کھیل

انڈر 14 چیمپئن لائبہ ظہیر مرد کھلاڑیوں کے ساتھ مشق کیوں کرتی ہیں؟

شاہین آفریدی

پشاور کی رہائشی 16 سالہ لائبہ ظہیر نے 4 سال کی عمر میں مارشل آرٹس کھیلنا شروع کیا تھا، وہ پاکستان کی سطح پر اس گیم میں خیبر پختونخوا کی سب سے کم عمر لڑکیوں (انڈر فورٹین) کی چیمپئن ہیں۔ لائبہ ظہیر نے 12 طلائی، 2 چاندی اور 3 کانسی کے تمغے جیتے ہیں، کہتی ہیں کہ مارشل آرٹ کے ذریعے وہ معاشرے کو لڑکیوں کے بارے میں ایک مثبت پیغام دے رہی ہیں۔

لائبہ ظہیر کا کہنا تھا کہ "میں نے بھی عزم کیا کہ مارشل آرٹس کے ذریعے میں لوگوں کو دکھا سکوں کہ خواتین بھی صلاحیتوں کی مالک ہو سکتی ہیں، وہ مضبوط ہیں اور میں نے کر کے دکھایا، مارشل آرٹس میرا شوق ہے اور اس کو ایک پیشے کے طور پر بھی اپناؤں گی۔”

گزشتہ دنوں ملک بھر سے کھیلوں کے میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے والے اور ایوارڈ یافتہ کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس تقریب میں کھلاڑیوں کے اہل خانہ نے بھی شرکت کی۔ اس موقع پر لائبہ کے والد ظہیر احمد کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا میں کھیلوں کے لیے سہولیات کا فقدان ہے اور باصلاحیت کھلاڑی اپنے کھیل میں آگے جانے سے محروم ہیں۔

ظہیر احمد نے بتایا کہ "کھیل میں صرف لڑکوں کیلئے سہولیات یا آسانی نامناسب ہے، لڑکیاں بھی ہر کھیل میں حصہ لینے کی برابر حقدار ہوتی ہیں، یہ بھی ہمارے معاشرے کا ایک اہم حصہ ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت خواتین کھلاڑیوں کو سہولیات فراہم کرے اور ان کو موٹیویٹ کرے تاکہ اس ملک و قوم کا نام روشن کر سکیں۔”

بہت سی خواتین کھلاڑیوں کو سہولیات کی کمی کے باعث مارشل آرٹس میں اپنا مستقبل نظر نہیں آتا، وہ مارشل آرٹس کو پیشے کے طور پر نہیں بلکہ اپنے دفاع کے لیے سیکھتی ہیں۔

17 سالہ رومیشہ کامران بھی ان خواتین کھلاڑیوں میں شامل ہیں جو کئی مشکلات اور کم سہولیات کے باوجود پرعزم ہیں کہ اسی پیشے میں اپنا مستقبل روشن کر سکیں۔ انہوں نے بتایا کہ اگر کسی خاتون کھلاڑی کو سپورٹ حاصل ہو، وہ پرعزم ہو تو مارشل آرٹس میں اپنا اور اس ملک کا نام روشن کر سکتی ہے، ”میں سمجھتی ہوں کہ مارشل آرٹس آج کل کے دور میں زندگی سے جڑی ایک لازمی جزو بن چکی ہے اور ہر لڑکی کو یہ ہنر آنا چاہیے، یہ ایک پسندیدہ مشغلہ ہے جس سے وہ ذہنی اور جسمانی طور پر فٹ رہ سکتی ہے۔”

خیبر پختونخوا میں خواتین کھلاڑیوں کو کئی پابندیوں کا سامنا ہے۔ ان کھلاڑیوں کا کہنا تھا کہ زیادہ تر خواتین کھلاڑیوں کے کھیلنے سے انکار کی ایک بڑی وجہ معاشرے کا دباؤ بھی ہے، دوسری بڑی وجہ ان کے پاس خواتین کوچز موجود نا ہونا ہے، اسی طرح خواتین کو تعلیم اور زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی کم دیکھا جاتا ہے۔

ان تمام تر مشکلات کو دیکھتے ہوئے لائبہ ظہیر لڑکیوں کی تعلیم اور کم عمری کی شادی کے خلاف بھی لڑتی ہیں، وہ بتاتی ہیں کہ جس عمر میں لڑکی کو تعلیم اور کھیل میں حصہ لینا چاہیے اس کی شادی کرا کے گھر کی ذمہ داریاں دی جاتی ہیں جس کو وہ سنبھالنے میں ناکام اور کئی مسائل کا شکار بھی ہوتی ہے۔

"ہم اکیسویں صدی اور جدید دور میں بھی کم عمری میں شادیاں کرنے کے پابند ہیں، ایک بچی دسویں جماعت میں پڑھ رہی ہوتی ہے جس کی شادی ہو جاتی ہے کیونکہ لوگوں کا نظریہ بنا ہوا ہے کہ لڑکی ہے اور دوسرے گھر میں جائے گی، کھیل کے میدان میں اگر دیکھا جائے تو ایک لڑکا کچھ بھی کرتا ہے جبکہ لڑکیوں کو پابندیوں سے گزرنا ہوتا ہے، میں سمجھتی ہوں کہ ہر جگہ خواتین کو اپنا مقام ملنا چاہئے تاکہ وہ بھی معاشرے کی ذمہ دار شہری بن سکیں”

لائبہ ظہیر کے مطابق جب وہ مارشل آرٹس کے میدان میں داخل ہوئیں تو اس وقت پشاور میں کوئی خاتون کھلاڑی یا کوچ موجود نہیں تھی۔ انہوں نے اس کھیل کو اس خیال سے فروغ دیا کہ خواتین بازاروں، تعلیمی اداروں اور کام کی جگہوں پر مردوں کا سامنا کر سکتی ہیں تو مارشل آرٹس کے میدان میں ان کا سامنا کیوں نہیں کر سکتیں اور اسی سوچ کے تحت، آج وہ مرد کھلاڑیوں کے ساتھ مارشل آرٹس کی مشق کرتی ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button