شمالی وزیرستان: غلام خان بارڈر کھولنے کا فیصلہ
حاجی مجتبیٰ
شمالی وزیرستان کی ضلعی انتظامیہ اور سکیورٹی فورسز نے غلام خان بارڈر کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں جمعرات کے روز بارڈر پر افغان اور پاکستانی حکام کے درمیان فلیگ میٹنگ بھی منعقد کی جائے گی جس میں بارڈر کھولنے کے طریقہ کار پربات کی جائے گی۔
ذرائع کے مطابق غلام خان بارڈر کو کھولنے کے حوالے سے متعلقہ حکام کی بات چیت جاری ہے اور بہت جلد بارڈر کو کھول دیا جائے گا۔
بدھ کے روز ضلعی انتظامیہ اور پولیس افسران نے پاک افغان بارڈر غلام خان کا دورہ بھی کیا اور وہاں موجود سہولیات کا جائزہ لیا۔ نئے ڈپٹی کمشنر شاہد علی اور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر شفیع اللہ خان گنڈاپور نے پاک افغان بارڈر غلام خان کا تفصیلی دورہ کیا۔ غلام خان پہنچنے پر سول و عسکری حکام نے دونوں افسران کا استقبال کیا۔ دونوں افسران نے زیرو پوائنٹ اور قرنطینہ سنٹر کا دورہ کیا۔
ڈی سی اور ڈی پی او نے دوطرفہ تجارت اور مریضوں کیلئے طبی سہولیات کا تفصیلی جائزہ لیا، دورے کے دوران بارڈر منیجمنٹ اور فینسنگ کا بھی جائزہ لیا گیا۔ اس موقع پر عسکری حکام اور تحصیلدار غلام خان غنی الرحمان کی جانب سے ڈی سی اور ڈی پی او کو پاک افغان بارڈر پر دوطرفہ تجارت، بارڈر منیجمنٹ اور قرنطینہ سنٹر میں سہولیات کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی گئی۔
افسران نے پاک افغان بارڈر پر دوطرفہ تجارت، بارڈر منیجمنٹ اور قرنطینہ سنٹر میں طبی سہولیات پر اطمینان کا اظہار کیا۔ ڈپٹی کمشنر شاہد علی نے کہا کہ غلام خان بارڈر تجارت کے لحاظ سے وسطی ایشیا کا اہم گیٹ وے ہے، مستقبل میں اس راستے کے ذریعے تجارت مزید فروغ پائے گا۔ انہوں نے کہا کہ دوطرفہ تجارت کا براہ راست فائدہ مقامی آبادی اور پورے پاکستان کو پہنچے گا۔
اس موقع پر ڈی پی او شفیع اللہ گنڈا پور نے کہا کہ غلام خان بارڈر کو مکمل فعال کرنے کیلئے پولیس انتظامیہ اور عسکری حکام کا بھرپور ساتھ دے گی۔
واضح رہے کہ شمالی وزیرستان کے ٹرانسپورٹرز نے چند روز قبل افغانستان میں پھنسے ساتھی ٹرانسپورٹروں کی واپسی کا مطالبہ کیا تھا اور اس سلسلے میں میں کھجوری کے مقام پر روایتی طریقے سے ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے ہوئے احتجاج بھی کیا تھا۔
ٹرانسپورٹرز نے سب ڈویژن میرعلی کے کھجوری چیک پوسٹ کے قریب ٹائر جلاکر روڈ کو ہر قسم ٹریفک کیلئے بند کردیا تھا اور ان کا کہنا تھا کہ کورونا وباء کے باعث پاک افغان غلام خان بارڈر بند ہونے کی وجہ سے دو سو سے زائد پاکستانی ڈرائیورز حضرات افغانستان میں محصور ہیں۔
خیال رہے کہ 16 مارچ سے طورخم بارڈر کی بندش کی وجہ سے بھی کئی پاکستانی ٹرانسپورٹرز افغانستان میں اور افغانی پاکستان میں پھنس گئے تھے لیکن بعد میں وفاقی حکومت نے ان کی واپسی کے لئے منصوبہ بندی کرلی ہے جس کے تحت وہاں سے آنے والے افراد کے لئے خیبر میں قرنطینہ سنٹرز بنائے گئے ہیں اور جہاں پر ان کے سکریننگ کی جاتی ہے اور متاثری افراد کو وہی پر ہی علاج معالجے کی سہولیات فراہم کی جاتی ہے۔
واضح رہے کہ غلام خان بارڈر کو مارچ کے مہینے میں کورونا وائرس پھیلنے کے بعد بند کردیا گیا تھا۔