‘اب اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ خاصہ دار خاصہ دار ہے یا پولیس’
سٹیزن جرنلسٹ محمد نواز اورکزئی
قبائلی اضلاع میں خاصہ دار اور لیویز فورس کے پولیس انضمام مسئلے نے ایک بار پھر سر اٹھایا ہے اور خاصہ دار فورس نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت ان سے کیے گئے وعدوں کو پورا کریں۔
اس سلسلے میں تحریک خاصہ دار و لیویز فورس کمیٹی کے چیئرمین سید جلال وزیر نے کہا ہے کہ سابقہ فاٹا میں روزنامچہ،ایف آئی آر،عدالتی کاروائی پر اس وقت تک پابندی ہوگی جب تک حکومت حقوق نہیں دیتے۔ ضلع خیبرتحصیل جمرود جرگہ حال میں خاصہ دار و لیویز فورس کا کمیٹی ممبران کا جرگہ منعقد ہوا۔
جرگہ میں صوبائی حکومت اور پولیس ڈپارٹمنٹ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا، کمیٹی ممبران نے خاصہ دار و لیویز فورس کے ساتھ کئے گئے وعدوں کو محض ڈرامہ اور جھوٹ پر مبنی قرار دیا۔
جرگے سے چیئرمین کمیٹی سید جلال وزیر نے دو ٹوک الفاظ میں یہ اعلان کیا کہ پیر سے کسی بھی تھانے کا ایس ایچ او روزنامچہ، ایف آئی آر اور عدالتی کاروائی اس وقت تک نہیں کرے گا جب تک کئے گئے وعدے پورے نہیں ہوتے۔
انہوں نے کہا کہ اب اس بات کی وضاحت ضروری ہے، کہ خاصہ دار ،خاصہ دار ہے یا پولیس جب کوئی اہلکار مرتا ہے خاصہ دار مرتا ہے یا پولیس؟ آگر خاصہ دار ہے تو شہید پیکچ خاصہ دار کے طرزپر ہوگا مگر بدقسمتی سے اس کے لئے بھی عدالت سے رجوع کرنا پڑتا ہے اور اگر پولیس ہوں تو شہید پیکچ پولیس اور پولیس کے تمام مراعات ہونگے۔
انہوں نے کہا کہ حقوق خاصہ دار و لیویز فورس تحریک اورکزئی سے شروع ہو گی اور ہر قبائلی ضلع میں آپنے حق کے لئے جلسے جلوس کرینگے اور تمام 28 ہزار خاصہ دار کو پولیس میں شامل ہونے تک تحریک جاری رہے گی۔
ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران سید جلال وزیر نے کہا کہ حکومت ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے اور ابھی تک ان کو پولیس میں ضم نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ 3 ماہ قبل ان کو 6 ہفتے کا وقت دیا گیا تھا کہ ان کے تحفظات دور کئے جائیں گے اور ان کے مطالبات مان لیے جائیں گے تاہم ابھی تک ان سے کئے گئے وعدوں کو عملی جامہ نہ پہنایا جاسکا۔
سید جلال وزیر نے یہ بھی کہا کہ گزشتہ روز سے روزنامچہ، ایف آئی آر اور عدالتی کاروائی سے بائیکاٹ جاری ہے اور اس سلسلے میں بدھ کے روز سے احتجاج بہ شروع ہوجائے گا، انہوں نے کہا کہ بدھ کے روز اورکزئی سے احتجاج شروع ہوگا جو وزیرستان پر ختم ہوگا۔
مطالبات کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ حکومت بغیر کسی تاخیرکے فورا ایک آرڈیننس جاری کرے جس میں واضح طور پر یہ لکھا ہونا چاہیئے کہ قبائلی اضلاع کے خاصہ دار اب کے پولیس کا حصہ ہے، جن افراد کو نکالا گیا ہے ان کو دوبارہ بحال کیا جائے اور حکومت نے نئے افراد کو بھرتی کرنے کا جو وعدہ کیا تھا اس کو پورا کریں۔
یہ بھی پڑھیں: خیبر پختونخواہ خاصہ دار فورس ایکٹ اور لیویز فورس ایکٹ 2019 میں خاص کیا ہے؟
خیال رہے کہ خیبرپختونخوا حکومت نے 8 اپریل 2019 کو قبائلی اضلاع میں خدمات انجام دینے والے لیویز اور خاصہ داراہلکاروں کوپولیس میں ضم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ وزیراعلی ہاؤس پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمودخان نے کہا تھا کہ تمام لیویز اور خاصہ دار اہلکار پولیس فورس میں ضم ہوگئے، ان کے تمام تحفظات دور کردیے ہیں، یہ 28 ہزار اہلکار ہیں جنہیں تربیت دینگے اور پولیس کی طرز پر ہی تمام رینکس، مراعات اور ترقیاں دی جائیں گی۔ صوبائی حکومت کا کہنا تھا کہ خاصہ دار اور لیویز فورس کا 6 ماہ کے اندر اندر پولیس میں مکمل انضمام کردیا جائے گا۔
بعد ازاں خیبر پختونخوا اسمبلی نے 12 ستمبر کو دو ایکٹس، خیبر پختونخواہ خاصہ دار فورس ایکٹ اور لیویز فورس ایکٹ 2019 کی منظوری دی جسے خاصہ دار اور لیویز فورس نے ماننے سے انکار کیا اور ایک بار پھر اس کے خلاف آواز اٹھانی شروع کی ہے۔
تحریک خاصہ دار و لیویز فورس کمیٹی کے چیئرمین سید جلال وزیر کے مطابق صوبائی حکومت نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ انکو پولیس فورس میں ضم کیا جائے گا اور پولیس فورس جیسی مراعات سے بھی نوازا جائے گا تاہم اب حکومت خیبرپختونخوا لیویز خاصہ دار ایکٹ 2019 کے ذریعے ان کو پولیس فورس کی بجائے لیویز میں ضم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جو انکو نامنظور ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ28 ہزار خاصہ دار و لیویز فورس کے حقوق کیلئے ہر حد تک جائینگے اور اگر حکومت ان پر 2019 ایکٹ لاگو کرتی ہیں تو وہ اس کے خلاف احتجاج کرینگے. انہوں نے یہ بھی کہا کہ ڈی پی او کے علاوہ کسی ایک پولیس آفیسر کی تعیناتی قبائلی اضلاع میں نہیں مانتے۔