کیا جنوبی وزیرستان کے پھل نایاب ہو جائیں گے؟

رضوان اللہ
جنوبی وزیرستان، جو ماضی میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ تھا اور اب خیبر پختونخوا کا ایک نیا ضم شدہ ضلع ہے، اپنے سرسبز پہاڑوں اور زرخیز زمینوں کے باعث ملک میں میوہ جات کی پیداوار میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔ تقریباً 8 لاکھ کی آبادی پر مشتمل اس ضلع کی 90 فیصد آبادی زراعت، بالخصوص باغبانی سے وابستہ ہے۔
یہاں کی زمین ہر سال لاکھوں ٹن آلوچہ، خوبانی، آڑو اور سیب جیسے تازہ پھلوں سے لدی ہوتی ہے، جنہیں نہ صرف ملک کے اندر بھیجا جاتا ہے بلکہ بیرونِ ملک بھی برآمد کیا جاتا ہے۔ جب وزیرستان میں پھلوں کا سیزن آتا ہے تو مزدوروں، ٹرانسپورٹرز، پیکنگ باکس بنانے والوں اور دیگر متعلقہ شعبوں میں روزگار کے مواقع کھلتے ہیں۔ لیکن حالیہ برسوں میں موسم کی شدت، شدید خشک سالی اور پانی کی قلت نے اس خطے کے باغات کو سنگین خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔
باغ کے مالک نوید خان بتاتے ہیں: "پانی کی قلت نے ہماری پیداوار کو شدید متاثر کیا ہے۔ پہلے ہمارا باغ سالانہ 18 سے 20 لاکھ روپے کی آمدنی دیتا تھا، مگر اب بمشکل 2 سے 3 لاکھ بچتے ہیں۔ ہماری سال بھر کی آمدن کا دارومدار اسی سیزن پر ہوتا ہے، لیکن اگر حالات یہی رہے تو ہم سب کچھ کھو دیں گے۔”
سماجی کارکن عمران مخلص کا کہنا ہے کہ: "ہمارے ہاں چھوٹے ڈیمز کی شدید کمی ہے۔ واٹر ٹیبل نیچے جا رہا ہے، جنگلات کی بے دریغ کٹائی ہو رہی ہے، اور نئی شجرکاری کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ حکومت ہر سال ڈیمز بنانے کے اعلانات تو کرتی ہے مگر یہ اعلانات صرف کاغذی حد تک محدود رہتے ہیں۔ اگر سنجیدہ اقدامات نہ کئے گئے تو لوگ اس علاقے سے نقل مکانی پر مجبور ہو جائیں گے۔”
ماحولیاتی ماہر عافیہ سلام کے مطابق: "زراعت کی تباہی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ان علاقوں میں ایسے پودے لگائے جاتے ہیں جو وہاں کے قدرتی ماحول سے مطابقت نہیں رکھتے اور زیادہ پانی مانگتے ہیں۔ چھوٹے ڈیمز زیر زمین پانی کی سطح کو بہتر بنا سکتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایسے پودوں کا انتخاب بھی ضروری ہے جو کم پانی میں بہتر پیداوار دے سکیں۔”
عالمی بینک کی حالیہ رپورٹ بھی ان خطرات کی تصدیق کرتی ہے، جس کے مطابق سنہ 2050 تک دنیا بھر میں 21 کروڑ 60 لاکھ سے زائد افراد ماحولیاتی تبدیلی کے باعث اندرون ملک نقل مکانی پر مجبور ہو سکتے ہیں۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہوں گے جو ایسے علاقوں سے ہجرت کریں گے جہاں پانی کی قلت اور زرعی پیداوار کی کمی ہو گی۔
جنوبی وزیرستان کے ایگریکلچر آفیسر حبیب خان وزیر کہتے ہیں: "ہمارے علاقے میں گزشتہ تین چار سالوں سے واٹر ٹیبل نیچے جا رہا ہے۔ اس کی بڑی وجہ درختوں کی بے دریغ کٹائی ہے۔ ہم نے صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے ہزاروں زیتون کے پودے لگائے ہیں جو نہ صرف کم پانی میں زندہ رہ سکتے ہیں بلکہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو بھی کم کرتے ہیں۔”
جنوبی وزیرستان کا زرعی مستقبل موسمیاتی تبدیلی، پانی کی کمی اور حکومتی بے عملی کے باعث خطرے میں ہے۔ اگر فوری اقدامات نہ کئے گئے، تو وہ دن دور نہیں جب یہاں کے میٹھے اور رسیلے پھل صرف ماضی کی یاد بن کر رہ جائیں گے۔ حکومت، مقامی اداروں، اور عوامی سطح پر مشترکہ کوششوں کے بغیر نہ صرف مقامی معیشت کو نقصان ہو گا بلکہ ہزاروں خاندان روزگار سے بھی محروم ہو جائیں گے۔