باجوڑ اور مہمند اقوام کے درمیان حدبندی تنازعہ، دونوں اطراف سینکڑوں لوگ جمع
سی جے مصباح الدین سے
باجوڑ اور مہمند اقوام کے درمیان حد بندی تنازعہ شدت اختیار کر گیا، دونوں طرف دفعہ 144 کے باوجود سینکڑوں لوگ جمع ہیں۔
باجوڑ اور مہمند اضلاع کی سرحدیں مامدگٹ کے مقام پر ایک دوسرے سے جدا ہوئی ہیں لیکن کافی عرصہ سے ضلع مہمند میں رہنے والی صافی قوم اور ضلع باجوڑ کی تحصیل نواگئی میں قیام پذیر لوگوں کا تنازعہ چلا آ رہا ہہے۔
دو دن پہلے ضلع مہمند سے تعلق رکھنے والی صافی قوم کے چند مشران نے اہل علاقہ کو ساتھ لے کر ساگی کے مقام پر مطالبہ کیا کہ باجوڑ کی حدود میں تقریباً 20 سال پہلے تعمیر کردہ چیک پوائنٹ جہاں باجوڑ کے لیویز اور ایف سی اہلکار تعینات ہیں وہاں مہمند لیویز فورس تعینات کی جائیں۔
دوسری طرف نواگئی سے تعلق رکھنے والے مشران اور اہل علاقہ بھی کثیر تعداد میں نکلے جن کا کہنا ہے کہ ضلع مہمند کے لوگ جان بوجھ کر اور اشتعال دلانے کی غرض سے باجوڑ کی حدود میں داخل ہوئے ہیں لہذا ضلع انتظامیہ انہیں پرامن طریقے سے نکالے۔
باجوڑ اور مہمند کے سینکڑوں افراد دوسرے روز بھی سڑکوں پر بیٹھے ہیں اور ایک دوسرے کیخلاف تقاریر کر رہے ہیں جس کی وجہ سے اشتعال میں اضافہ ہو رہا ہے اور حالات خراب ہوتے جا رہے ہیں۔
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی رہنماء اور سابقہ امیدوار صوبائی اسمبلی شیخ جہان زادہ نے بتایا کہ مہمند قوم کے چند شر پسند عناصر نے باجوڑ کی جغرفیائی اور زمینی حدود مسخ کرنے کے کوشش کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ افراد آج بھی باجوڑ کی حدود میں موجود ہیں اور حالات خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن حیرانگی کی بات یہ ہے کہ ضلعی انتظامیہ مہمند ان کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہوئی ہے۔
شیخ جہانزادہ نے کہا کہ ضلعی انتظامیہ مہمند اور باجوڑ مشترکہ طور پر کردار ادا کر کے ان کو پرامن طریقے سے باجوڑ کی حدود سے نکالیں، اگر کہیں پر چیک پوائنٹ کی ضرورت ہے تو وہ ضلعی انتظامیہ باجوڑ نواگئی کے مشران سے مشاورت کر کے مقرر کردہ حدود میں قائم کریں کیونکہ ان شرپسندوں کی وجہ سے حالات خون ریزی کی طرف جا رہے ہیں۔
قبائلی مشر مولانا گل داد خان نے کہا کہ نواگئی کی زمین 641 سال سے ہمارے زیر استعمال ہے، صافی اور شینواری اقوام نے اگر کوئی آبادی بنائی ہے تو وہ زمینیں خرید کر بنائی ہے، وہ غلط کر رہے ہیں، زبردستی حدود کراس کریں گے تو ہم خاموش نہیں بیٹھے گے۔
ان کا کہنا تھا کہ مہمند قوم اگر چاہے تو ہم ان کی مرضی کے مطابق پختون روایات، شریعت اور عدالت تینوں میں سے جو ان کو پسند ہو فیصلہ کرنے کو تیار ہیں۔
اس موقع پر سابق صدر تاجر برادری مولانا خانزیب نے کہا کہ مہمند لیوی پوسٹ مہمند کی حدود میں موجود ہے لیکن انہوں نے اپنی حدود کراس کی ہیں اور باجوڑ کی حدود میں داخل ہوئے ہیں جس کی وجہ سے یہاں کی عوام تشویش میں مبتلا ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس کی وجہ سے ملک مشکل میں ہے، یہ ان باتوں کا وقت نہیں تھا لیکن یہ لوگ نفرت اور تعصب کو ہوا دے رہے ہیں، ضلعی انتظامیہ اس مسئلے کے پرامن حل میں کردار ادا کرے۔
اس سلسلے میں مہمند قبائل کی رائے جاننے کیلئے ان کے مشران کے ساتھ رابطے کی ار بار کوششیں کی گئیں تاہم رابطہ نہ ہو سکا۔
واضح رہے کہ دونوں اقوام کے درمیان مذکورہ حد بندی اور زمینی تنازعے پر ماضی میں بھی کئی قیمتی انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں، کیڈٹ کالج کی تعمیر، اس کے نام، اس میں طلباء کے کوٹے سمیت خالی آسامیوں پر بھی شدید اختلافات سامنے آئے تھے۔