ساحل آفریدی نہیں رہے مگر ان کی توانا آواز ہمیشہ ہمارے درمیان رہے گی
عثمان خان
قبائلی ضلع خیبر کی سرزمین ادب اور پشتو شاعری کی وجہ سے بہت مشہور ہے۔ یہی وہ دھرتی ہے جس نے بابائے غزل امیر حمزہ خان شنواری، مصری خان خاطر، ناظر آفریدی، خیبر آفریدی اور متعدد نامور شعرا پیدا کیے ہیں جو پشتو ادب میں اپنا الگ الگ مقام رکھتے ہیں۔
ان شعرا کے تسلسل میں ایک نام یارحسین ساحل آفریدی کا بھی ہے جو گزشتہ شب طویل علالت کے بعد 68 سال کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے ہیں۔ مرحوم کی نماز جنازہ آج لنڈی کوتل تحصیل کے خیبر مارکیٹ میں ادا کی گئی جس میں پشتو ادب سے تعلق رکھنے والے ادیبوں، شعراء، سیاسی شحصیات، قبائلي مشران اور انتظاميه کے ساتھ کثیر تعداد میں عوام نے شرکت کی۔
ٹی این این کیساتھ گفتگو میں پروفیسر ڈاکٹر اسلم تاثیر نے مرحوم ساحل آفریدی کی فنی خدمات او شاعری کے حوالے سے بتایا کے خیبر کے تاریخی درے نے ادب او شاعری کے میدان میں انمول ہیروز کو جنم دیا ہے اور ادب کے میدان میں خیبر اپنی جداگانہ حیثیت اور شناخت رکھتا ہے۔
ان کے بقول خاطر آفریدی اور حضرو آفریدی کے بعد ساحل آفریدی اعلی پائے کے شاعر تھے اور مرحوم پشتو غزل کے چند استادوں میں شمار ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر اسلم تاثیر نے یہ بھی بتایا کے ساحل آفریدی بہت توانا آواز تھے اور محروم مصیبت زدہ پشتونوں کیلئے ہمیشہ ایک آواز بن کر سامنے آئے اور اپنی شاعری کے راستے ان کے ترجمان بنے رہے۔
ساحل آفریدی صاحب کتاب شاعر تھے اور ان کے تین شعری مجموعے چھپ چکے ہیں جن میں ایک "ساحل چپی”، دوسرا "څار” اور تیسرا "ژڑوبے” شامل ہیں۔
مقامی ادبی تنظیموں کے مطابق ساحل آفریدی کا وافر مقدار میں شاعری کا مواد موجود ہے جو ابھی چھاپا جانا ہے۔
نامور شاعر یارحسین ساحل آفریدی غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور پیشے کے لحاظ سے ڈرائیور تھے۔ زیادہ وقت مرحوم نے لاہور اور کراچی میں گزارا۔ مرحوم کا تعلق آفریدی قبیلے کے سپاہ ذخہ خیل سے تھا۔
اسلامیہ کالج پشاور یونیورسٹی پشتو ڈیپارٹمنٹ کے چئیرمین پروفیسر اباسین یوسفزئی کے مطابق ساحل آفریدی انتہائی سادہ مزاج اور شیرین زبان شخصیت کے مالک تھے۔ ان کے رہن سہن میں سادگی تھی جو ان کی شاعری میں بھی جھلکتی ہے۔
ان کے بقول درہ خیبر کے شعرا کا اپنا ایک جداگانہ انداز اور طرز ہے جو ساحل آفریدی کی شخصیت اور شاعری میں بھی موجود تھی، اور یہ کہ مرحوم کی شاعری میں نرم مزاجی، دیہاتی رنگ اور عوامی لہجہ نمایاں ہے۔
ڈاکٹر اباسین یوسفزئی نے یہ بھی بتایا کے ساحل آفریدی نے ادبی تنظیموں کے بنانے میں بہت مثبت کردار ادا کیا ہے اور زندگی کی آخری سانسوں تک ادبی تنظیموں سے وابستہ رہے۔
مرحوم کی بہت سی غزلیں اور نظمیں پشتو کے نامور موسیقاروں نے ترتیب دیے ہیں جو صدا بہار ہیں۔
ساحل آفریدی کیساتھ ادبی محفلوں میں شرکت کرنے والے نوجوان شاعر عاطف پرھر کے مطابق ساحل آفریدی نے شاہکار نظمیں لکھی تھیں، ان کے مطابق انقلابی سوچ کے مالک تھے اور عدم تشدد کے پیروکار تھے۔ ہمیشہ اپنے شعر میں انہوں نے امن اور مساوات کا پیغام عام کیا اور یہی ان کا خاصہ تھا۔
آٹھویں جماعت تک اپنے آبائی علاقے میں تعلیم حاصل کرنے والے ساحل آفریدی نے اپنے پسماندگان میں تین بیٹے اور چھ بیٹیاں چھوڑی ہیں۔