل ڈاکٹرز کی طرح ان کی بھی اگر دعا کسی کے تنازعات یا پکڑ دھکڑ کی نہیں ہو گی لیکن دل ہی دل میں یہ ضرور خواہش رکھیں گے کہ کوئی تنازعہ ہو، کوئی کرائسز ہو، کوئی پکڑ دھکڑ ہو، کوئی آئے تاکہ گلشن کا کاروبار چلے۔

اسی طرح پولیس کے بارے میں تو لوگوں نے یہ پہلے سے طے کیا ہوا ہے کہ "پولیس کی بے خیری میں خیر ہوتی ہے۔” پولیس کے بارے میں ہمارے بار کے ایک سینئر ترین وکیل کا قول ہے کہ پولیس تب تک ملزم کے پیچھے بھاگتی ہے جب تلک اس کو پکڑ نہ لے۔ پھر جب اس کو پکڑ لیتی ہے تو اس کے ساتھ ہو جاتی ہے۔ پہلے آپریشن والے اس کی خوب خبر لیتے ہیں اور پھر تفتیش والے اس کی خوب آؤ بھگت کرتے ہیں۔

اسی طرح گورکن کا بھی یہی حساب ہے۔ وہ بھی ڈیلی ویجز مزدور ہوتا ہے۔ ہوائی روزی ہے، کوئی مرا تو قبر اور دفنانے کے کام کے پیسے نکل آئیں گے ورنہ مرے ہوئے شخص کی مانند جو خالی ہاتھ اس دنیا سے جا رہا ہوتا ہے یہ بھی خالی ہاتھ اپنے گھر لوٹے گا۔

بالکل اسی طرح صحافت بھی ہے۔ صحافت یا صحافی کرائسز، خبر در خبر، ہلہ گلہ، ہنگاموں، مار دھاڑ، جلاؤ گھراؤ، پکڑ دھکڑ، سیاسی افراتفری اور سیاسی و اقتصادی بحران میں پنپتے ہیں۔ بلکہ آج کل تو ٹاک شوز کے اینکرز اور تبصرہ نگاروں کی سلیبرٹیز کی طرح جگہ جگہ، سڑکوں اور چوراہوں پر سائن بورڈ لگے ہوئے ہوتے ہیں اور ان کو فلمی ستاروں کی طرح پیش کیا جاتا ہے۔

رؤف کلاسرا ایک ٹاک شو میں بتا رہے تھے کہ جب انھوں نے شروع شروع میں کسی اخبار کو کرائم رپورٹر کی حیثیت سے جوائن کیا تھا تو ایک دن سارے ان کے آفس کے ساتھی چلے گئے اور وہ بیٹھے رہے کہ اس دوران ایک سینئر صحافی (شاید بخاری صاحب تھے) وارد ہوئے پوچھا ابھی تک بیٹھے ہوئے ہو، جس پر رؤف کلاسرا بولے کوئی خبر ہی بریک نہیں ہوئی کرائم کے حوالے سے اب تک، جس کے جواب میں بخاری صاحب بولے صبر کرو، اللہ فضل کر دے گا۔

پرائویٹ سیکیورٹی کمپنیوں کا بھی بالکل یہی قصہ ہے۔ ان کا کاروبار بھی جب چلتا ہے جب شہر شہر میں لاقانونیت ہو، بدامنی ہو، چوری اور ڈاکہ زنی ہو تو لوگ پرائویٹ کمپنیوں کی خدمات کے لئے ان کا رخ کرتے ہیں۔ اور پرائیویٹ کمپنیوں کے مالکان بھی اگر شہر شہر بدامنی، لاقانونیت، چوری اور ڈاکہ زنی برقرار رکھنے کے لئے بدست دعا نہیں ہوتے پر دل ہی دل میں یہ خواہش ضرور رکھتے ہوں گے کہ ایسے مواقع بار بار تھوڑی آتے ہیں بس یہ سلسلہ جب تک اور جہاں تک ہو سکے دراز رہے، پھر کل کس نے دیکھی ہے، پھر کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک!

رینجرز تو جیسے گزشتہ تیس پینتیس سالوں سے بغیر کسی دعا اور بغیر کسی خواہش کے اس شہر کے کالجوں، یونیورسٹیوں، سرکاری عمارتوں اور جناح کورٹس پر سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر براجمان ہے۔ ایکسٹینشن پر ایکسٹینشن ہے جو کہ ان کو مل رہی ہے۔ اور سٹریٹ کرائم سمیت ہر قسم کے جرائم اس شہر میں اس طرح ناپید ہیں جیسے چڑیا کا دودھ، بلکہ اس بات میں کتنی حقیقت ہے خدا جانے!

لیکن بعض لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ جب رینجرز کے جانے کی میعاد ختم ہونے کو آتی ہے تو شہر میں پھر سے بدامنی، لاقانیت، چوری، ڈکیتی اور سٹریٹ کرائم زور پکڑتے ہیں اور جب یہ ایکسٹینشن مل جاتی ہے تو پر حالات قابو میں آ جاتے ہیں۔ لیکن اس کیس میں رینجر نہیں عوام دعا مانگتی ہے کہ رینجر شہر میں رکی رہے کیونکہ اب عوام رینجرز کے ساتھ اتنی عادی ہو چکی ہے کہ کچھ کریں یا نہ کریں بس وہ ہماری حفاظت پر مامور رہیں۔ کیونکہ اب عوام ان کے ساتھ اتنی مانوس ہو گئی ہے کہ ان کے جانے کے بعد کراچی خالی خالی اور سونا سونا لگ رہا ہو گا۔

اقبال شاہ ایڈووکیٹ پیشے کے لحاظ سے وکیل اور سندھ ہائی کورٹ میں پریکٹس کرتے ہیں۔ شعر و ادب سے بھی علاقہ ہے اور ماخام خٹک کے قلمی نام سے شاعری کے علاوہ مختلف اخبارات و رسائل کے لئے بھی لکھتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button