چارسدہ میں تحصیل چیئرمین مخصوص سیاسی پارٹی کیلئے انتخابی مہم چلا رہے ہیں
رفاقت اللہ رزڑوال
چارسدہ میں الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ جاری کردہ ضابطہ اخلاق اور الیکشن ایکٹ کے قانون 2017 کے خلاف ورزی کرنے والے امیدواروں کے خلاف تادیبی کاروائی کی جائے گی۔
بدھ کے روز چارسدہ کے تحصیل چئرمین مفتی عبدالرؤف شاکر نے جمعیت علمائے اسلام کے ایک جلسہ میں عوام سے ووٹ مانگنے کیلئے خطاب کیا تھا۔
مفتی عبدالرؤف شاکر بلدیاتی انتخابات میں جمعیت علمائے اسلام کے کتاب کے نشان سے چارسدہ تحصیل کے مئیر منتخب ہوئے تھے اور اب بھی تحصیل چئرمین کی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔
جلسے کے دوران مفتی عبدالرؤف شاکر نے کہا "جمعیت علمائے اسلام ایک بے داغ ماضی رکھنے والی پارٹی ہے اور ان پر کوئی بھی بدعنوانی یا خیانت ثابت نہیں کرسکتا۔ میرے اکابرین کے دل میں مخلوق کا خوف نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا خوف ہے”۔
مفتی عبدالرؤف نے خطاب کے دوران بتایا ” اس بار بھی جمیعت علمائے اسلام نے اپنے امیدوار میں کھڑے کئے ہیں، ہماری آپ سے اپیل ہے کہ انہیں امیدواروں کو ہم سب بھرپور انداز میں کامیاب کریں گے”۔
ضلع چارسدہ میں دو قومی اسمبلی حلقہ این اے 24 اور 25 اور پانچ صوبائی اسمبلی حلقہ پی کے 62، 63، 63، 65 اور 66 ہے جن پر مختلف سیاسی پارٹیوں نے امیدوار کھڑے کئے ہیں۔
ضلع چارسدہ میں عوامی نیشنل پارٹی، جمیعت علمائے اسلام، تحریک انصاف کے حمایتی آزاد اور چند حلقوں پر جماعت اسلامی کے امیدواروں کے درمیان کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے۔
چارسدہ میں الیکشن کمیشن کی جانب سے نگرانی کرنے والے دسٹرکٹ مانیٹرنگ افسر (ڈٰی ایم او) شیر رحمان نے ٹی این این کو بتایا نے کہ الیکشن کمیشن نے جنرل الیکشن 2024 کیلئے ضابطہ اخلاق جاری کیا ہے کہ کوئی بھی سرکاری ملازم یا منتخب نمائندہ الیکشن مہم میں حصہ نہیں لے سکتا بصورت دیگر ان کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی۔
جاری کردہ ضابطہ اخلاق 2024 کے شق 18 کے مطابق صدر، وزیراعظم، چئرمین سینیٹ، ڈپٹی چئرمین کسی بھی اسمبلی کا اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر، وفاقی وزراء، وزرائے مملکت، گورنر، وزرائے اعلیٰ، صوبائی وزراء اور وزیراعظم و وزرائے اعلیٰ کے مشیران، مئیر، چئرمین، ناظم اور انکے نائب کسی بھی حلقہ انتخاب کی انتخابی مہم میں حصہ نہیں لینگے۔
ڈی ایم او شیر رحمان نے بتایا ” اب تک ہمیں کسی سرکاری ملازم یا منتخب نمائندے کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملا اگر ملے تو ہم انہیں شوکاز نوٹس دینگے اور معقول جواب نہ دینے پر 50 ہزار روپے جرمانہ لگائیں گے”۔
تاہم تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ الیکشن میں فتح کے حصول کیلئے سیاسی جماعتیں ہر قسم کی کوششیں کرتی ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کو بالائے طاق رکھ کر الیکشن مہم کامیاب بنائیں مگر الیکشن کمیشن کی کاروائیاں غیر موثر نظر آ رہی ہے۔
چارسدہ پریس کلب کے صدر و سنیئر صحافی سبزعلی خان ترین نے کہا کہ سرکاری ملازمین اور منتخب کرسیوں پر براجمان شخصیات کا کسی سیاسی جماعت کیلئے مہم چلانا مخالف جماعتوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔
سبزعلی خان کہتے ہیں "یہ شخصیات سرکاری کرسیوں پر عوام کیلئے بیٹھے ہوتے ہیں اور ان کا عوام کے مسائل سے براہ راست تعلق ہوتا ہے۔ عوام اپنے مسائل کے حل کیلئے ان کے پاس آتے ہیں جس کی وجہ سے عوام مجبوری کی حالت میں سرکاری یا منتخب نمائندگان کے بات سے انحراف نہیں کرسکتے جو ووٹر کی آزادی پر اثرانداز ہونے کے مترادف عمل ہے”۔
انہوں نے بتایا کہ ووٹ دینا ہر سرکاری اور منتخب نمائندے کا بنیادی حق ہوتا ہے مگر الیکشن کمیشن کے قوانین اور ہدایات کے مطابق انہیں ہر گز اجازت نہیں کہ وہ حمایت یافتہ جماعت کیلئے کسی سے ووٹ مانگے یا الیکشن مہم چلائیں۔
سبزعلی نے الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر بتایا کہ موجودہ حالات میں الیکشن کمیشن کا موثر کردار نظر نہیں آ رہا ہے گو کہ ان کے ساتھ کافی اختیارات ہیں مگر سمجھ نہیں آتی ہے کہ وہ اختیار وہ کس وجہ سے استعمال نہیں کرتے۔
انہوں نے سوال اُٹھایا کہ ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کی کارکردگی اچھی ہے، چارسدہ میں مجوزہ سائز سے بڑے فینافلیکس اور بل بورڈز کے خلاف تب کاروائی ہوئی جب ان کو درجنوں شکایات موصول ہوئے حالانکہ یہ کاروائی تب ہونی چاہئے تھی جب نصب کئے گئے تھے۔
ترین نے آزاد اور شفاف الیکشن کے انعقاد پر زور دیتے ہوئے بتایا کہ اگر الیکشن کمیشن نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیوں کے خلاف بھرپور کردار ادا نہ کیا تو شفاف انتخابات پر سوال اُٹھے گا اسلئے کمیشن کے حکام کیلئے ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن کی ہدایات پر عمل درآمد کراوئیں۔