قبائلی اضلاع

باپ کی جگہ مرکز میں ہے نہ خیبر پختونخوا کابینہ میں!

عثمان خان

خیبر پختونخوا کابینہ میں توسیع سے قبل یہ توقع ظاہر کی جا رہی تھی کہ اس میں بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کو ایک وزارت ضرور دی جائے گی تاہم جب کابینہ میں ایک رکن کا اضافہ کیا گیا تو باپ کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا تھا۔

کابینہ میں توسیع کے بعد اگر ایک طرف میٹرک پاس وزیر تعلیم اکبر ایوب خان الیکٹرانک و سوشل میڈیا پر گرما گرم بحث مباحثے کا موضوع بنے رہے تو دوسری جانب کابینہ میں خوواتین کو نمائندگی نہ دینے پر بھی تحریک انصاف کڑی تنقید کی زد میں ہے۔

علاوہ ازیں بلوچستان عوامی پارٹی میں باقاعدہ شمولیت اختیار کرنے والے قبائلی ضلع خیبر کے الحاج گروپ بارے بھی باتیں ہو رہی ہیں کہ خیبر پختونخوا اور مرکز میں مقتدر جماعت کے اتحادی ہونے کے باوجود انہیں کابینہ سے دور رکھا گیا ہے۔

کابینہ میں دوسری بار توسیع سے قبل پی ٹی آئی کے قبائلی ممبران سے وعدہ کیا گیا تھا کہ کابینہ میں انہیں نمائندگی دی جائے گی تاہم موجودہ وقت میں صرف ایک وزارت اور معاون خصوصی کے منصب پر ہی انہیں ٹرخایا گیا ہے جس پر قبائلی اضلاع کے پی ٹی آئی ورکرز ناراض دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ اس پورے عمل میں خیبر اور باجوڑ جیسے بڑے اضلاع کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا ہے۔

ایسے حالات میں سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کی جانب سے باپ کو کابینہ میں نمائندگی نہ دینے پر بھی بحث مباحچے جاری ہیں خصوصاً الحاج کاروان کے کارکنان کی جانب سے جہاں ناراضگی کا اظہار کیا جا رہا ہے وہیں مخالف جماعتوں کی جانب سے طنز و تنقید پر مبنی پوسٹس بھی سامنے آئی ہیں۔

توسیع سے قبل یہ چہ مگوئیاں اور قیاس آرائیاں زوروں پر تھیں کہ صوبائی کابینہ میں باپ کو نمائندگی ضرور دی جائے اور اس سلسلے میں وزارت کا ہما الحاج کاروان کے سربراہ اور سابق رکن قومی اسمبلی الاج شاہ جی گل کے صاحبزادے بلاول آفریدی کے سر بیٹھے گا تاہم باپ کا وزارت کا یہ خواب اس وقت چکنا چور ہوا جب کابینہ میں توسیع ہوئی لیکن اس کے آگے گھاس تک نہیں ڈالی گئی۔

واضح رہے کہ باپ مرکز اور خیبر پختونخوا میں حکمران جماعت تحریک انصاف کی اتحادی پارٹی ہے جس کے سربراہ جام کمال نے میڈیا پر مرکز و خیبر پختونخوا کابینہ میں نمائندگی نہ ملنے پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس سلسلے میں وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کریں گے۔

ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے جمرود سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی ساجد کوکی خیل کا کہنا تھا کہ ان کی اطلاعات کے مطابق رکن صوبائی اسمبلی بلاول آفریدی نے باپ کے سینئر رہنماؤں کے ہمراہ وزیراعظم سے ملاقات کی ہے تاہم مین سٹریم میڈیا پر اس حوالے سے کوئی خبر آئی نہ اس حوالے سے کہ اس ملاقات کا نتیجہ کیا نکلا ہے۔

اس حوالے سے صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی نے کہا ہے کہ باپ کے ساتھ اتحاد کرتے ہوئے پی ٹی آئی نے کسی طرح کا سمجھوتہ نہیں کیا تھا اور قبائلی اضلاع سے جن اراکین صوبائی اسمبلی نے اس جماعت میں شمولیت اختیار کی ہے یہ ان کا ذاتی فیصلہ ہے۔

وزیر اطلاعات کے مطابق خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کو سادہ اکچریت حاصل ہے اور اسے کسی کی حمایت کی ضرورت نہیں ہے، قبائلی اضلاع سے منتخب باپ کے اراکین صوبائی اسمبلی کو کسی بھی صورت حکومت میں شامل نہیں کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ باپ بلوچستان میں ہماری اتحادی جماعت ہے اور اب تک ان کی طرف سے خیبر پختونخوا حکومت کے ساتھ اس حوالے سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا ہے۔

شوکت یوسفزئی نے مزید کہا کہ قبائلی اضلاع میں انتخابات کے بعد اب کابینہ میں توسیع کی جائے گی، صوبائی حکومت نے ان انتخابات پر اثرانداز ہونے کی قطعاً کوئی کوشش نہیں کی ہے۔

ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں خیبر پختونخوا اسمبلی اور حکومت پر گہری نظر رکھنے والے لحاظ علی نے بتایا کہ باپ خیبر پختونخوا میں باقاعدہ شراکت اقتدار میں ہے نہ ہی اس کے اراکین اسمبلی میں حکومتی بنچوں پر بیٹھتے ہیں تو انہیں کیونکر کابینہ کا حصہ بنایا جا سکتا ہے، اس کی کوئی تک ہی نہیں بنتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ امکان ضرور رہتا ہے کہ مستقبل میں توسیع کے وقت باپ کو کوئی وزارت دی جائے کیونکہ یہ جماعت بلوچستان اور مرکز میں پی ٹی آئی کی اتحادی ہے اور اس سلے میں وہ حکمران جماعت پر دباؤ ڈال سکتی ہے۔

واضح رہے کہ اس وقت خیبر پختونخوا اسمبلی میں باپ کے پاس چار نشستیں ہیں جن میں بلاول آفریدی اور شفیق شیر قبائلی ضلع خیبر سے، مہمند سے عباس مومند اور ایک خاتون رکن اسمبلی بصیرت بی بی شامل ہیں۔

اس حوالے سے رکن صوبائی اسمبلی شفیق شیر نے ٹی این این کو بتایا کہ باپ کے سینئر رہنماؤں نے اس سلسلے میں وزیراعظم سے ملاقات کی ہے اور انہیں اپنے تحفظات سے آگاہ کیا ہے۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ اگلے چند روز میں باپ کو صوبائی کابینہ میں نمائندگی دے دی جائے گی۔

 

ٹی این این کی جانب سے اس سوال پر کہ اگر یہ وزارت انہیں ملتی ہے تو ان کی کیا سٹریٹجی ہو گی، رکن صوبائی اسمبلی نے کہا کہ پارٹی قیادت سے مشاورت کے ساتھ حکمت عملی ترتیب دی جائے گی اور کارکنان کے مفاد میں ہی کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button