فیچرز اور انٹرویوقبائلی اضلاع

‘قبائلی مرد نہیں چاہتے کہ خواتین معاشی طور پر خودمختار ہوں’

 

خالدہ نیاز

‘باجوڑ میں خواتین کو صدائے امن کے دفاترجانے سے روکنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ یہ پیسے خواتین کی بجائے مردوں کو ملیں کیونکہ مرد نہیں چاہتے کہ خواتین معاشی طور پر خودمختار ہوں’

ضلع باجوڑ سے تعلق رکھنے والی طالبہ دیا (فرضی نام) کا کہنا ہے کہ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جرگے نے فیصلہ کیا ہے کہ خواتین اب صدائے امن کے سنٹرز نہیں جاسکتی اور اس کے علاوہ ریڈیو سٹیشنز کال بھی نہیں کرسکتی۔ انہوں نے بتایا کہ ضلع باجوڑ میں مرد خواتین کو وہ حقوق نہیں دیتے جن کی وہ حقدار ہیں، انکو ضروریات زندگی کے لیے جیب خرچ نہیں دیتے لیکن بدقسمتی سے ان سے وہ پیسے بھی لینا چاہتے ہیں جو حکومت انکو دے رہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ قبائلی اضلاع میں اب بھی خواتین کو اپنے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے اور انکو اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنے کا حق نہیں دیا جارہا۔ دیا کے مطابق جس علاقے ماموند میں جرگہ ہوا ہے وہاں پرلڑکیوں کو آج بھی پیسوں کے عوض بیچ دیا جاتا ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ اس کے خلاف کوئی جرگہ نہیں ہوا اور نہ ہی کسی نے اس کے خلاف آواز اٹھائی ہے، اس علاقے میں لڑکیوں کے لیے کوئی کالج نہیں ہے لیکن اس پربات کرنے کو تیار نہیں ہے۔

یاد رہے گزشتہ روز قبائلی ضلع باجوڑ کے تحصیل وڑ ماموند میں مقامی عمائدین کا ایک جرگہ ہوا ہے جس میں مختلف اقوام نے خواتین کے صدائے امن مرکز جانے اور ایف ایم ریڈیوز کو کال کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے جبکہ خلاف ورزی پر قوم اور خاندان کو 10,10 ہزار روپے جرمانہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

مشران نے کہا کہ صدائے امن پروگرام لرخلوزو میں پیسے دینے کے طریقہ کار کے خلاف تحصیل وڑ ماموند کی تمام خواتین پر صدائے امن مرکز جانے پر پابندی ہو گی، اگر کسی قوم کی ایک بھی خاتون پیسے لینے گئی تو اس قوم کو دس ہزار روپے جرمانہ کیا جائے گا، اس کے علاوہ اگر تحصیل وڑ ماموند کی کسی عورت کی طرف سے ایف ایم ریڈیو کو کال کی گئی اور وہ ثابت ہو گئی تو وہ خاندان قوم کو دس ہزار روپے جرمانہ ادا کرے گا۔

دیا نے بتایا کہ باجوڑ سمیت تمام قبائلی اضلاع میں خواتین کو وراثت کے حق سے محروم کیا جاتا ہے حالانکہ یہ حق انکو دین اسلام نے دیا ہے لیکن انکو مزید پسماندگی کی طرف دھکیلنے کے لیے ایسے جرگوں کا انعقاد کیا جارہا ہے اور انکے حقوق پر کوئی بات نہیں کررہا۔

دیا نے مزید کہا کہ عمائدین کا موقف ہے کہ قبائلی روایات میں خواتین کے پردے کا خاص انتظام کیا جاتا ہے لیکن قبائلی اضلاع میں جب انتخابات ہورہے تھے تو تب تو مردوں نے تمام خواتین کو ووٹ ڈالنے کے لیے گھروں سے باہر نکالا تھا اور اس کے علاوہ قبائلی خواتین کھیتوں میں بھی مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں لیکن اب جب انکو پیسے مل رہے ہیں تو مردوں کو خواتین کے پردے کا خیال آیا ہے اصل بات یہ ہے کہ مرد نہیں چاہتے کہ قبائلی خواتین معاشی طور پر خودمختار ہو اور انکو اپنے حقوق کا پتہ چلے۔

‘ میں نے خود کئی بار ایف ایم سٹیشنز میں کال کئے ہیں اور مقابلوں میں حصہ لیا ہے اور مقابلے جیتے بھی ہیں، باقی خواتین بھی اگر کال کرتی ہیں ایف ایم سٹیشنز میں تو یا تو وہ صحت سے حوالے سے پوچھتی ہے یا پھر کسی دینی مسئلے پربات کرتی ہیں، قبائلی خواتین کے پاس معلومات لینے حاصل کرنے کا واحد ذریعہ ریڈیو سٹیشنز ہیں اب اگر یہ ذریعہ بھی ان سے چھین لیا جائے تو وہ کیا کریں گی’ دیا نے بتایا۔

دیا کا کہنا ہے ملک کے دیگر حصوں کی خواتین کہیں نہ کہیں سے معلومات حاصل کرلیتی ہیں لیکن قبائلی اضلاع میں انٹرنیٹ کام نہیں کرتا، موبائل فونز خواتین کے پاس نہیں ہے یہی ایک ایف سٹیشنز ہے جس کو وہ سن کر معلومات حاصل کرتی ہیں لیکن اب وہاں بھی کال کرنے پر پابندی عائد کی گئی ہے حالانکہ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ ایف ایم سٹیشنز کے انتظامیہ کو بتانا چاہیئے تھا کہ وہ غیرضروری کالز کے تدارک کے لیے اقدامات کریں۔

اس حوالے سے سابقہ ایم این اے ہارون رشید نے کہا کہ اس حوالے سے عام لوگوں کا مطالبہ ہے کہ یہ پیسے خواتین کے بجائیں مردوں کو دیئے جائے اس طرح یہ اسان ہوگا۔ خواتین دور دراز علاقوں سے اتی ہیں جن کو بہت تکلیف ہوتی ہے، بازاروں اور سڑکوں پر خواتین کا رش ہوتا ہے، اور پھر سنٹرز میں اس طرح سے سہولیات بھی نہیں ہوتی اور خواتین سو یا دو سو کلومیٹر دور سنٹرز جاتی ہیں۔

جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے ہارون رشید نے بتایا کہ جہاں تک ایف ایم ریڈیوز کو خواتین کے کالز کرنے پر پابندی کا سوال ہے تو اگر پروگرام مذہب یا صحت کے حوالے سے ہو تو ان پروگرامز میں خواتین کی جانب سے کال کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے لیکن اگر گپ شپ کیلئے کوئی کال کرتا ہے تو اس بات کا نہ تو مذہب اجازت دیتا ہے اور نہ ہی ہمارا کلچر اس بات کی اجازت دیتا ہے۔

‘ریڈیو سب لوگ سنتے ہیں، اس کے اثرات بھی سب پر ہوتے ہیں، اس سے ماحول پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں، اس کے لیے حدودو قیود مقرر ہونے چاہیئے کیونکہ اسے غلط تاثر پھیلتا ہے’

اگر کالرز کیلئے حدود و قیود ہو تو ٹھیک نہیں تو غلط کالز کے پورے معاشرے پر اثرات ہوتے ہیں اور جرگے نے بھی اسی تناظر میں بات کی ہے۔

ہارون رشید نے کہا کہ ریڈیو انتظامیہ سمیت مختلف خاندانوں کے سربراہاں اس پر چیک اینڈ بیلنس کیلئے موثر طریقہ کار بنائیں تاکہ غیر ضروری کالز نہ ہو اور خواتین اپنی معلومات بھی حاصل کرسکیں۔

انہوں نے کہا کہ جہاں تک جرگے کی قانونی حیثیت اور اس فیصلے کا تعلق ہے تو یہ ظاہری بات ہے کہ سینکڑوں ہزاروں سالوں سے معاشرے میں کچھ روایات چلے آرہے ہیں، یہ ٹھیک ہے فاٹا انضمام کے بعد ائین اور قانون پر عملدرآمد ضروری ہے لیکن اس معاشرے میں لوگ پہلے اسی طریقے سے فیصلے کرتے تھے اور اس کا اثر بھی ہوتا تھا تو انکو وقت لگے گا آئین اور قانون کو سمجھنے میں لیکن یہ بھی ایک بات ہے کہ انضمام ہوا لیکن اس کے اثرات نظر نہیں آرہے ہیں۔

ہارون رشید نے کہا کہ اداروں کا کردار نہیں ہے اس لئے یہ واقعات حکومت کی غفلت کی وجہ سے سامنے آرہے ہیں، حکومت اداروں کو مستحکم بنا دیتے تو وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ایسے فیصلے اکثر اداروں پر پریشر لانے کیلئے بھی لوگ کرتے ہیں تاکہ وہ ان کے مسائل کو توجہ دیں۔

دوسری جانب ضلع باجوڑ کے ڈپٹی کمشنرمحمد فیاض نے اس حوالے سے ٹی این این کو بتایا کہ ایف سی آر کے خاتمے کے بعد اب قبائلی اضلاع میں اس قسم کے جرگوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور کوئی شخص بھی کسی دوسرے شخص کو بنیادی حقوق سے محروم نہیں کرسکتا۔ ڈی سی نے کہا کہ انتظامیہ کسی کو بھی یہ اختیار نہیں دیتا کہ وہ خود سے کوئی حکم صادر کریں۔

انہوں نے کہا کہ وڑ ماموند عمائدین کے ساتھ اس حوالے سے بات کرنے کے لیے اے سی وہاں گئے ہیں اور انکی ساتھ میٹنگ جاری ہے تاہم اگر انہوں نے انتظامیہ کی بات ماننے سے انکار کردیا تو ان عمائدین کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے گی۔

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button