خیبرپختونخوا اور پنجاب میں انتخابات التوا کیس کا فیصلہ محفوظ، کل سنایا جائے گا
چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا (کے پی) میں الیکشن کے التوا سے متعلق کیس کی سماعت مکمل کر کے فیصلہ محفوظ کرلیا ہے جسے کل سنایا جائے گا۔
سماعت کے آغاز سے قبل اٹارنی جنرل پاکستان کی جانب سے متفرق درخواست سپریم کورٹ میں دائر کردی گئی۔
اٹارنی جنرل کی جانب سے دائر درخواست میں استدعا کی گئی کہ چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ مقدمہ نہ سنے۔
اٹارنی جنرل کی 7 صفحات پر مشتمل متفرق درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ الیکشن ازخودنوٹس کیس نہ سننے والےججزپر مشتمل عدالتی بینچ بنایا جائے۔
آج سماعت شروع ہوئی توپاکستان پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک روسٹرم پر آگئے اور استدعا کی کہ میں کچھ کہنا چاہتے ہوں۔ جس پر بینچ نے ان سے عدالتی کاروائی سے بائیکاٹ کے حوالے سے استفسار کیا جس پرفاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کو بینچ پر تحفظات ہیں، بائیکاٹ نہیں کیا۔ ان کہنا تھا کہ سیاسی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ اس پر لارجر بینچ بننا چاہیے
وکیل ن لیگ اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ نہیں کیا گیا، ہم نے وکالت نامے واپس نہیں لیے،ہمیں بینچ پر تحفظات ہیں، وکیلوں کا عدالت آنا ہی اعتماد ظاہر کرتا ہے۔
فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ بینچ کے دائرہ اختیار پر بھی تحفظات ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نےکہا کہ اٹارنی جنرل کو سن لیتے ہیں، سیاسی جماعتوں نے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ نہیں کیا تو تحریری طور پر بتائیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ یکم مارچ کا فیصلہ چار تین کے تناسب سے ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اس نکتے پر پہلے بات کرچکے ہیں۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے پاس اختیار ہے کہ وہ انتخابات کی تاریخ آگے بڑھا سکتا ہے، حکومت آئین کے مطابق چلتی ہے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیےکہ سنجیدہ اٹارنی جنرل سے اسی بات کی توقع ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ فیصلہ سناچکی تھی، سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن کیسے تاریخ آگے بڑھاسکتا ہے؟ سپریم کورٹ کا حکم ایگزیکٹو سمیت سب اداروں پر لاگو ہوتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ یکم مارچ کا فیصلہ بھی سپریم کورٹ کا ہی تھا، 9 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا جس میں سے4 ججز نے درخواستیں مستردکیں، 4 ججز نے تفصیلی فیصلے جاری کر دیے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس یحیٰی آفریدی نے درخواستوں کو مستردکیا، جسٹس اطہرمن اللہ نے درخواستوں کو مسترد نہیں کیا، اس پر اٹارنی جنرل نےکہا کہ جسٹس اطہر من اللہ نے جسٹس یحیٰی آفریدی کے فیصلے سے اتفاق کیا تھا، 9رکنی لارجربینچ نے 2 دن کیس کی سماعت کی تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ججز نے27 فروری کے آرڈر میں بینچ کی تشکیل کے لیے معاملہ مجھے بھجوایا، ہمیں کوئی فیصلہ بتائیں جس میں چیف جسٹس کو نیا بینچ بنانے سے روکا گیا ہو؟ اس پر اٹارنی جنرل نےکہا کہ پشاورکا کیس ہے جس میں چیف جسٹس کو مرضی کے بینچ سے روکا گیا۔ چیف جسٹس نےکہا کہ پشاورکیس کا حکم آرڈر آف دی کورٹ نہیں ہے۔
اٹارنی جنرل نےکہا کہ یکم مارچ کا آرڈر آف دی کورٹ اب تک جاری نہیں ہوا، چیف جسٹس نے کہا کہ کون سا قانون یا ضابطہ عدالت کو آرڈر آف دی کورٹ جاری کرنےکا پابند کرتا ہے؟ کیاآپ 4 ججز کے فیصلے کو ہی جوڈیشل آرڈر تسلیم کرتے ہیں؟ اگر 4 ججزکا فیصلہ ہی تسلیم کرلیں تب بھی بینچ تشکیل دینےکا اختیار کیاچیف جسٹس کے سوا کسی کو ہے؟
اٹارنی جنرل نےکہا کہ یکم مارچ کو کوئی عدالتی حکم موجود نہیں تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ 5 رکنی بینچ کبھی بنا ہی نہیں تھا؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ فیصلے میں عدالت نے پنجاب کے لیے صدر اور کے پی کے لیےگورنر کو تاریخ دینے کا کہا تھا، گورنر کے پی نے درخواستیں دائر ہونے تک کوئی تاریخ نہیں دی تھی۔
چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ قانون کسی کو الیکشن ملتوی کرنےکا اختیار نہیں دیتا، عدالت ہی الیکشن کی تاریخ آگے بڑھا سکتی ہے، 1988 میں بھی عدالت کے حکم پر انتخابات آگے بڑھائےگئے تھے، عدالت زمینی حقائق کا جائزہ لےکر حکم جاری کرتی ہے، جس حکم نامے کا ذکر کر رہے ہیں اس پر عمل ہوچکا۔
جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ اصل معاملہ الیکشن کمیشن کے حکم نامےکا ہے، عدالتی حکم الیکشن کمیشن پر لازم تھا، الیکشن کمیشن کا حکم برقرار رہا توباقی استدعا ختم ہوجائیں گی۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا کہ پہلے راؤنڈ میں 9 رکنی بینچ نے مقدمہ سنا تھا، 21 فروری کو سماعت کا حکم نامہ آیا، دو ججز کے اختلافات کی تفصیلات سامنے آچکی ہیں، دو ججز نے پہلے دن درخواستیں خارج کردی تھیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی کاروائی عوامی مفاد کے لیے ہوتی ہے، ججز کی رائے الگ ہوتی رہتی ہے، سپریم کورٹ میں ہمارے مختلف خیالات ہوتے ہیں لیکن مشاورت بھی ہوتی ہے، ہماری بینچ سے الگ بھی آپس میں بات چیت ہوتی ہے، اس سے متعلق جواد ایس خواجہ نے اپنی یادداشتیں بھی لکھی ہیں، اس دوران الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر اپنی نشست سے کھڑے ہوکر بول پڑے اور کہا کہ آپ اسے مت کوٹ کریں، وہ جھوٹ ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہمارا خیال ہے اکثریتی ججز از خود نوٹس مسترد کرچکے ہیں۔ چیف جسٹس نےکہا کہ آپ پانچ رکنی بینچ کا حکم نظر انداز کر رہے ہیں جنہوں نے چیف جسٹس کوبینچ بنانےکا اختیار دیا تھا، اس بینچ میں چار ججز نے خود کو الگ کیا، بینچ دوبارہ تشکیل دیا اس لیے انہیں شامل نہیں کیا، دو ججز نے بھی الگ سے آرڈر جاری کیا، تمام ججز اتفاق کرتے ہیں کہ چیف جسٹس کو بینچ بنانے کا اختیار ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نےکہا کہ چیف جسٹس نے جو اختیار استعمال کیا وہ انتظامی نہیں عدالتی ہے، مقدمےکی سماعت میرٹ پرکی گئی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا تھا چیف جسٹس چاہیں تو مجھے بینچ میں دوبارہ شامل کرسکتے ہیں، اس پر جسٹس منیب نے کہا کہ جب جج نے کہہ دیا چیف جسٹس کی مرضی ہے بینچ میں رکھے یا نہیں تو بات ختم، کسی کیس میں ایسا ہوا کہ ایک دن جج درخواست مسترد کرے اگلے دن اسی بینچ میں بیٹھ جائے؟
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ججزکی آپس میں ہم آہنگی سپریم کورٹ کے لیے بہت اہم ہے، ججز کے بہت سے آپسی معاملات ہوتے ہیں، عدالتی کاروائی پبلک ہوتی ہے لیکن ججز کی مشاورت نہیں، تفصیلی اختلافی نوٹ میں بینچ کے ازسرنو تشکیل کا نکتہ شامل نہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ نوٹ کے مطابق بینچ کی ازسرنو تشکیل انتظامی اقدام تھا، نوٹ کے مطابق جسٹس اعجازالاحسن اورجسٹس مظاہر نقوی نے سماعت سے معذرت کی۔
چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ نوٹ کے مطابق چارججز نے خود کو بینچ سے الگ کیا، 9 رکنی بینچ کے فیصلے میں کہیں نہیں لکھا کہ کون رضاکارانہ الگ ہو رہا ہے،دو ججز کی رائے کے بعد نیا بینچ بنا اور ازسرنو سماعت ہوئی، بینچ ارکان نے بھی سماعت میں دونوں ججزکے رکن ہونےکا نکتہ نہیں اٹھایا۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ چار آراء کے مطابق درخواستیں خارج ہوئی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فٹ نوٹ میں بھی لکھا ہے کہ دوججزکی آراء ریکارڈ کا حصہ ہیں فیصلےکا نہیں، ریکارڈ میں تو متفرق درخواستیں اور حکم نامے بھی شامل ہوئے ہیں، ابھی تک آپ ہمیں اس نکتے پر قائل نہیں کرسکے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ والا حکم واضح نہیں۔
اٹارنی جنرل نےکہا کہ سپریم کورٹ کے کسی بھی بینچ کا حکم سب پرلاگو ہوتا ہے۔ جسٹس منیب نے کہا کہ آپ موجودہ کیس کی بات کریں اس کیس میں ایسی کوئی درخواست نہیں ہے، دو ججزنے فیصلہ دیا، آپ اس کو جس طرح پڑھنا چاہیں پڑھیں۔
چیف جسٹس نےکہا کہ آپ جوکہہ رہے ہیں وہ مفروضوں پر مبنی ہے، بہت اہم معاملات پر ازخود نوٹس لیا جاتا ہے، بینچ کے تناسب والے معاملے پر آپ کا نکتہ سمجھ گئے، امید ہے آپ بھی ہمارا نکتہ سمجھ گئے ہوں گے، دو سابق اسپیکر صوبائی اسمبلی نے درخواستیں دائرکی تھیں، دو صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل ہوچکی ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں آج فل کورٹ بنانے کی درخواست لےکر آیا ہوں، میڈیا نے رپورٹ کیا کہ آپ نے فل کورٹ مسترد کر دی، آپ کے حکم نامے میں ایسی بات نہیں تھی۔
جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ مقدمہ ملتوی کرنا چاہتے ہیں؟ ایک طرف آپ فل کورٹ کا کہہ رہے ہیں اور دوسری طرف التوا کا۔
چیف جسٹس نےکہا کہ آپ اپنی دلیل قیاس آرائی پر قائم کر رہے ہیں، یہ عدالت ازخود نوٹس پر بہت احتیاط کرتی ہے، اب تک اس عدالت نے از خود نوٹس پر بہت احتیاط کی بھی ہے، از خود نوٹس میں کیا پتا ہوتا ہے کہ دوسرا فریق آئےگا یا نہیں، اسپیکرز کی درخواست کے علاوہ دو ججز نے از خود نوٹس لینے کی درخواست کی، آپ چیزوں کو خود سے پالش کرکے پیش کر رہے ہیں، رولز کی بات ٹھیک ہے مگر لوگوں کے اہم معاملات چھوڑ نہیں سکتے، سپریم کورٹ اپنے اختیارات کا استعمال کرتی ہے۔
اٹارنی جنرل منصورعثمان نے استدعا کی کہ اس کیس کی سماعت مؤخر کردی جائے۔ اس پر جسٹس منیب نے کہا کہ آپ اپنا ذہن بنالیں کہ عدالت سے چاہتے کیا ہیں؟ آپ ایک طرف فل کورٹ کی بات دوسری طرف کیس مؤخرکرنےکا کہہ رہے ہیں۔
اٹارنی جنرل نےکہا کہ میری دانست اور میڈیا رپورٹس کے مطابق فل کورٹ کی استدعا مسترد ہوچکی، پہلی سماعت اورپھر جمعےکو بھی فل کورٹ کی استدعا کی مگرمانی نہیں گئی، فل کورٹ مسترد کرنےکا معاملہ حکم نامے میں بھی نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے کہا تھا فل کورٹ کو بعد میں دیکھ لیں گے استدعا مسترد نہیں کی، سرکلر سے کسی فیصلے کو واپس نہیں لیا گیا، جسٹس فائز عیسیٰ کے فیصلے میں انتظامی ہدایات دی گئی تھیں، 184/3 کے مقدمات کی سماعت روکنے کے معاملے پر سرکلر آیا تھا، 31 مارچ کے سرکلر میں لکھاہے 5 رکنی بینچ کے فیصلےکی خلاف ورزی کی گئی تھی، مقدمات سماعت کے لیے مقرر نہ کرنے کے انتظامی حکم پرسرکلر آیا ہے، فیصلےمیں لکھا ہے مناسب ہوگا 184/3 کے مقدمات کی سماعت روکی جائے، عوام کا مفاد مقدمات پر فیصلے ہونے میں ہے نہ کہ سماعت مؤخر کرنے میں، فیصلے میں تیسری کیٹیگری بنیادی حقوق کی ہے، بنیادی حقوق تو 184/3 کے ہرمقدمے میں ہوتے ہیں۔
جسٹس منیب نے سوال کیا کہ کیا یہ آئینی درخواست نہیں ہے جس کے رولز بنے ہوئے ہیں؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ موجودہ مقدمے میں بنیادی حقوق کا ذکر ہے، موجودہ کیس جسٹس فائز عیسیٰ کے فیصلے کی تیسری کیٹیگری میں آسکتا ہے، 184/3 کے رولز بننے تک سماعت مؤخرکی جائے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پچھلے 3 دنوں سے سپریم کورٹ کے سینیئر ججز سے مشاورت کر رہا ہوں، یکم مارچ کا 2 پر 3 کے تناسب سے اکثریتی فیصلہ ہے، فیصلہ دیا ان ججز نے جنہوں نے کیس سنا تھا، سماعت کے بغیر کچھ ججز نے فیصلہ دے دیا کہ درخواستیں نہیں سنی جانی چاہئیں، جو ججز الگ ہوگئے ان کے فیصلے پرکیسے عمل درآمد ہوسکتا ہے؟
اٹارنی جنرل نےکہا کہ 4 ججز نے درخواستیں مسترد کیں، ان کا فیصلہ اکثریتی ہے،4 ججز کے فیصلے پر نظرثانی کرلی جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جن ججز نےکیس سنا ہی نہیں ان کا فیصلہ ملا کر اکثریتی فیصلہ کیسے ہوسکتا ہے؟ کیس سنے بغیر دیا گیا فیصلہ بہت محدود ہوتا ہے، سماعت کے بعد دیےگئے فیصلےکا الگ وجود ہوتا ہے، نظرثانی تب ہو جب وہ فیصلہ آپریشنل ہو، اس سےمتفق نہیں کہ یہ مقدمہ دیگر 184/3 کے مقدمات سے مختلف ہے، جسٹس فائز عیسیٰ کےفیصلے پر دستخط کرنے والے جج نے خودکوبینچ سےالگ کرلیا، کیسے ہوسکتا ہے فیصلہ لکھنے والے جسٹس فائز عیسیٰ مقدمہ سنیں؟جسٹس امین الدین خان نے فیصلے پرصرف دستخط کیے تھے، تمام 15 ججز مختلف آراء اپنانے پر ایک مقدمہ نہیں سن سکتے، آپ نے معاملہ فہم ہوتے ہوئے دوبارہ فل کورٹ کی استدعا نہیں کی، آپ کی زیادہ سے زیادہ استدعا لارجربینچ کی ہوسکتی ہے۔
اٹارنی جنرل نےکہا کہ لارجربینچ کی استدعا آگے جا کرکروں گا، ان صاحبان (سیکرٹری دفاع، سیکرٹری خزانہ) کو کچھ حساس معلومات دینی ہیں ، انہیں کچھ پریزنٹیشنز بھی دینی ہیں جو حساس نوعیت کی ہیں ، کیوں نہ سماعت ان کیمرا کر دی جائے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایسی صورت میں آپ ہمیں سیلڈ پیپرکاپی دیں ، کسی جج کوبینچ سے نکالا گیا نہ کوئی رضاکارانہ الگ ہوا، 9 ارکان نے چیف جسٹس کو معاملہ بھجوایا،27 فروری کے 9 ججز کے حکم نامے سے دکھائیں بینچ سےکون الگ ہوا؟ عدالتی ریکارڈ کے مطابق کسی جج نے سماعت سے معذرت نہیں کی، جسٹس فائز عیسیٰ کا حکم خوبصورت لکھا گیا ہے، فل کورٹ میٹنگ فائدہ مند ہوسکتی ہے لیکن فل بینچ نہیں، لارجر بینچ کے نکتے پر دلائل دینا چاہیں تو ضرور دیں۔
اٹارنی جنرل نے درخواست کی کہ جو ججز 9 رکنی بینچ کا حصہ نہیں تھے ان پرمشتمل بینچ بنایا جائے، تین دو اور چارتین کا فیصلہ باقی 2 ججز کو کرنے دیا جائے، موجودہ حالات بہت مشکل ہیں۔
اٹارنی جنرل نےانتخابات کے لیے سکیورٹی معاملے پر ان چیمبر سماعت کی استدعا کی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں سربمہر رپورٹس دے دیں ہم پڑھ لیں گے،ہم صرف فوج کی بات نہیں کر رہے، مسلح افواج میں ائیر فورس، نیوی بھی شامل ہیں، اگر ہماری فوج حساس جگہوں پر تعینات ہے تو ہمیں ان دو کے بارے میں بھی بتایا جائے، آرمڈ فورسز میں نیوی اور فضائیہ بھی شامل ہیں، اگرپاک آرمی کی نفری مصروف ہے تو دیگر سروسز سے اہلکار لیے جاسکتے ہیں، نیوی سمیت دیگر فورسز سکیورٹی کے لیے لی جاسکتی ہیں جو حالت جنگ میں نہ ہوں، ویسے بتادیں کہ الیکشن کے لیےکتنی سکیورٹی چاہیے؟ جو کچھ حساس چیزیں ہیں ان کو ان چیمبر سن لیں گے۔
سیکرٹری دفاع لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ حمود الزمان عدالت میں پیش ہوئے تو ان سے چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا پنجاب میں سکیورٹی صورتحال سنگین ہے؟ سیکرٹری دفاع نےکہا کہ پنجاب میں سکیورٹی سے متعلق ان چیمبر بریفنگ دیں گے، ہم نے کورٹ میں کچھ بولا تو دشمن معلومات لیک کرسکتا ہے، کچھ حساس معلومات ہیں جو چیمبر میں بتائیں گے۔
وکیل تحریک انصاف علی ظفر کا کہنا تھا کہ میری رائے میں ابھی سکیورٹی کا معاملہ چھوڑ دینا چاہیے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ انتخابات کے لیے سکیورٹی کون دے گا؟ وکیل علی ظفر نےکہا کہ الیکشن کے روز دیگر فورسز سے سکیورٹی لی جاسکتی ہے۔
چیف جسٹس نےکہا کہ حکومت کو یہ اعتماد کیسے ہےکہ 8 اکتوبرکو حالات ٹھیک ہوجائیں گے؟ وکیل علی ظفر نےکہا کہ الیکشن کمیشن کہہ چکا سکیورٹی اور فنڈز ملیں تو الیکشن کے لیے تیار ہیں، ریٹائرڈ آرمی کے جوان بھی سکیورٹی کے لیے لیے جاسکتے۔
چیف جسٹس نے سیکرٹری دفاع سے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس ریٹائرڈ جوان بلانےکا کوئی طریقہ کار ہے؟ سیکرٹری دفاع نے بتایا کہ ریٹائرڈ آرمی جوان ریزروفورس ہوتی ہے جنہیں مخصوص حالات میں بلایا جاتا ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ الیکشن میں ڈیوٹی کے لیے جنگجو فوجی نہیں چاہئیں، ریٹائرڈ آرمی جوان بھی سکیورٹی دے سکتے ہیں، پیرا ملٹری فورسز بھی سکیورٹی دے سکتی ہیں جو وزارت داخلہ کے ماتحت ہیں۔
سیکرٹری دفاع کا کہنا تھا کہ ریزرو فورس کی طلبی کے لیے وقت درکار ہوتا ہے، ریزرو فورس کی تربیت بھی کی جاتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فوج کی بڑی تعداد بارڈرز پر بھی تعینات ہے، الیکشن کل نہیں ہونے، پورا شیڈول آئےگا، جن علاقوں میں سکیورٹی صورتحال حساس ہے ان کی نشاندہی کریں، الیکشن کمیشن نے 45 فیصد پولنگ اسٹیشنز کو حساس قرار دیا ہے۔
عدالت نے سیکرٹری دفاع کو ہدایت کی کہ چندگھنٹوں بعد یا کل صبح تک رپورٹ دے دیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بری فوج مصروف ہے تو نیوی اور ائیرفورس سے مدد لی جاسکتی ہے، الیکشن کمیشن کہتا ہے 50 فیصد پولنگ اسٹیشنز محفوظ ہیں، فوج میں ہریونٹ یا شعبہ جنگ کے لیے نہیں ہوتا۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں کچھ وجوہات بتائی ہیں۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سیکرٹری کی علالت کے باعث ایڈیشنل سیکرٹری خزانہ نے رپورٹ جمع کرائی ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایڈیشنل سیکرٹری صاحب آپ نے آئی ایم ایف پروگرام کا بتایا ہے، آپ کرنٹ اکاؤنٹ اور مالیاتی خسارہ کم کر رہے ہیں، الیکشن کے لیے 20 ارب روپے چاہئیں، بتائیں کونسا ایسا پراجیکٹ ہےجو 20 ارب سےکم کا ہے، سنتے رہتے ہیں فلاں سڑک اور پراجیکٹ کے لیے اتنے ارب رکھ دیےگئے، علی ظفر نے بتایا کہ 170 ارب آپ فنڈز کی مد میں ایم این ایز کو دے رہے ہیں،
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ 20 ارب روپے آپ دیں تو کھربوں میں سے کتنے فیصد ہوگا؟ اگر 20 ارب دینے پڑجائیں تو کیاکھربوں روپےکے بجٹ والا ملک نہیں دےسکتا؟ فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ میں شاید کھربوں روپے پڑے ہوں گے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سیکرٹری خزانہ کےمطابق سود کی ادائیگی اور پیٹرولیم مصنوعات کاخسارہ بڑھ گیا، آپ ہم سے شروع کریں، اخراجات کم کیوں کم نہیں کرتے، تھوڑا تھوڑا کرکے اداروں کے اخراجات کم کریں، یہ پیٹ کاٹنے والی بات ہے، 5 فیصد اخراجات کم کریں کام ہوجائےگا۔
وکیل الیکشن کمیشن عرفان قادر نےکہا کہ آپ نے کیسے حکم پہلے دے دیا کہ الیکشن ہم نے کرانے ہیں، پہلے مجھ سن لیں کہ یکم مارچ کا فیصلہ چار تین کا ہے، کیا آپ نے فیصلہ کرنےکا پہلے ہی بتادیا ہے؟ چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ ہم نے کوئی فیصلہ پہلے سے نہیں کیا۔
اسد عمر کا کہنا تھا کہ میں سابق وزیر خزانہ ہوں، اس سال کا بجٹ خسارہ 4.9 فیصد ہے، 20 ارب الیکشن کے لیے دے دیے جائیں توبجٹ خسارے پر معمولی فرق آئےگا، اس سال کا ترقیاتی بجٹ 700 ارب روپے ہے، پہلے 8 ماہ میں 229 ارب روپے خرچ ہونے ہیں، ایم این ایز کو خصوصی فنڈز جاری کیے جائیں گے، آئینی ذمہ داری پوری کرنےکے لیے 20 ارب روپے نہ دینےکا بہانہ مذاق ہوگا۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نےکہا کہ حکومت نے 8 ماہ میں 229 ارب خرچ کیے، اس کا مطلب کٹ لگائےگئے ہیں، توجہ کہیں اور ہے، ترقیاتی بجٹ کم نہ کریں، غیرترقیاتی بجٹ کو کم کردیا جائے، حکومت معاشی بہتری کے لیے اچھے اقدامات کر رہی ہے۔
دوسری جانب 31 مارچ کی سماعت کے حکم نامے میں جسٹس جمال مندوخیل کی بینچ سے علیحدگی اور فل کورٹ بنانےکے حکومتی مطالبے کا ذکر ہی نہیں کیا گیا۔
سپریم کورٹ نے اپنے حکم نامے میں الیکشن کمیشن کی جانب سے عرفان قادر کا نام بطور وکیل بھی شامل نہیں کیا، مسلم لیگ ن کےوکیل اکرم شیخ اورپیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک کا نام بھی شامل نہیں کیا گیا۔
بشکریہ: جیو نیوز