لنڈی کوتل، بابائے غزل امیر حمزہ خان شینواری کی 27ویں برسی، سیمینار و مشاعرہ
لنڈیکوتل میں بابائے غزل اور پشتو زبان کے مشہور شاعر امیر حمزہ خان شینواری کی 27ویں برسی کے موقع سیمینار اور مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا۔
نمائندہ ٹی این این کے مطابق ضلع خیبر لنڈیکوتل میں محکمہ ثقافت خیبر پختونخوا اور لنڈی کوتل خیبر پختو ادبی جرگہ کے زیر اہتمام پشتو زبان کے نامور شاعر امیر حمزہ خان شینواری مرحوم کی 27ویں برسی کے موقع پر سیمینار اور مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا۔
مہمان خصوصی ایم پی اے شفیق شیر جبکہ صدر محفل سید حافظ عبدالصمد شاہ باچا، پروفیسر ڈاکٹر اسلم تاثیر، ڈاکٹر زاہد مسعود و دیگر شعراء میں پروفیسر ڈاکٹر تواب شاہ مسرور، قندھار آفریدی، لیاقت علی حسرت، نعمت اللہ اسیر، فیصل شینواری، عبدالغفورخان آفریدی، نامدار آفریدی، حارث خان شینواری، نسیم خان شلمانی، درویش خان آفریدی، تقدیر ملنگ افغانی، ڈاکٹر کلیم شینواری، عابد ثمر، شعور گل آفریدی اور خیبر پختونخوا و دیگر اضلاع سے شعراء کی کثیر تعداد اس موقع پر موجود تھی۔
اس موقع پر شعراء نے ان کی زندگی پر غزل اور اشعار پیش کئے، جبکہ پروفیسر ڈاکٹر اسلم تاثیر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پشتو زبان کے مشہور شاعر امیر حمزہ خان شینواری ایک عظیم شاعر اور شخصیت تھے جنہوں نے پشتو زبان کی غزل اور شاعری سے ملکی و غیرملکی سطح پر بڑا مقام حاصل کیا تھا، ان کی خدمات کو ملک کے تمام شعراء قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
سیمینار اور مشاعرہ کے دیگر شرکاء نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ پشتو زبان کے مشہور شاعر امیر حمزہ خان شینواری کے مزار پر قائم لائبریری کے لئے سٹاف مقرر کیا جائے اور ان کی برسی اور دیگر تقاریب کو ہر سال سرکاری سطح پر منایا جائے اور ان کے مزار کے لئے آئے ہوئے زائرین کے لئے سہولیات فراہم کی جائیں۔
برسی کے موقع پر بابائے غزل امیر حمزہ خان شینواری مرحوم کے بھتیجے فیصل خان شینواری نے محکمہ ثقافت خیبر پختونخواہ کے حکام اور برسی میں شرکت کرنے والے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔
واضح رہے کہ پشتو میں غزل کے اہم شاعر ۔بابائے عزل۔ امیر حمزہ خان شنواری 1907ء میں خیبر ایجنسی کے علاقے لواڑگی لنڈی کوتل میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام میر باز خان تھا۔ اسلامیہ کالجیٹ ہائی اسکول سے میٹرک تک تعلیم حاصل کی اور ریلوے میں ملازمت کر لی۔
1930ء میں والد کے انتقال پر سرکاری ملازمت ترک کر دی اور روحانی پیشوا سید عبد الستار بادشاہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور انہی کی ہدایت پر اردو میں فکر سخن (پہلے اردو میں شاعری کرتے تھے) چھوڑ کر پشتو شاعری شروع کی اور پشتو غزل کو جدید رجحانات سے روشناس کرایا۔
ہم عصر شاعروں کے ساتھ مل کر بزم ادب قائم کی جس کی جانب سے عظیم شاعررحمان بابا کا عرس تواتر سے منایا جانے لگا۔
1950ء میں اس بزم کو اولسی ادبی جرگہ میں ضم کر دیا گیا جس کے صدر امیر حمزہ منتخب ہوئے۔ رفیق غزنوی نے پشتو فلم سازی کی ابتدا کی تو پہلی پشتو فلم لیلیٰ مجنوں کے گانے اور مکالمے انہوں نے لکھے۔
ریڈیو پاکستان کے لیے بہت سے معاشرتی اور اصلاحی ڈرامے لکھے، پشتو نثر میں بھی بہت کچھ لکھا۔ ان کی معروف تصانیف میں نوے پختون، نوے چپے (ناول) غزونے (مجموعہ کلام)، د زڑہ آواز (نعتیہ کلام)، تجلیات (نثر)، د خوشحال بابا یوہ شعرہ (نثر)۔ ژوند (نثر)۔ سفرنامہ افغانستان (نثر)۔ اس کے علاوہ جاوید نامہ اور ارمغان حجاز کا پشتو ترجمہ بھی کیا۔
آپ نے 1994 میں 87 سال کی عمر میں وفات پائی۔