بہترین سبزیوں کے لئے مشہور ضلع مہمند میں کاشتکاروں، سبزیوں کے تاجروں اور ٹرانسپورٹرزکو درپیش مشکلات
سعید بادشاہ مہمند
گزشتہ دو سال سے قبائیلی ضلع مہمند میں سبزیوں کی پیداوار میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے کو تو مل رہا ہے۔ یہاں پر پہلی بار سبزی منڈیاں لگی ہیں، تحصیل صافی میں خاخ بازار سبزی منڈیوں میں روزانہ بولی کے ذریعے اندرون ملک ترسیل و بیرون ملک ایکسپورٹ کے لئے خرید اری کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ مگر بوائی سے لیکر مارکیٹ میں پہنچانے تک روزگار سے وابستہ افراد کو مختلف چیلنجز سے گزرنا پڑتا ہے۔ جس پر متعلقہ حکام نے وہ راست اقدامات نہیں اٹھائے، جس سے پائیدار بہتری ممکن ہوسکی۔
واجد خان اور حضرت حسین کا تعلق قبائیلی ضلع مہمند کی تحصیل صافی کے زرخیز علاقے قنداری سے ہیں۔ دونوں روزانہ سبزیاں، منڈی لا کر فروخت کرتے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ڈگ ویلز پر سولر سسٹم لگا کر اپنے کھیتوں کو آباد کرلیا ہے۔ اور مختلف موسمی سبزیاں اگاتے ہیں۔ اب ان کی ٹماٹر، کریلہ اور بھنڈی کی تیار فصل کو کیڑا لگا ہے۔ سبزیوں میں یہ بیماری تیزی سے پھیل رہی ہے۔ مختلف زہریلے سپرے کر کے بھی اس کی تدارک ممکن نہیں ہو سکا ہے۔
محکمہ زراعت کے ماہرین تک عام زمینداروں کی رسائی آسان نہیں اور نہ ان سے کوئی امید ہے۔ موجودہ وقت میں درجنوں سبزیوں کے باغات بری طرح متاثر ہیں. بیماری کی وجہ فروٹ فلائی مکھی تیزی سے افزائش نسل کر رہی ہے۔ ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ ہمارے علاقے میں زمینداروں کی رہنمائی اور سبزیوں کی بیماریوں سے بروقت نمٹنے کے لئے تحصیل صافی میں محکمہ زراعت کا دفتر کھول دیا جائے۔ اگر سرکاری ادویات نہ بھی ہو تو وہ کم ازکم درست مشورہ تو دے سکتے ہیں۔
ڈسٹرکٹ ڈائریکٹر محکمہ زراعت شعبہ توسیع ضلع مہمند آصف اقبال نے ٹی این این کو بتایا کہ سبزیوں اور پھلوں میں کیڑے سے بچاؤ، فروٹ فلائی ٹریپ سے ممکن ہے۔ جس میں مادہ مکھی کے ہارمونز روئی پر ڈال کر نر کو کشش سے کھینچ لیتے ہیں۔ اس ڈبہ نما ٹریپ میں داخل ہوکر فروٹ فلائی اندر زہر سے مرجاتے ہیں۔
حکومت کی طرف سے محکمہ زراعت ضلع مہمند نے گزشتہ سال سبزیوں میں کیڑا ڈالنے والی مکھی کو مارنے کے لئے 25 سو ڈبے فروٹ فلائی ٹریپ تقسیم کئے گئے تھے۔ جس کا مقصد کاشتکاروں کو اپنے سبزی اور پھلوں کو کیڑے سے بچاؤ کے طریقے سکھانا اور اس سے آگاہ کرنا تھا۔ جس کے بہت مثبت اثرات سامنے آئے تھے۔ اب حکومت کی طرف سے فنڈز تو مختص نہیں مگر کاشتکاروں کو فروٹ فلائی ٹریپ کرنے کے لئے معیاری کمپنیوں کے ذریعے بازار سے ٹریپ خرید کر استعمال کرنا چاہیئے۔
یہ طریقہ انسانی صحت کے لئے بہت فائدہ مند ہے کیونکہ سپرے کرنے سے سبزیوں پر اثرات کے دورانیہ کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ بعض سپرے کرنے کے بعد 6 دن تک سبزیاں استعمال نہیں کرنی چاہیئے۔ کیونکہ اس سے مختلف انسانی بیماریاں پیدا ہوسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فروٹ فلائی ٹریپ کرنے کا طریقہ ماحول دوست بھی ہے اور سبزیوں پر کیمیکل بھی نہیں لگتا۔ جس سے خالص پن برقرار رہتا ہے۔
صافی قنداری لودین خیل میں تقریبا 15 ایکڑ زمین کی کاشتکاری سنبھالنے والے شیر علی خان نے بتایا کہ زمینداری ایک مشقت و محنت طلب کام ہے۔ ہم پورے شوق اور لگن سے جدید زراعت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ ہم ملک کے بہترین کریلہ، دھنیا، گول کدو اور ہری مرچ پیدا کرتے ہیں۔ تحصیل صافی اور ملحقہ تحصیل پنڈیالئی میں میرے جیسے سینکڑوں کاشتکار بھی بہترین کوالٹی کی سبزیاں پروڈیوس کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال ہماری پیداوار اور ایکسپورٹرز کو بیچنے کی شرح کافی زیادہ تھی۔ مگر اب ایکسپورٹرز نے بھی چھان کر خریداری چھوڑ کر کاشتکاروں سے پورا لاٹ سستے داموں خریدتے ہیں۔ اور اسے پشاور لے جاکر ایکسپورٹ کا مال الگ کرتے ہیں۔ باقی مال پشاور کی سبزی منڈیوں میں بیچ دیتے ہیں۔ اس عمل سے زمینداروں کو کم ریٹ ملتا ہے۔ گزشتہ سال درجنوں ایکسپورٹ تاجر روزانہ باقاعدگی سے آتے ہے اور خریداری کرکے مال لے جاتے۔ اب علاقے میں صرف دو ایکسپورٹر ز آتے ہیں۔ جس سے مقامی طور پر سبزی کی قیمتوں میں کمی آئی ہے۔
سبزیوں کے تاجر محمد حسیب کا تعلق ضلع مردان سے ہے، وہ کہتے ہیں کہ وہ روالپنڈی، مردان، پشاور، چارسدہ اور دیگر سبزی منڈیوں کو ضلع مہمند کی سبزیاں سپلائی کرتے ہیں۔ ہر سبزی منڈی میں ضلع مہمند کے کریلہ اور سبز مرچ کی الگ پہچان اور اعلیٰ معیار ہے۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ سڑکوں کی ابتر حالات ہونا ہے۔ غلنئی تا یکہ غنڈ روڈ کڑپہ کی حالت بہت خراب ہے۔ جس کی وجہ سے سبزیاں راستے میں خراب ہوکر تازگی اور معیار باقی نہیں رہتا۔ جس سے مارکیٹ پہنچا کر قیمت کم ہوجاتی ہے اور ہمیں مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
تحصیل پنڈیالئی کے علاقہ دویزئی سے تعلق رکھنے والا پک اپ ڈرائیور شاہ ولی خان نے بتایا کہ جب ہم سبزیاں لوڈ کرکے سبزی منڈی سے مین روڈ پر آتے ہیں تو جگہ جگہ ٹریفک پولیس کی طرف سے جرمانے کے پرچے دیئے جاتے ہیں۔ ہمارے ضلع مہمند کی ٹریفک پولیس کے پرچے ضلع چارسدہ اور ضلع پشاور کی پولیس نہیں مانتی۔ وہ پانچ ہزار تک جرمانے کے پرچے الگ سے تھما دیتے ہیں۔
اس کے علاوہ کڑپہ زیر تعمیر پرپیچ روڈ کا 14 کلومیٹر فاصلہ تین گھنٹوں میں طے کرتے ہیں۔ کھنڈر کا منظر پیش کرتے ہوئے غلنئی تا یکہ غنڈ روڈ میں کھڈوں سے لوڈ گاڑیاں خراب ہونا معمول بن گیا ہے۔ جس پر ہزاروں روپے مرمت کا خرچہ آتا ہے۔انہوں نے روڈ کی تعمیر جلد ممکن بنانے کے ساتھ ساتھ ڈی پی او مہمند سے مطالبہ کیاہے کہ ضلع مہمند ٹریفک پولیس کے دئیے گئے پرچوں کو دوسرے اضلاع میں منوانے کے لئے اقدامات اٹھائے۔
قبائلی ضلع مہمند میں کاشتکار رہنماء وقتا فوقتا حکام بالا کے سامنے یہ مسائل اٹھاتے رہتے ہیں۔ مگر وہ راست اقدامات نہیں اٹھائے جاتے جس سے پائیدار حل نکلے ہو۔ انجمن زمینداران کے صدر و سابق امیدوار تحصیل ناظم نورحمن مہمند نے بتایا کہ فاٹا کے صوبے میں انضمام کے بعد سب زیادہ نقصان زراعت کے پیشے کو ہوا ہے۔ کیونکہ انضمام سے پہلے محکمہ زراعت شعبہ توسیع کے دفاتر ون ونڈو آپریشن کے طرز پر فعال رہے تھے۔
انکا کہنا ہے کہ کاشتکاروں کو مفت بیج، کھاد، ادویات، زمین ہمواری کے لئے ٹریکٹرز کی فراہمی ایک ہی دفتر سے ہوجاتی۔ مگر اب محکمہ زراعت کو صوبے کے نظام کے تحت مختلف شعبوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان میں سے بعض دفاتر ضلع سے باہر ہیں۔ جہاں ضلع مہمند کے کاشتکاروں کی رسائی ممکن نہیں۔ جبکہ ضلع مہمند میں پہلے سے قائم محکمہ زراعت کے دفاتر کے پاس کوئی کام نہیں رہا۔ اس لئے اعلی حکام قبائیلی اضلاع کے محکمہ زراعت کو خصوصی فنڈز دے۔ یہی پرانے دفاتر اور عملہ مقامی کاشتکاروں کے مسائل بہتر طور پر جانتے ہیں۔