بی ایچ یو طورخم میں کلاس فور ملازم نرس اور ڈاکٹر کی ڈیوٹی دینے پر مجبور کیوں؟
محراب شاہ آفریدی
طورخم بارڈر پر قائم بی ایچ یو میں ڈاکٹر و دیگر سٹاف اور علاج معالجہ کی سہولیات کی عدم دستیابی پر طورخم کے عوام اور مریضوں کی شکایات پر اسسٹنٹ کمشنر لنڈی کوتل اکبر افتخار نے گزشتہ روز مذکورہ صحت مرکز کا دورہ کیا۔
دورے کے دوران ڈاکٹر سمیت چار ٹیکنیشنز ڈیوٹی پر موجود نہیں تھے، اس حوالے سے اسسٹنٹ کمشنر اکبر افتخار نے کہا کہ کارروائی کے لئے محکمہ صحت کو رپورٹ بھیج دی ہے جبکہ کل ڈی سی خیبر کے ساتھ بھی یہ مسئلہ اٹھائیں گے کیونکہ طورخم بی ایچ یو میں سٹاف اور سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے مریضوں کو بہت مشکلات درپیش ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دورے کے دوران ایک کلاس فور چھوٹے بچے کو انجیکشن لگانے کے لئے کنولہ باتھ میں لگا رہا تھا کیونکہ ڈاکٹر اور ٹیکنیشن غیر حاضر تھے اس لئے ان کے خلاف سخت کارروائی کے لئے رپورٹ بھیج دی ہے۔
طورخم بارڈر باچا مینہ کے مکینوں نے محکمہ صحت کے اعلیٰ حکام سے مطالبہ کیا کہ طورخم باچا مینہ کے بنیادی مرکز صحت میں ڈاکٹر و دیگر سٹاف کو حاضر کرنے کے ساتھ دیگر سہولیات بھی فراہم کی جائیں تاکہ علاقے کے غریب عوام کا علاج معالجہ بہتر طریقے سے ہو سکے اور ان کی مشکلات میں کمی آ سکے۔
طورخم بی ایچ یو میں سرحد کے نزدیک آباد افغان شہری بھی علاج معالجہ کے لئے آتے ہیں۔
ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر طارق حیات نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ڈاکٹر اور دو ٹیکنیشنز بی ایچ یو طورخم میں موجود ہوتے ہیں جبکہ دو ٹیکنیشنز بارڈر پر قائم کورونا سنٹر میں خون کے نمونے لیتے ہیں، ضرورت کی بنیاد پر ہر ملازم کو چھٹی کرنے کا حق ہے، ڈاکٹر طارق حیات نے بتایا کہ چند روز پہلے جب انہوں نے اسی بی یچ یو کا دورہ کیا تو سارا سٹاف موجود تھا۔
مریم (فرضی نام ) کا کہنا تھا کہ ہمارا گاؤں باچہ مینہ میں ہے چونکہ بی ایچ یو ہمارے گاوں کے بہت قریب ہے جبکہ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال لنڈی کوتل سات کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اس لئے اکثر اوقات مریض کو جب بہت تکلیف ہوتی ہے تو ہم اسے لنڈی کوتل ہسپتال پہنچا دیتے ہیں، بی ایچ یو میں علاج کے لئے ہم کئی دفعہ گئے لیکن وہاں پر سٹاف نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں مجبوراً لنڈی کوتل ہسپتال جانا پڑتا ہے، ”باچہ مینہ میں اکثر لوگ بہت غریب ہیں اگر بی ایچ یو کو محکمہ صحت نے ٹھیک کر دیا تو باچہ مینہ جس کی آبادی 10 ہزار نفوس پر مشتمل ہے وہ ان بی ایچ یو میں علاج کر کے اس سے مستفید ہوں گے۔”