قبائلی اضلاع میں اب تک ایک ہزار سے زائد ایف آئی آرز درج ہو چکی ہیں۔ آئی جی پی
انسپکٹر جنرل پولیس خیبر پختونخوا ثناء اللہ عباسی نے کہا ہے کہ ضم شدہ قبائلی اضلاع میں اب تک ایک ہزار سے زائد ایف آئی آرز درج ہو چکی ہیں, خاصہ دار اور لیویز پولیس میں ضم ہو چکے ہیں اور قانون کا نفاذ اور لوگوں کو گھر کی دہلیز پر انصاف کی فراہمی ہماری ترجیحات ہیں اور اس سلسلے میں کوئی کوتاہی اور غفلت برداشت نہیں کی جائے گی.
پولیس کلب مردان میں عمائدین علاقہ اور تاجر برادری کے نمائندوں سے خطاب اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ثناء اللہ عباسی نے کہا کہ خیبر پختونخوا پولیس نے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں بے مثال قربانیاں دیں، یہ ایک دلیر پولیس فورس ہے اور مجھے اس کی قیادت کرنے پر فخر ہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈی آرسیز کا نظام مغربی ممالک میں بھی چل رہا ہے، یہ نظام عوام کے لئے فائدہ مند ہے تاہم اس میں خواتین اور بچوں کے حقوق کے تحفظ کو بھی یقینی بنایا جائے اور ڈی آر سیز میں خواتین کو بھی نمائندگی دی جائے۔
اس موقع پر ڈی آئی جی مردان ریجن شیر اکبر خان , کمشنر مردان مطہر زیب, ڈپٹی کمشنر عابد وزیر , ڈی آئی جی سپیشل برانج اختر حیات گنڈاپور , ڈی پی او سجاد خان , ایس پی آپریشن مشتاق خان اور دیگر بھی موجود تھے جبکہ رجسٹرار ڈی آرسی احسان باچا, مرکزی تنظیم تاجران کے صوبائی جنرل سیکریٹری ظاہرشاہ اور ڈسٹرکٹ بار کے صدر آصف اقبال نے بھی خطاب کیا۔
آئی جی پی نے کہا کہ پولیس عدلیہ کے سامنے جوابدہ ہے، حتمی فیصلہ عدلیہ کا ہوگا اور ہم اس پر عملدرآمد کرانے کے پابند ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں پولیس چیف نے کہا کہ قبائلی علاقوں کی لیویز کو پولیس میں ضم کیا گیا ہے، ڈی پی اوز کی بھی تقرری کی گئی ہے اور ایف آئی آرز بھی درج کرائی جا رہی ہیں، اب تک بڑی مقدار میں منشیات برآمد اور ملزمان گرفتار کرائے جا چکے ہیں، دہشت گردی پر کافی حد تک قابو پالیا گیا ہے، اس کا خاتمہ بھی ہوجائے گا اور دیگر جرائم اور منشیات کا بھی خاتمہ ہوگا۔
صوبے میں پولیس کے شعبہ تفتیش کی کمزوری سے متعلق سوال پر پولیس چیف نے اعتراف کیا کہ شعبہ تفتیش میں کوتاہیاں ہیں لیکن انہیں دور کرنے کے لئے پولیس کی تربیت پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے اور صوبے میں فارنزک لیب کے قیام کے حوالے سے بھی حکومت سے بات ہو چکی ہے۔