شینواری قوم سے تعلق رکھنے والی خاصہ دار فورس کو شکایت کیا ہے؟
محراب شاہ آفریدی
شینواری قوم سے تعلق رکھنے والی خاصہ دار فورس کے صوبیداروں, نائب صوبیداروں اور حوالداروں کا ملک مراد خان شینواری باغ نزد چارباغ میں ایک اہم اجلاس ہوا جس میں طے پایا کہ اپنے تمام ترحقوق کے لئے پہلے مرحلے میں دس رکنی کمیٹی تشکیل دی جائے، دوسرے مرحلے میں قومی مشران کے ساتھ نشست کر کے اپنے مسائل بیان کئے جائیں, پھر آل فاٹا خاصہ دار فورس کی کمیٹی کے ساتھ بیٹھ کر مسائل پیش بیان کئے جائیں اور پھر بالائی حکام کے سامنے اپنے مسائل رکھے جائیں تاہم اس عزم کا اظہار بھی کیا گیا، ”کسی بھی صورت میں اپنے جائز حقوق سے دستبردار نہیں ہوں گے۔”
اجلاس کو بتایا گیا کہ ان کے متعدد سینئر موسٹ حوالدار ترقی سے محروم ہیں جن میں بشیر شنواری, جبار شنواری اور کریم شنواری جیسے نام قابل ذکر ہیں، کئی اہلکار کم پڑ گئے جن کے نام سرکاری لیسٹ میں بھی موجود نہیں اور قبیلے سے کوئی ڈی ایس پی رینک کا آفیسر بھی نہیں اور جو ریٹائرڈ ہوئے ہیں ان کی جگہ پر نئی کوئی بھرتی نہیں ہو سکی جو کہ سراسر ظلم اور زیادتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
لیویز و خاصہ دار فورس ایکٹ منظور، خاصہ داروں کا احتجاجی تحریک کا اعلان
جنوبی وزیرستان کے تین ہزار سے زائد خاصہ دار خیبر پختونخوا پولیس کا حصہ بن گئے
”سلسلہ چل پڑا ہے”، خیبر خاصہ دار فورس کے 22 اہلکار خیبر پختونخوا پولیس میں ضم
شرکاء نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شنواری قبیلے کے اہلکاروں میں سے کسی کو بھی پولیس ڈپارٹمنٹ کی طرف سے دیئے جانے والے تربیتوں کورسوں میں شامل نہیں کیا جاتا البتہ گزشتہ روز ڈی پی او کو جب ایک باورچی کی ضرورت پڑی تو کہا کہ باورچی شنواری قبیلے سے لیتے ہیں جس کی سخت مذمت کی جاتی ہے، ”اپنی توہین برداشت نہیں کریں گے۔”
اجلاس کے دوران ایک سٹامپ پیپر پر موجود تمام اہلکاروں سے دستخط لئے گئے اور نائب صوبیدار مصنف شنواری کو مذاکراتی کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا جو کہ مشاورتی اجلاس طلب کریں گے اور باہمی مشاورت سے آئندہ کے لائحہ عمل کا فیصلہ کیا جائے گا۔
دوسری طرف سرکاری ذرائع نے بتایا کہ شنواری قوم کی خاصہ دار فورس کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہو رہی بلکہ ان کے اپنے ریٹائرڈ صوبیداروں اور نائب صوبیداروں کی وجہ سے معاملہ لٹکا ہوا ہے جنہوں نے عدالت سے سٹے آرڈرز لئے ہیں اور جب تک وہ باقاعدہ ریٹارئرڈ نہیں ہو جاتے ان کے ماتحتوں میں سے کسی کو کوئی پروموشن ملنا ممکن ہی نہیں۔
یاد رہے کہ رواں سال فروری میں قبائلی اضلاع کی لیویز وخاصہ دار فورس پولیس میں ضم کر دی گئی تھی۔