سیاست

کیا آنے والے انتخابات میں نوجوان ووٹ کاسٹ کریں گے؟

 

حدیبیہ افتخار

پاکستان میں اس وقت آنے والے انتخابات کے حوالے سے چہ مگوئیاں ہورہی ہے۔ سیاسی پارٹیاں بھی سر جوڑ کر بیٹھ گئی ہے تاہم امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ انتخابات میں تاخیر ہوجائے کیونکہ الیکشن کمیشن نئی حلقہ بندیوں میں مصروف ہیں۔ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ عام انتخابات 90 دن میں نہیں ہو سکتے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 20 ملین تک پہنچ گئی ہے جبکہ 2018 الیکشن کے وقت ملک میں کل رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 14 ملین تھی نئی مردم شماری کے مطابق اب اس میں 6 ملین کا اضافہ ہوا ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پاکستان کی کل آبادی کا 63 فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے اور اسی طرح الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے شائع کی گئی رپورٹ کے مطابق 2023 کی مردم شماری میں 55.7 ملین نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جس سیاسی پارٹی نے نوجوانوں کا ووٹ کیش کیا اقتدار اسی کو ملنے کا چانس زیادہ ہوگا۔

اگر دیکھا جائے تو آجکل کے سیاسی امور میں نوجوان بھرپور حصہ لیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں سوشل میڈیا پر بھی نوجوان کافی سرگرم ہے اور ملکی سیاسی حالات پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں۔

پاکستان میں آنے والے الیکشن میں نوجوان کس حد تک دلچسپی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور سیاسی نظام میں کیا تبدیلی چاہتے ہیں اس حوالے سے نوشہرہ سے تعلق رکھنے والی ندا نے بتایا کہ انکا اسی سال شناختی کارڈ بنا ہے جس کے ساتھ انکا ووٹ بھی رجسٹرڈ ہوگیا ہے اب انکو الیکشن کا انتظار ہے تاکہ جلدی سے پہلا ووٹ کاسٹ کرسکیں۔

ندا کا کہنا ہے کہ وہ کافی خوش ہے پہلے وہ اپنے گھر کی خواتین کے ساتھ پولنگ اسٹیشن جاتی تھی لیکن ووٹ کاسٹ کرنے والی جگہ پر انکو نہیں چھوڑا جاتا تھا وہاں صرف ووٹ کاسٹ کرنے والے ووٹرز کو اجازت ہوتی تھی۔ میں دیکھنا چاہتی تھی کہ ووٹ کیسے کاسٹ کیا جاتا ہے لیکن اب میرا ووٹ رجسٹرڈ ہوگیا ہے اور اب الیکشن میں میں خود ووٹ کاسٹ کروں گی اور اپنے پسندیدہ پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دونگی اب انتظار ہے کہ جلدی الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہوجائے۔

مردان سے تعلق رکھنے والے سلوی کی عمر اٹھارہ سال ہے۔ قومی شناختی کارڈ بن جانے کے بعد اب ان کا بھی اب ووٹ رجسٹرڈ ہوگیا ہے لیکن سلوی کو انتخابات میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اور اس کی وجہ سیاسی جماعتوں کے کھوکھلے نعرے ہیں۔ سلوی کا کہنا ہے کہ جس بھی سیاست دان کو سنے تو وہ عوام کے حق میں بولتے تھکتے نہیں مگر عملی طور پر وہ عوام کے لئے کچھ نہیں کرتے ان کو صرف اسمبلی تک پہنچنے کی دیر ہوتی ہے۔۔

سلوی مزید بتاتی ہیں کہ انہیں کوفت ہوتی ہے اس وقت جب الیکشن ہونے کے قریب ہو اور سیاستدان ووٹ حاصل کرنے کے لئے اپ کے ترلے منتیں کرتے ہیں مگر جب الیکشن ہو جائے تو یوں لگتا ہے جیسے رات گئی بات گئی۔

الیکشن ہونگے کب؟؟؟ یہ بھی تو ایک اہم مسئلہ ہے۔ یاد رہے آئین کے آرٹیکل (1)224 کے تحت اگر اسمبلیاں اپنی پانچ سال کی مدت جو کہ آرٹیکل 52 میں درج ہے پوری کریں تو اس کے بعد اگلے 60 دن میں الیکشن کروانے لازمی ہیں لیکن اگر اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرنے سے قبل تحلیل کی جائیں اس کے بعد 90 دن میں الیکشن لازمی ہوتا ہے۔

نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے علشبہ شالالے بھی آنے والے الیکشن میں پہلی بار اپنا ووٹ کاسٹ کرے گی۔ پہلا ووٹ کاسٹ کرنے کے لئے علشبہ بھی کافی پرجوش ہے اور ان کا بھی یہ کہنا ہے کہ جس پارٹی کو وہ دیگی انھوں نے پہلے سے فیصلہ بھی کرلیا ہے۔

19 سالہ علشبہ بی ایس لاء کی سٹوڈنٹ ہے۔ وہ بتاتی ہے کہ پاکستان میں جب بھی الیکشن ہوتے ہیں تو سیاسی پارٹیاں اپنے الیکشن منشور میں عوام کو سنہرے خواب دکھاتی ہے لیکن جب ان کو اقتدار مل جاتا ہے تو پھر عوام کا پوچھتے تک نہیں, پھر خود پانچ سال مزے کرتے ہیں اور عوام پر صرف مہنگائی کے بم گراتے ہیں۔ علشبہ کہتی ہے کہ انھوں نے فیصلہ کیا ہے کہ پہلا ووٹ اپنے پسندیدہ لیڈر کو دے گی۔

20 سالہ بریرہ اشفاق بھی آنے والے انتخابات میں اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کے لئے بے تاب ہے لیکن کچھ وجوہات کی بنا پر ابھی تک ان کا آئی ڈی کارڈ نہیں بنا۔ وہ کوشش کر رہی ہے کہ شناختی کارڈ بن جائے لیکن وہ افسردہ بھی ہے کہ اب ان کا ووٹ رجسٹرڈ ہوگا بھی کہ نہیں۔ ان کہنا ہے کہ آنے والے الیکشن سے قبل ووٹ کی رجسٹریشن کے لیے کوشاں رہے گی تاکہ وہ بھی آئندہ الیکشن میں ووٹ کاسٹ کرسکے۔۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button