بلدیاتی نمائندوں کو یہ نہیں معلوم کہ ان کی ذمہ داری کیا ہے؟
محمد فہیم
خیبر پختونخوا میں بلدیاتی حکومتوں کے قیام کا عمل مکمل کر لیا گیا، 17 اضلاع کی 66 تحصیلوں کیلئے 19 دسمبر جبکہ 18 اضلاع کی 65 تحصیلوں کیلئے 31 مارچ کو پولنگ کا عمل مکمل ہو گیا۔ پہلے مرحلے کے منتخب چیئرمین و بلدیاتی نمائندوں نے 15 مارچ کو حلف لے لیا اور اپنا کام شروع کر دیا تاہم اپنا کام شروع کرنے کیلئے انہیں بنیادی طور پر ایک سوال کا سامنا ہے۔۔۔ کیا کام وہ کر سکتے ہیں؟ یعنی اب تک ان بلدیاتی نمائندوں کو یہ نہیں معلوم کہ وہ کیا کام کر سکتے ہیں اور انکی ذمہ داری کیا ہے۔
خیبر پختونخوا حکومت نے اپریل 2019 میں پرانے بلدیاتی نظام کو ازشر نو تبدیل کرتے ہوئے 60 سے زائد ترامیم لاتے ہوئے 110 سے زائد شقوں میں تبدیلی کر دی جس کے بعد نئے نظام کیلئے مختلف امور کے قوائد و ضوابط بھی تیار کرنا لازمی ہو گئے۔
جب بھی کوئی قانون منظور کیا جاتا ہے تو اس میں عمومی طور پر بنیادی باتیں شامل کی جاتی ہیں تاہم اس قانون پر عمل درآمد کیسے ہو گا اور کس کا کتنا اختیار ہو گا اس کی تفصیل اسی قانون کے ذیلی قواعد و ضوابط میں بیان کی جاتی ہے۔ بیشتر قوانین ایسے ہوتے ہیں جن کیلئے قواعد و ضوابط کا ایک ہی مسودہ منظور کر کے اس پر عمل درآمد شروع کر دیا جاتا ہے جبکہ چند قوانین کیلئے مختلف قواعد وضوابط منظور کرانا لازمی ہوتا ہے۔
خیبر پختونخوا کا لوکل گورنمنٹ ایکٹ بھی انہی قوانین میں شامل ہے جس کیلئے متعدد قواعد و ضوابط منظور کرانا لازمی ہے۔ اس ایکٹ کے تحت بلدیاتی انتخابات کرانے کے قواعد وضوابط منظور کرانے کے بعد ہی بلدیاتی انتخابات کرائے گئے اور اب اس حوالے سے انتہائی اہم سٹی و تحصیل اور ویلج و نیبرہڈ کونسلوں کو چلانے کے قواعد و ضوابط ہیں جن کو اب تک منظور نہیں کرایا جا سکا ہے۔ اس کے بعد فنانس اینڈ بجٹ اور پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کے قواعد و ضوابط بھی منظور کرانے ہیں تاہم کچھوے کی رفتار سے جاری پیش رفت سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ چند دنوں کا کام جو کئی مہینوں سے اٹکا ہوا ہے مزید کئی ماہ تک اٹکا رہے گا۔
پشاور کا معلق بلدیاتی نظام: آدھا تیتر آدھا بٹیر
نئے بلدیاتی نظام میں پشاور کو 7 تحصیلوں میں تقسیم کر دیا گیا جبکہ پرانے نظام میں پشاور کی سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ اور چار ٹاﺅنز تھے۔ سابق ایف آر پشاور کو اس نئے نظام میں پشاور کا حصہ بنا دیا گیا اور اس کی ایک تحصیل حسن خیل کے ساتھ ساتھ پشاور کی باقی 6 تحصیلیں؛ سٹی (کیپیٹل میٹرو پولیٹن)، متھرا، شاہ عالم، بڈھ بیر ، پشتخرہ اور چمکنی قائم کر دی گئیں لیکن یہ نظام بھی عجب ملغوبہ بن گیا ہے اور پشاور کا بلدیاتی نظام صوبائی حکومت کے گلے کی ہڈی بن گیا ہے۔
الیکشن کمیشن نے 7 تحصیلوں کے انتخابات کرائے جس کے بعد خدا خدا کر کے محکمہ بلدیات نے گریڈ 17 اور اس سے زائد افسران کی تقرری نئی ٹی ایم ایز اور پشاور کی کیپیٹل میٹروپولیٹن میں کر دی تاہم گریڈ 16 اور اس سے نیچے کا سٹاف تاحال ٹاﺅنز میں کام کر رہا ہے یعنی ایک ہی وقت پر پشاور میں دو الگ الگ نظام کام کر رہے ہیں۔
پشاور میں چند روز کے دوران صوبائی یونفائیڈ گروپس آف فنکشنریز یعنی پی یو جی ایف افسران کی تعیناتی کی گئی، پشاور کے تمام ٹی ایم ایز اور کیپیٹل میٹروپولیٹن گورنمنٹ میں تعیناتیاں کر دی گئیں، انہوں نے کام بھی شروع کر دیا ہے تاہم پشاور میں تمام ٹاﺅنز اب بھی فعال ہیں۔ گریڈ 16 اور اس سے نیچے کے تمام ملازمین آج بھی سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ اور ٹاﺅن کے ملازمین ہیں۔ اسی طرح آرکیٹیکٹ بھی ابھی تک پرانے نظام کے تحت کام کر رہے ہیں۔ پشاور میں دو بلدیاتی نظاموں کے اشتراک کو عجیب انداز میں چلایا جا رہا ہے جس پر محکمہ بلدیات کے ساتھ ساتھ محکمہ قانون اور اسٹبلشمنٹ نے بھی آنکھیں موند لی ہیں۔ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے تحت ٹاﺅنز اور سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کو ختم کیا جانا ہے جو اب تک نہیں کیا جا سکا ہے۔
لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں باقی ماتحت محکموں کی صورتحال
خیبر پختونخوا کے بلدیاتی نظام میں منتقل کئے گئے انتظامی محکموں کا معاملہ بھی لٹک گیا ہے۔ محکمہ خزانہ اور اسٹبشلمنٹ کی جانب سے بار بار یاد دہانی کے باوجود انتظامی محکمے اپنے ورک پلان مرتب نہیں کر سکے ہیں جس کی وجہ سے نئے بلدیاتی نظام کے نفاذ میں تعطل پیدا ہو گیا ہے ۔ 2019 کے ترمیمی ایکٹ میں ابتدائی و ثانوی تعلیم، سماجی بہبود، کھیل و امور نوجوانان، توسیع زراعت، واٹر مینجمنٹ، مٹی کے تحفظ، ماہی پروری، بہبود آبادی، دیہی ترقی، آبنوشی، کوآرڈینیشن، خزانہ و ترقی و منصوبہ بندی کے دفاتر بلدیاتی اداروں کو منتقل کئے گئے ہیں۔
ان 13 دفاتر میں صرف اور صرف ابتدائی و ثانوی تعلیم کا تحصیل سطح پر انتظام موجود ہے تاہم باقی کسی بھی دفتر کا تحصیل سطح پر انتظام موجود نہیں ہے۔ مذکورہ دفاتر کے انتظامی محکموں کو ایک برس قبل محکمہ خزانہ نے اپنے اخراجات اور درکار افرادی قوت کی تفصیلات ارسال کرنے کی ہدایت کی تھی تاہم اب تک چند محکموں کے علاوہ باقی تمام محکموں نے اپنا ہوم ورک مکمل نہیں کیا ہے جس کے باعث ان کا تحصیل سطح کا انتظام شروع ہی نہیں کیا جا سکا ہے اور عملی طور پر یہ ادارے بلدیاتی حکومتوں کے ماتحت کام نہیں کر رہے ہیں۔
قواعد و ضوابط کی منظوری کا معاملہ کابینہ کو ارسال
چند ہفتے قبل کابینہ میں انتہائی اہم قواعد وضوابط پیش کئے گئے تاہم بیوروکریسی یعنی پی ایم ایس اور سی ایس ایس پاس کر کے آنے والے افسران کی بلدیاتی افسران کے ساتھ اس نظام میں اختیارات کے معاملہ پر صورتحال سنگین ہو گئی اور بلدیاتی افسران نے بیوروکریسی کے ماتحت کام کرنے سے انکار کر دیا۔ کابینہ میں اس معاملہ پر بحث کی گئی اور وزراء کی ایک کمیٹی قائم کی گئی کہ وہ ان قواعد وضوابط کو بیوروکریسی اور بلدیاتی افسران کی رضامندی کے مطابق تیار کرے جس کے بعد اس میں تبدیلیاں کر دی گئی ہیں۔
ذرائع کے مطابق محکمہ بلدیات خیبر پختونخوا نے تحصیل و سٹی لوکل گورنمنٹ اور ویلج و نیبرہڈ کونسلوں کے قواعد و ضوابط منظور کرنے کیلئے کابینہ کو ارسال کر دیئے ہیں۔ کابینہ ارکان پر مشتمل کمیٹی نے قواعد و ضوابط میں تبدیلیوں کے بعد قواعد وضوابط محکمہ قانون سے منظور کراتے ہوئے اب کابینہ میں پیش کرنے کیلئے صوبائی حکومت کو ارسال کر دیئے ہیں۔ عید الفطر کے بعد ہونے والے کابینہ اجلاس میں اسے زیر بحث لانے کا امکان ہے۔
مختصر یہ کہ بلدیاتی نمائندے حلف لینے کے ڈیڑھ ماہ بعد بھی قواعد و ضوابط سے محروم ہیں اور انہی قواعد کی منظوری کے بعد ہی بلدیاتی نمائندے کام کر سکیں گے۔