ضم اضلاع، ہسپتالوں میں سپیشلسٹ کی 108 آسامیوں میں سے 80 خالی
خیبر پختونخوا حکومت نے ضم شدہ اضلاع کے 6 ہسپتالوں کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت آؤٹ سورس کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے لئے خیبر پختونخوا ہیلتھ فاونڈیشن نے باضابطہ آمادگی کے لیٹرز جاری کر دیئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق حکومت نے ایک بار پھر صوبے میں پی پی ایچ آئی طرز کے تجربے کو دوہرانے کی تیاری کرلی ہے, سابقہ تجربے کی ہی طرز پر ضم شدہ اضلاع کے 6 سپتالوں کے مالی و انتظامی امور منتخب تنظیموں کو دیئے جائیں گے تاکہ ان ہسپتالوں میں طبی سروسز کی صورتحال کو بہتر بنایا جاسکے۔
اس سلسلے میں معاہدے کیلئے 10 تنظیموں و فرمز نے اپلائی کیا تھا جن میں سے 9 نے ٹیکنیکلی کوالیفائی کیا تاہم فائنل بڈنگ میں 3 کو منتخب کیا گیا۔
ذرائع کے مطابق میڈیکل ایمرجنسی ریسیلنس فاؤنڈیشن (مرف) کو چار ہسپتال اور ٹرانس کونٹینیٹل نیشنل انٹیگریٹڈ ڈویلپمنٹ ایسوسی ایشن کو ایک ہسپتال آؤٹ سورس معاہدے کے تحت نگرانی میں دیا جائے گا، جنوبی وزیرستان میں مولا خان سرئی سروکئی اور ٹائپ ڈی ہسپتال طوئی خلہ کے علاوہ مہمند میں ٹائپ ڈی ہسپتال ڈوگر کرم، مامند گیٹ، ایف آر ڈی آئی خان میں ٹائپ ڈی ہسپتال درا زندہ اور اورکزئی میں ٹائپ ڈی ہسپتال گیلی جو شامل ہیں، ان ہسپتالوں کو 3 سالہ مدت کے لئے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ معاہدے کے تحت آؤٹ سورس کیا جائے گا۔
ان آؤٹ سورس کئے جانے والے اسپتالوں کے لئے حکومت نے 900ملین روپے کے فنڈز مختص کئے ہیں، ہر ہسپتال کو ایک سال میں 150 ملین روپے فنڈز فراہم کئے جائیں گے جبکہ معاہدہ کے حوالے سے بتایا جارہا ہے کہ یہ منتخب تنظیمیں حکومت کے مختص کردہ روٹین کے بجٹ کو استعمال کرسکیں گی اور مزید ضرورت کے تحت عملے کی بھرتی اور ہسپتالوں میں آنے والے مریضوں کو مفت علاج کی فراہمی کی پابند ہوں گیں۔ جبکہ محکمہ صحت نے سخت مانیٹرنگ و آڈٹ سسٹم بھی متعارف کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔
محکمہ صحت نے پی پی ایچ آئی کی طرز کے اس سابقہ تجربے کے حوالے سے جو موقف اپنایا ہے اس کے مطابق دہشت گردی سے متاثرہ ان اضلاع میں اس وقت طبی عملے کی شدید کمی کا سامنا ہے، ضم شدہ قبائلی اضلاع کے 979 ہیلتھ مراکز و ہسپتالوں میں 9 ہزار طبی عملہ تعینات ہے، تاہم ان میں 108 سپیشلسٹ کی آسامیوں میں 80 خالی ہیں۔
اسی طرح آدھی سے زائد وومن میڈیکل آفیسرز کی آسامیاں بھی تاحال خالی ہیں جس کی وجہ سے عام افراد کو طبی سروسز کے حوالے سے مشکلات کا سامنا ہے۔ اس صورتحال کے باعث ان ہسپتالوں کو آؤٹ سورس کیا جارہا ہے تاکہ مختلف اسپشلٹیز کے ڈاکٹرز و دیگر طبی عملہ موجود ہو اور ہسپتال بھی آباد ہوسکیں۔