”مجھے کیوں نکالا؟” انڈر 19 سکواڈ سے ڈراپ کئے جانے والے جواد علی کا سوال
مصباح الدین اتمانی
”ماں کے ساتھ بیٹھا تھا جب میسج کے زریعے معلوم ہوا کہ میرا نام فائنل سکواڈ سے نکالا جا چکا ہے، وہ لمحہ میرے لئے کافی تکلیف دہ تھا، میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکلنے لگے، کیونکہ سلیکشن کے بعد بلاوجہ سکواڈ سے نکالنا سمجھ سے بالاتر تھا”، یہ کہنا تھا باجوڑ سے تعلق رکھنے والے 17 سالہ لفٹ آرم سپنر جواد علی کا جنہیں حال ہی میں تشکیل کردہ انڈر 19 سکواڈ سے ڈراپ کیا گیا ہے۔
جواد علی کا کہنا ہے کہ ہر سال تمام اضلاع سے انڈر 19 سکواڈ منتخب کیا جاتا ہے جو بعد میں ریجنل سطح پر کھیلتے ہیں، ”رواں سال جولائی کے مہینے میں پاکستان کرکٹ بورڈ کی طرف سے باجوڑ میں ٹرائلز کا اعلان کیا گیا اور باہر سے چار نمائندے بطور سلیکشن کمیٹی بھیجے گئے، میں بطور لفٹ آرم سپنر ٹرائلز میں شریک ہوا اور میری کارکردگی کافی بہتر رہی۔”
ٹی این این کے ساتھ خصوصی نشست کے دوران انہوں نے بتایا کہ ٹرائلز کے بعد جن 35 کھلاڑیوں کو منتخب کیا گیا ان میں میرا نام بھی شامل تھا، سلیکشن کمیٹی نے میرا نام میرے والد کا نام اور میرا رابطہ نمبر نوٹ کر لیا، منتخب کھلاڑیوں کی ویریفیکشن کے بعد تقریباً 29 کھلاڑیوں کو اوور ایج قرار دے کر نکال دیا گیا جن میں میرا نام شامل نہیں تھا۔”
جواد علی سال 2004 میں پیدا ہوئے، اس حساب سے ان کی عمر تقریباً 17 سال بنتی ہے جبکہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی طرف سے طے شدہ قوانین کے تحت انڈر 19 سکواڈ میں منتخب ہونے والے کھلاڑیوں کی عمر 19 سال سے کم ہونی چاہیے۔
لفٹ ارم سپنر جواد علی نے بتایا کہ جب انڈر 19 کیلئے باجوڑ سے حتمی 15 رکنی سکواڈ کا اعلان کیا گیا تو اس میں میرا نام شامل نہیں تھا، ”سکواڈ سے نکالے جانے کی خبر میسج کے زریعے ملی اور اس وقت میں اپنے ماں کے پاس بیٹھا تھا، وہ لمحہ میرے لئے کافی تکلیف دہ تھا اور کوشش کے باوجود میرے لئے اپنے جذبات پر قابو پانا مشکل تھا، والدہ نے وجہ پوچھی تو میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا اور میں اٹھ کر وہاں سے چلا گیا۔”
جواد علی نے بتایا کہ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ مجھے فائنل سکواڈ سے کیوں نکالا ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں اوور ایج نہیں تھا نہ عمر کی بنیاد پر جن کھلاڑیوں کو نکالا گیا تھا ان میں میرا نام شامل تھا، ابتدائی ٹرائلز میں سلیکشن کے بعد آگے کوئی عمل نہیں ہوا تھا تو مجھے نکالنے کا سوال ہی نہیں بنتا، جبکہ سکواڈ میں 3 کھلاڑیوں کو دیگر اضلاع سے شامل کیا گیا ہے۔
جواد علی کہتے ہیں کہ میں کافی پرجوش تھا اور روزانہ سات سے نو گھنٹے تک پریکٹس کرتا تھا اور مجھے یقین تھا کہ میں ریجنل لیول پر بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کروں گا لیکن ناقص طریقہ کار کی وجہ سے مجھے اس موقع سے محروم کیا گیا، ”کرکٹ ایک گیم ہے آگے جانے یا نہ جانے کا دارومدار سخت محنت اور قسمت پر ہوتا ہے لیکن میں صرف اس وجہ سے پرشان ہوں کہ میرا نام کس وجہ سے نکالا ہے۔”
جواد نے بتایا کہ اس طریقے کار سے مایوسی ہوئی لیکن میں ہمت نہیں ہاروں گا، جو کھلاڑی سکواڈ میں شامل ہیں ان کی کامیابی کیلئے دعاگو ہوں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے اعلی حکام سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ حقیقی ٹیلنٹ کو سامنے لانے کیلئے موثر اقدامات اٹھائیں اور ہونے والی بے ضابطگیوں کی تحقیقات کریں۔
سلیکشن کا طریقہ کار
سلیکشن کیلئے چار رکنی کمیٹی بنائی گئی جو پاکستان کرکٹ بورڈ کے زیر نگرانی کام کرتی ہے، کمیٹی ممبران شیڈول کے مطابق مختلف اضلاع کے دورے کرتے ہیں، اور جن کھلاڑیوں کی سلیکشن ہوتی ہے ان کے ٹیسٹ ہوتے ہیں۔ جو زیادہ عمر کے کھلاڑی ہوتے ہیں ان کو ڈراپ کر دیا جاتا ہے جب کہ باقی کھلاڑیوں کی 15 رکنی سکواڈ بنائی جاتی ہے۔
اس حوالے سے جب ہم نے باجوڑ سپورٹس بورڈ کے سربراہ اقبال حسین سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ ماضی میں ضلعی سطح پر ایسوسی ایشنز ہوتی تھیں اور وہ یہ سارا عمل انجام دیتیں لیکن ان کو وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر ختم کیا گیا اور اس کی جگہ کمیٹیاں بنائی گئیں جن کے پاس کوئی اختیارات نہیں۔
انہوں نے کہا کہ سلیکشن کے عمل میں خامیاں موجود ہیں اور ہم کوشش کر رہے ہیں کہ کھلاڑیوں کے تحفظات دور کریں لیکن حل کیلئے کوئی تیار نہیں کیوں کہ جو کمیٹیاں بنائی گئی ہیں ان کے پاس اختیارت نہیں ہے۔
اقبال حسین کے مطابق کورونا وباء کی وجہ سے بھی مسائل پیدا ہوئے، پہلے جن کھلاڑیوں کے تحفظات ہوتے تھے ان کو بلایا جاتا تھا لیکن اس بار ایسا نہیں کیا گیا، لاک ڈاون اور پابندیوں کی وجہ سے زیادہ تر وقت ضائع ہوا جس کے بعد کمیٹی کو ٹاسک دیا گیا کہ تمام اضلاع سے ٹیم تیار کرے، وقت کم اور کمیٹی پر دباؤ زیادہ تھا، جس کی وجہ سے یہ حالات بنے۔
ٹی این این نے اس حوالے سے جب خیبر پختون خواہ کرکٹ ایسوسی ایشن کے چیئرمین اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے نمائندہ انوار زیب جان سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا ان کھلاڑیوں کو عمر کی بنیاد پر باہر کیا گیا ہے، ان کے ٹیسٹ شوکت خانم ہسپتال لاہور جاتے ہیں، وہاں سپیشلسٹ ڈاکٹر ان کی کنفرمیشن کیلئے بیٹھا ہوتا ہے۔
باجوڑ سکواڈ میں موجود غیر مقامی کھلاڑیوں کے حوالے سے انوار زیب جان نے بتایا کہ باجوڑ میں انڈر 19 کھلاڑیوں کی تعداد بہت کم تھی جس کی وجہ سے فیصلہ کیا گیا کہ جس ایسوسی ایشن کے ساتھ کھلاڑیوں کی تعداد زیادہ ہے وہ باجوڑ کی طرف سے کھیلیں گی تاکہ زیادہ سے زیادہ کھلاڑیوں کو موقع ملے۔
کھلاڑیوں کے تحفظ کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ پی سی بی نے اپیل کیلئے وقت دیا تھا کہ جن کھلاڑیوں کو تحفظات ہیں وہ مقررہ تاریخ تک اپیل کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ناکامی کے بعد سب کھلاڑی کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ زیادتی ہوئی لیکن حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے، ”زیادہ تر کھلاڑی ہم سے شکایت کرتے ہیں لیکن سلیکشن کے ساتھ ہمارا کوئی تعلق نہیں، پاکستان کرکٹ بورڈ نے جو سلیکشن کمیٹی بنائی تھی اس میں مجھے آن بورڈ نہیں لیا گیا تھا اور مکمل طور پر خودمختار تھی۔”