انٹرنیٹ کی بندش، خیبر کے بعد مہمند کے طلباء بھی سڑکوں پر
ضلع مہمند میں قبائلی اضلاع کو انٹرنیٹ سہولیات فراہمی کے لۓ مہمند سٹوڈنٹس یونین کے زیر نگرانی طلباء کا احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔
نمائندہ ٹی این این کے مطابق غلنئ بازار میں پشاور باجوڑ شاہراہ پر برسر احتجاج مظاہرین کا کہنا تھا کہ حکومت قبائلی عوام کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک بند کرے۔
مظاہرے میں شریک سینکڑوں طلباء نے قبائلی اضلاع میں انٹرنیٹ سہولیات کی عدم فراہمی پر بطور احتجاج شاہراہ کو ایک گھنٹہ کے لئے بند رکھا، مظاہرین نے ہاتھوں میں بینر اور کتبے اٹھا رکھے تھے جن پر مختلف نعرے درج تھے۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں آن لائن کلاسز کا سلسلہ جاری ہے مگر قبائلی طلبأ ان سہولیات سے محروم ہیں جس کی بنیادی وجہ قبائلی اضلاع میں انٹرنیٹ سہولیات کا فقدان ہے اور اس کا خمیازہ قبائلی طلباء کو تعلیم سے محرومی کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
انٹرنیٹ کی سستی سروس کی فراہمی، اک خوب ہے!
”لاک ڈاؤن ہو یا آپریشن، آپ انٹرنیٹ بند نہیں کر سکتے”
‘قبائلی اضلاع میں انٹرنیٹ سروس کی بحالی ضروری ہے’
انہوں نے کہا کہ مقتدر قوتوں کو اب قبائلی عوام کو مذکورہ سہولیات دینا ہوں گی کیونکہ دنیا اب ایک گلوبل ویلج بن گئی ہے، ”انٹرنیٹ کی بحالی تک احتجاج جاری رے گا۔”
مہمند سٹوڈنٹس یونین نے آئندہ لائحہ عمل کیلئے طلباء کی 5 رکنی کمیٹی بھی بنائی جو بہت جلد اس سلسلے میں اہم اعلانات کرے گی۔
دوسری جانب پشاور میں پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن نے آن لائن کلاسز کو بند کرنے جبکہ ضلع اورکزئی میں ٹرائبل سٹوڈنٹس فیڈریشن نے آئن لائن کلاسز لینے کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔
پشاور پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن کے الیکشن و آرگنائزنگ کمیٹی خیبر پختونخوا کے چیئرمین جمشید وزیر نے یونیورسٹیوں میں آن لائن کلاسز کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اٹھاویں آئینی ترمیم کےبعد مرکزی حکومت کی طرف سے تعلیمی پالیسی جاری کرنا غیر قانونی اور غیر آئینی اقدام ہے، آن لائن کلاسیں شروع کرنے سے پہلے طلبہ کو انٹرنیٹ کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ جب پشاور جیسے بڑے شہر میں انٹرنیٹ ٹھیک طرح سے نہیں چل رہا تو ضم اضلاع اور صوبے کے شمالی اضلاع خصوصی چترال اور کوہستان میں رہنے والے طلبہ کیسے آن لائن کلاسز لیں گے جہاں تھر جی اور فور جی کی سہولیات ہی نہیں ہیں، آن لائن کلاسز کے لیے ہر کسی کے پاس وسائل موجود نہیں، کسی کو سمارٹ فون، کسی کو لیپ ٹاپ، تو کسی کو انٹرنیٹ کا مسئلہ ہے ، جب کہ بہت سے طلبہ انٹرنیٹ پیکجز افورڈ نہیں کرسکتے۔
پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن نے مطالبہ کیا کہ حکومت آن لائن کلاسز کیلئے خصوصی طور پر ضم اضلاع میں تھری جی اور فور جی میں انٹرنیٹ کی سہولت کی فراہمی کو یقنیی بنائے بصورت دیگر ہم آن لائن کلاسز کے فیصلے کے مخالفت کریں گے۔
پی اایس ایف رہنماؤں کا کہنا تھا کہ حکومت ہر طالب علم کیلئے سمارٹ فون، فری انٹرنیٹ اور ضم اضلاع کے طالب علموں کیلئے انٹرنیٹ کا بندو بست کرے یا آن لائن کلاسز کا فیصلہ واپس لے، اگر ہمارے مطالبات نہیں مانے گئے اور حکومت نے اپنا فیصلہ برقرار رکھا تو ہم مجبور ہوں گے کہ ہم نہ صرف آن لائن کلاسز کے فیصلے کے مخالفت کرینگے بلکہ اس فیصلے کیخلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرنے کیلئے سڑکوں پر بھی نکل آئیں گے۔
پی ایس ایف رہنماؤں نے حکومت سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ سٹوڈنٹ یونین کی بحالی میں درپیش روکاٹیں دور کی جائے اور انہیں فوری طور پر بحال کیا جائے۔
پی ایس ایف کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ صوبے کے تمام یونیورسٹیوں میں مستقل سٹاف کے ساتھ ساتھ مستقل وائس چانسلروں کی تقرری کی جائے۔
انہوں نے کہا مطالبہ کیا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے تمام طلباء کیلئے ٹیوشن فیس کو معاف کیاجائے۔ ضم اضلاع کے ساتھ ساتھ گلگت ، چترال، اور بلوچستان اور دیگر اضلاع میں انٹرنیٹ کی بندش کی بناء پر ان تمام طلبہ کیلئے ہاسٹل کی سہولیات کو عمل میں لائی جائے اورتمام یونیورسٹیوں کو بنیادی ضروریات کے ساتھ ساتھ مالی امداد دی جائے۔
ادھر ٹی ایس ایف کے مرکزی جنرل سیکرٹری آصف علی اورکزئی کا کہنا تھا کہ ضم اضلاع میں نیٹ سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے طلباء ائن لائن کلاسز لینے سے محروم ہیں، حکومت نیٹ سسٹم فراہم کرے یا ایس او پیز کے تحت یونیورسٹیاں کھولیں، اگر حکومت نے یونیورسٹیاں نہیں کھولیں اور ائن لائن کلاسز کے بجائے کوئی دوسرا طریقہ نہیں نکالا تو ہمارا مستقبل تاریکیوں میں ڈوب جائے گا، اگر حکومت نے قبائلی طلباء کیلئے متبادل طریقہ نہیں اپنایا تو ملک گیر سطح پر احتجاج کریں گے۔
یاد رہے کہ ابھی 3 جون کو طلباء نے ضلع خیبر میں بھی انٹرنیٹ بندش کیخلاف احتجاج کیا تھا۔ لنڈیکوتل پریس کلب کے سامنے سٹوڈنٹ اور تاجر یونین کے احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے خیبر سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے صدر ابودردا شینواری اور حارث شینواری نے کہا کہ حکومت نے طلباء کے لئے ان لائن کلاسز شروع کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن قبائلی اضلاع بالخصوص ضلع خیبر باڑہ، جمرود اور لنڈی کوتل میں انٹرنیٹ سروس بند ہونے کے باعث ہزاروں طلباء ان لائن کلاسز سے محروم ہو گئے ہیں اور ان کا مستقبل تاریکی میں ڈوب گیا ہے۔
یہ بھی یاد رہے کہ 14 اپریل کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو پارہ چنار میں انٹرنیٹ سروس کی فراہمی کا حکم دیا تھا لیکن اس کے باوجود کرم یا کسی بھی دوسرے ضم شدہ ضلع میں تاحال انٹرنیٹ سروس بحال نہ ہو سکی ہے۔