کابل میں امن مذاکرات کا تیسرا دور: فاٹا انضمام پر ڈیڈلاک برقرار
محمد بلال یاسر
کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ارکان کے ساتھ شروع کئے گئے مذاکرات کا تیسرا دور اختتام کو پہنچا۔ مذاکرات کا یہ دور رواں سال مئی میں شروع ہوا تھا جب قبائلی اضلاع اور ملاکنڈ ڈویژن سے منتخب کردہ ایک جرگہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کے لیے کابل گیا تھا۔
دو روزہ مذاکرات کے بعد پیر کو صوبائی وزیر اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف کی قیادت میں قبائلی جرگہ کابل سے واپس آ گیا۔ اس بار جرگہ 12 ارکان پر مشتمل تھا۔ بیرسٹر محمد علی سیف کی قیادت میں کابل جانے والے وفد میں مولانا صالح شاہ، انجنیئر شوکت اللہ خان، بخت زمین، سینیٹر ہلال، جی جی جمال، سابقہ سینیٹر عبدالرحمان، ملک رافع خان، حاجی مستقیم، عبدالرازق آفریدی، اخونزادہ غلام نصیر مولانا عبدالرحمان، مولانا عصام الدین شامل تھے۔ بیرسٹر محمد علی سیف کی قیادت میں وفد کی افغان عبوری وزیر داخلہ سراج الدین حقانی سے بھی ملاقات ہوئی۔
یاد رہے کہ یہ جرگہ اسی روز افغان دارالحکومت کے لیے روانہ ہوا تھا جس روز پاکستان کے ممتاز مذہبی رہنماؤں کا ایک اور وفد افغانستان سے واپس آیا تھا۔ پاکستان کے نامور عالم دین مفتی محمد تقی عثمان، جو وفاق المدارس کے صدر بھی ہیں، کی قیادت میں ملک کے جید علمائے کرام شیخ القرآن مولانا محمد طیب طاہری، مولانا حنیف جالندھری، مولانا نور الحق سمیت اہم علمائے کرام نے بھی کابل میں تین روز گزارے اور ٹی ٹی پی کی قیادت کو مذاکرات پر قائل کرنے کی کوشش کی۔
پاکستان کے معروف انگریزی اخبار ”دی نیوز” کے مطابق جرگہ ممبران نے دو روزہ دورہ کابل کے دوران پاکستانی طالبان کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں میں زیادہ تر فاٹا کے انضمام پر بات چیت کی۔ جرگہ ممبران نے ان سے تفصیلی بات کی اور انہیں سمجھایا کہ فاٹا کی بحالی اتنا آسان نہیں ہے جتنا کہ بہت سے لوگوں نے سوچا ہے۔ جرگے کے ارکان کے مطابق، انہوں نے پاکستانی طالبان کے ساتھ سابقہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) کے انضمام اور ان کی پاکستان واپسی اور پھر ان کی آبائی علاقوں میں بحالی کے بارے میں تفصیلی تبادلہ خیال کیا اور انہیں قانونی پیچیدگیوں کے بارے میں بتایا۔
چند روز قبل کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے مفتی محمد تقی عثمانی کی قیادت میں پاکستانی علما کے وفد کے ساتھ کابل میں ہونے والے مذاکرات کے بعد تفصیلی بیان جاری کرتے ہوئے قبائلی اضلاع کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے حوالے سے اپنا موقف دہرایا کہ اسے قبائلی اضلاع کا انضمام کسی صورت قبول نہیں۔
میڈیا کو جاری کیے گئے سٹیٹمنٹ میں طالبان کا کہنا تھا کہ ہم ان علما کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ ملنے آئے لیکن ہم قبائلی اضلاع کی آزاد حیثیت کو واپس بحال کرنے کے مطالبے پر ڈٹے رہیں گے بلکہ جب جب ٹی ٹی پی کے ساتھ پاکستانی وفود نے ملاقات کی ہے تب تب اس نے اسی مطالبے کو دہرایا اور ہمیشہ اس مطالبے پر ڈٹی رہی کہ وہ قبائلی اضلاع کی آزاد حیثیت کے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔
رفعت اللہ اورکزئی جو گذشتہ دو دہائیوں سے شدت پسند تنظیموں کے حوالے سے رپورٹنگ کرتے ہیں اور ان امور پر انہیں کافی دسترس حاصل ہے، انہوں نے ٹی ٹی پی کے ساتھ جاری مذاکرات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ دونوں جانب سے مطالبات بہت بڑے ہیں، حکومت چاہتی ہے پاکستانی طالبان اپنا عسکری نیٹ ورک ختم کریں، دیگر عسکریت پسند تنظیموں سے علیحدگی اختیار کریں اور پاکستان واپس آنے سے پہلے ہتھیار ڈال دیں، لیکن وہ پاکستانی علمائے کرام اور قبائلی جرگے کے ساتھ بات چیت میں ان مطالبات پر قائم ہیں۔
انہوں نے مذاکرات کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے کئی سالوں میں یہ سب سے قابل اعتماد مذاکرات ہیں اور بہت مخلصانہ کوششیں ہو رہی ہیں مگر ٹی ٹی پی کی جانب سے فاٹا انضمام کے خاتمے کا مطالبہ بہت زیادہ مشکلات پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے، پاکستانی حکومت کیلئے اس مطالبے پر عملدرآمد بہت مشکل ہو گا کیونکہ پاکستانی میں سیاسی حالات غیرمستحکم ہیں، اس قانونی پیچیدگی کو ختم کرنے کیلئے پارلیمنٹ میں ٹو تھرڈ میجارٹی کی ضرورت ہے، آئینی ترمیم کیلئے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے، جب تک طالبان اس مطالبات سے پیچھے نہیں ہٹتے تو نئے الیکشن تک یہ مسئلہ حل ہونے کا نام نہیں لے گا، اسی طرح فاٹا مرجر کیلئے جو کوششیں ہوئی تھیں اور سیاسی پارٹیوں کی جو کوششیں تھیں ان کو رد نہیں کیا جا سکتا، اور اس کی ہر صورت میں مخالفت کریں گے مگر جب بھی مذاکرات کا آغاز ہوتا ہے مطالبات بہت بڑے بڑے ہوتے ہیں مگر پھر ان میں آہستہ آہستہ نرمی آتی جاتی ہے اور مذاکرات کامیابی کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اس لیے امید کی جا رہی ہے کہ یہ مسئلہ بھی ٹیبل ٹاک کے ذریعے حل ہو جائے گا مگر فی الحال یہ مسئلہ درد سر بنا ہوا ہے، مذاکرات کی کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ گفتگو اور اعتماد کی فضا کو برقرار رکھا جائے تاکہ قبائلی عوام پھر سے سکون کی زندگی گزار سکیں۔
اس سوال پر کہ کیا طالبان کے ساتھ ان تازہ ترین ملاقاتوں میں کوئی کامیابی ہوئی ہے، خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف کا کہنا تھا کہ وہ امن عمل سے ناامید نہیں ہیں، قبائلی اضلاع میں موجود پاکستانی قبائل طالبان کو اسلحہ کے ساتھ واپس جانے کی اجازت نہیں دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ عسکریت پسندوں کی بحالی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے لیکن اس وقت ہم نے فاٹا کے انضمام پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے جو ان کی بنیادی تشویش ہے۔
انہوں نے کہا کہ انضمام آئین میں ترمیم کے نتیجے میں ہوا اور یہ پارلیمنٹ ہی تھی جس نے قانون پاس کیا اور آئینی طور پر فاٹا کو خیبر پختونخوا کا حصہ قرار دیا۔