سیاست

تحریک عدم اعتماد: اسلام آباد میں سیاسی کھیل پاور پلے میں داخل

محمد فہیم

اسلام آباد میں سیاسی کھیل پاور پلے میں داخل ہو چکا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں انتہائی پراعتماد ہیں تاہم دونوں ایک دوسرے کو اپنے مہرے اور چالیں دکھانے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ ایک جانب سیاسی پنڈت یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ اپوزیشن انتہائی تیاری کے ساتھ میدان میں اتری ہے تو دوسری جانب یہی سیاسی پنڈت یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ حکومت کے پاس دینے کیلئے بہت کچھ ہے لہٰذا اپوزیشن کو کھیل مہنگا پڑ سکتا ہے۔

اسلام آباد کا یہ انتہائی گرم سیاسی ماحول ماضی کے سیاسی ماحول سے کافی مختلف ہے۔ ماضی میں عام انتخابات کے بعد ڈرائنگ روم کی سیاست اگلے عام انتخابات تک چلتی رہتی تھی لیکن اس بار وزیر اعظم عمران خان نے اس دستور کو بھی تبدیل کر دیا ہے اور ڈرائینگ روم کا معاملہ وہ سڑکوں پر لے آئے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان کے مسلسل بڑے بڑے جلسوں میں انتہائی سخت لہجے اور مخالفین پر تنقید کے بعد اچانک سے ان کے لہجے میں نرمی پیدا ہو گئی ہے اور ان کے الفاظ اب انتہائی بہتر تصور کئے جا رہے ہیں۔ چند ماہرین اسے وزیر اعظم کی کمزوری ظاہر کر رہے ہیں اور کہہ رہے کہ ہیں کہ عمران خان کو معلوم ہو گیا ہے کہ معاملہ اب ان کے ہاتھ سے نکل گیا ہے جبکہ دوسری جانب چند ماہرین اسے حکومت کیلئے بہترین قرار دے رہے ہیں اور جتنا وقت گزر رہا ہے وہ حکومتی اتحاد کو مزید بہتر گردان رہے ہیں۔

مسلم لیگ ق اور مسلم لیگ ن کا اتحاد

وزیر اعظم عمران خان کی کرسی اس وقت اتحادیوں کی بدولت ہے، ان اتحادیوں میں سب سے زیادہ بااعتماد شیخ رشید ہیں جن کی ایوان میں ایک نشست ہے۔ اسی طرح گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی ایوان میں تین اور بلوچستان عوامی پارٹی کی 5 نشستیں ہیں۔ ان تینوں جماعتوں سے حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن حکومت کے باقی اتحادی اس وقت تذبذب کا شکار ہیں جن میں سب سے زیادہ فائدہ میں رہنے والی جماعت مسلم لیگ ق ہے۔

اس وقت مسلم لیگ ق کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہے۔ قومی اسمبلی میں 4 جنرل اور ایک خاتون نشست کی حامل مسلم لیگ ق کے پاس دو اہم وزارتیں ہیں؛ چوہدری طارق بشیر چیمہ ہاؤسنگ اینڈ ورکس اور مونس الہٰی آبی وسائل کے وزیر ہیں۔

پنجاب میں مسلم لیگ ق کے 10 ارکان ہیں جن میں 8 جنرل اور دو مخصوص نشست پر خواتین ارکان اسمبلی ہیں۔ مسلم لیگ ق کے چوہدری پرویز الہٰٰی اس وقت پنجاب اسمبلی کے سپیکر جبکہ مسلم لیگ ق کے محمد رضوان صوبائی وزیر برائے ماحولیات اور مسلم لیگ کے حافظ عمار یاسر صوبائی وزیر برائے معدنیات ہیں۔

انتہائی قلیل نمائندگی پر اس وقت مسلم لیگ ق کو جو نمائندگی میسر ہے اس حوالے سے سینئر صحافی شہزاد انور فارقی کہتے ہیں کہ شاید مسلم لیگ ن انہیں اتنی بڑی مقدار میں نمائندگی نہ دے سکے، اسی طرح مسلم لیگ ق اور مسلم لیگ ن کا تعلق ماضی میں انتہائی خراب رہا ہے اور دونوں جماعتیں ایک دوسرے کیخلاف نبردآزما رہی ہیں اور مسلم لیگ ق کیلئے شاید ن لیگ سے زیادہ تحریک انصاف زیادہ بااعتماد ساتھی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ مسلم لیگ ق اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں ہے اور حکومت سے جو چاہے منوا سکتی ہے اور شاید اندرون خانہ معاملات بھی کچھ ایسے ہی چل رہے ہیں، حکومت کے پاس وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے اور مسلم لیگ ق اس وقت جس پوزیشن میں ہے وہ ایک ان دیکھی پوزیشن سے کئی گنا بہتر ہے، اپوزیشن حکومت گرانے کے بعد مسلم لیگ ق کے ساتھ کئے گئے وعدے کتنے ایفا کرے گی، کون جانتا ہے؟ لیکن تحریک انصاف فوری طور پر مسلم لیگ ق کو کچھ بھی دینے کیلئے تیار ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ اور پیپلز پارٹی کا اتحاد

سندھ کے میدان جنگ کو ہمیشہ سے پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کی آپسی چپقلش سے ایندھن میسر آیا ہے اور گزشتہ تین عام انتخابات سے یہ مقابلہ متحدہ قومی موومنٹ بمقابلہ پیپلز پارٹی رہا ہے۔ گزشتہ عام انتخابات میں معاملات کچھ مختلف رہے ہیں اور تحریک انصاف نے سندھ میں انٹری کر دی ہے، تحریک انصاف سب سے زیادہ شہری علاقوں میں مقبولیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے جس کا نقصان براہ راست متحدہ قومی موومنٹ کو ہوا ہے تاہم موجودہ سیاسی صورتحال میں متحدہ قومی موومنٹ کی اہمیت بھی اچانک سے بڑھ گئی ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ کی قومی اسمبلی میں 7 نشستیں ہیں جن میں 6 جنرل اور ایک خاتون کی مخصوص نشست ہے جبکہ کابینہ میں ایم کیو ایم کو صرف ایک وزارت دی گئی ہے اور سید امین الحق وفاقی وزیر سائنس اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے طور پر کام کر رہے ہیں ۔بظاہر متحدہ قومی موومنٹ کے پاس زیادہ کھونے کیلئے کچھ نہیں ہے تاہم کیا وہ اپوزیشن اتحاد پر اعتماد کر سکتی ہے؟

سینئر صحافی ضیاء الرحمن کہتے ہیں کہ متحدہ قومی موومنٹ اور پیپلز پارٹی کی دوریاں کم ہو گئی ہیں، سندھ میں یہ دونوں مخالفین ہی سہی لیکن تیسرے فریق کو درمیان سے نکالنے اور وفاق کی بنیاد پر سندھ میں فائدہ لینے کیلئے متحدہ قومی موومنٹ کے پاس سنہری موقع ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری براہ راست متحدہ قومی موومنٹ سے مذاکرات کر رہے ہیں اور اندرون خانہ یہ بات نکل رہی ہے کہ معاملات طے پا گئے ہیں جن کے تحت متحدہ قومی موومنٹ کو سندھ کی گورنرشپ دی جائے گی۔

اسی طرح سندھ میں ایک مضبوط بلدیاتی نظام کیلئے صوبائی اسمبلی سے منظوری بھی صرف اور صرف پیپلز پارٹی ہی دلوا سکتی ہے جبکہ متحدہ قومی موومنٹ کے کوٹہ سمیت دیگر کئی اہم مطالبات بھی صوبائی حکومت کے دائرہ اختیار میں ہیں جو پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کی قربت بڑھانے کیلئے کافی ہیں۔

دباؤ میں کھیلنے والے کو مزید دباؤ کا سامنا

وزیر اعظم عمران خان بطور کرکٹر بھی دباؤ میں کھیلنے کو ترجیح دیتے ہیں اور وہ ہمیشہ دباؤ میں زیادہ بہتر کھیل پیش کرتے ہیں تاہم اس بار دباؤ کافی مختلف ہے، وزیر اعظم عمران خان اب بنی گالہ اور وزیر اعظم ہاؤس تک محدود نہیں ہیں بلکہ اتحادیوں کو منانے کیلئے میدان میں نکل آئے ہیں۔

اسلام آباد کی سنیئر صحافی ڈاکٹر سادیہ کمال کہتی ہیں کہ اپوزیشن اب تک اپنے ہر قدم کو انتہائی سوچ سمجھ کے ساتھ رکھ رہی ہے اور بظاہر وزیر اعظم عمران خان ان کا دباؤ بھی محسوس کر رہے ہیں، اپوزیشن اپنے ساتھیوں کے ساتھ ساتھ حکومت کے اتحادیوں پر کام کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے لیکن وزیر اعظم اس خطرناک صورتحال میں خود کو دھکیلتے جا رہے ہیں جہاں سے ان کیلئے نکلنا مشکل ہو گا۔

اس وقت نہ صرف موجودہ حکومت کیلئے مشکلات بڑھ رہی ہیں بلکہ تحریک انصاف گراؤنڈ پر بھی کمزور ہو رہی ہے، تحریک انصاف عوامی مسائل اجاگر کرنے کی بجائے ایسی زبان استعمال کر رہی ہے جو کسی کو بھی قابل قبول نہیں ہے اور یہی زبان ان کیلئے مسائل بڑھا رہی ہے، حکومتیں جلسے نہیں کرتیں بلکہ وہ طریقے سے معاملات سلجھاتی ہیں اور ڈلیور کرتی ہیں لیکن اس بار ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ عمران خان شدید دباؤ میں ہے اور وہ جو قدم بھی اٹھا رہے ہیں وہ شدید دباؤ کے تحت ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button