تعلیم

"قوتِ سماعت و گویائی سے محروم بونیر کے 14 سالہ حیدر نصیب کے امتحان ابھی باقی ہیں”

عظمت حسین

"ایک مشکل کو عبور کرتے ہیں تو ایک اور سامنے کھڑی ہوتی ہے۔ میری اور میرے بچے کی ہمت توڑنے کے لیے حکومتی  اور معاشرتی سطح پر بے شمار مشکلات ہمیشہ سے موجود ہیں۔ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتں۔” یہ کہنا تھا حیدر نصیب کے والد نصیب یار کا جو گذشتہ آٹھ برسوں سے اپنے بیٹے کو ایک بامقصد زندگی کی طرف لے جانے میں مصروف عمل ہیں۔

حیدر نصیب قوت سماعت و گویائی سے محروم بچہ ہے جس کا تعلق ضلع بونیر کی تحصیل چغرزی کے  گاؤں انذرمیرہ سے ہے۔ ان کے والد نصیب یار چغرزی نے اپنے بیٹے کی تعلیم میں حائل رکاوٹوں اور ان کی ہمت بھری کہانی بیان کرتے ہوئے کہا کہ حیدر نصیب میرا وہ بچہ جو کچھ صلاحیتوں کی کمی ہونے کے باوجود علم و ہنر سیکھنے کی تڑپ رکھتا ہے، آگے بڑھنا چاہتا ہے، کچھ بن کے دکھانا چاہتا ہے، اپنی تعلیم و تربیت کے حوالے سے بہتر انتظام نہ ہونے کے باوجود بھی  وہ مسلسل اپنی تعلیم کے لئے کوشاں ہے۔

حیدر نصیب کے والد نصیب یار چغرزئی کا تعلق صحافت سے ہے اور کئی معروف اداروں کے ساتھ بونیر سے بحیثیت نمائندہ و بیورو چیف کام کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے بچوں کے حوالے سے بتایا کہ میرے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں اور ان میں سے حیدر نصیب سب سے بڑا ہے، وہ شروع ہی سے خداداد صلاحیتوں کا مالک اور ہر وقت کچھ نہ کچھ کرنے یا بنانے میں مصروف رہتا ہے، جب اس کی بہنیں اور بھائی عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ سکول جانے لگے تو انہیں دیکھ کر اس کے من میں بھی سکول جانے کا خیال آتا تھا اور مجھ سے بار بار کہتا کہ مجھے بھی سکول میں داخل کراؤ پر میں کیسے اس کو سمجھاتا کہ عام بچے جن سکولوں میں جاتے ہیں وہ وہاں نہیں پڑھ سکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ بیٹے کو سمجھانے کے لئے میں نے اس کو دیگر بچوں کے ساتھ سکول بھیجنا شروع کیا تو کئی دن جانے کے بعد مجھ سے کہنے لگا کہ مجھے تو وہاں کچھ سمجھ نہیں آ رہا تب میں نے سمجھایا کہ بیٹا! آپ جیسے بچوں کے لئے الگ سکول ہوتے ہیں جہاں انہیں مخصوص طریقوں سے پڑھایا جاتا ہے، اس کی سمجھ میں بات آ گئی تو سپیشل ایجوکیشن والے سکول میں جانے کی ضد شروع کی، میں نے اس کے لئے بہت کوشش کی کہ بونیر میں سکول کا انتظام ہو جائے، ایک سکول دو ہزار سولہ میں شروع ہوا جس میں اس وقت 72 بچے زیر تعلیم تھے جو کہ قوت سماعت و گویائی سے محروم تھے، چونکہ وہ سکول اینوول ڈیویلپمنٹ پلان کے فنڈ سے چلتا تھا اور کرایہ بلڈنگ میں تھا تب دو ہزار اٹھارہ کے بجٹ میں پی ٹی آئی حکومت نے اس کے لئے فنڈز مقرر نہیں کیے جس کے باعث سکول کو چلانا ناممکن ہو گیا اور مجبوراً سکول بند ہو گیا، ہم نے اس سکول کو دوبارہ شروع کرانے کی بہت کوششیں کیں، ڈپٹی کمشنر سے ملے، ایم پی ایز سے ملے اور سوشل ویلفیئر افیسر کے ساتھ رابطے میں رہے لیکن تمام کوششیں بے سود رہیں۔

نصیب یار نے کہا کہ میں اپنے بچے کے مستقبل کو تاریکی میں دھکیلنا نہیں چاہتا تھا اسی لئے میں نے دیگر اضلاع کا رخ کیا، میں نے سوات، پشاور، مردان اور ڈیرہ اسماعیل خان کے تعلیمی اداروں کے دورے کئے تو پتہ چلا کہ پورے صوبے میں صرف دو سکول ایسے ہیں جن کے ساتھ ہاسٹل کی سہولت موجود ہے، ایک مردان میں اور دوسرا ڈیرہ اسماعیل خان میں ہے لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ  ان دو سکولوں میں بھی صرف 40 بچوں کے رہنے کی گنجائش ہے۔ چونکہ مردان بونیر کو نزدیک پڑتا ہے اسی لئے میں نے وہاں کے ڈپٹی کمشنر کے ذریعے کسی نہ کسی طریقے سے حیدر کو داخل کروایا۔ لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ مردان سپیشل ایجوکیشن کمپلکس میں ہر اتوار کو ہاسٹل کی چھٹی ہوتی ہے، اب یہ تو بچے ہیں جن کو کسی نہ کسی جسمانی کمی کا سامنا ہے تو ہمیں یہ فکر رہتی ہے کہ کیسے جائیں گے؟ کیسے آئیں گے؟ بول نہیں سکتے، سن نہیں سکتے، ڈرائیورز کا رویہ ان کے ساتھ عموماً ٹھیک نہیں ہوتا کبھی کبھار تو گاڑی والے ان کو مارتے بھی ہیں یا کرایہ زیادہ لیتے ہیں۔

اسی طرح کے ایک واقعے کے بارے میں نصیب یار نے بتایا کہ ایک دن جب حیدر سکول سے گھر آیا تو رو کر کہنے لگا کہ میں نے واپس سکول نہیں جانا، میں نے پوچھا کیوں تو کہنے لگا کہ ڈرائیور نے مجھ سے 170 روپے کرایہ کی بجائے 400 روپے لئے اور جب  میں نے بقایا مانگنے کی کوشش کی تو  اس نے گالی گلوچ کی اور مجھے مارا۔ میں نے حیدر سے پوچھا کہ آپ کو گاڑی کا نمبر وغیرہ یاد ہے تو کہا کہ مجھے نہیں پتہ۔ اب میں نے اس کو یہ بھی سمجھایا کہ گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے گاڑی کا نمبر لکھا کرو یا موبائل میں تصویر بنا کر مجھے بھیجا کرو تاکہ بعد میں پہچاننے میں مسئلہ نہ ہو۔

نصیب یار چغرزئی

ایک اور واقعے کے بارے میں بتایا کہ چیک پوسٹ پر پولیس نے بہت تنگ کیا کہ آپ کے پاس کارڈ نہیں ہے اسی بہانے بہت دیر تک ادھر کھڑا کیا پھر اسے چھڑانے کے لئے مجھے کال کرنا پڑی،  تو اس وجہ سے بھی وہ اکثر فکر مند رہتا ہے۔

نصیب یار نے بونیر میں سپیشل ایجوکیشن کے لئے بہت کوششیں کی ہیں اور مختلف نجی و فلاحی اداروں کے دورے بھی کیے۔ اس کا اعتراف خود دعوت اسلامی پاکستان کے ضلعی نگران برائے ضلع بونیر حمزہ منیر نے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ دعوت اسلامی کا ذیلی ادارہ فیضان گلوبل ریلیف فاونڈیشن پاکستان کے ساتھ ساتھ دنیا کے مختلف ممالک میں کام کر رہا ہے۔ نصیب یار سے ان کی پہلی ملاقات شعبہ صحافت کے تحت منعقدہ دورہ میں ہوئی جہاں انہیں مختلف شعبہ جات کا دورہ کرایا گیا جس میں ایک خصوصی بچوں کا شعبہ بھی تھا جس میں نصیب یار نے دلچسپی لی، فاؤنڈیشن کے بڑوں کے ساتھ بات ہوئی، انہوں نے بونیر کا وزٹ کیا، بچوں کے والدین سے ملے اور سکول کے حوالے سے پیش رفت ہوئی۔ اب تقریباً تمام انتظامات تکمیل کے مراحل میں ہیں، پختونخوا میں یہ اس نوعیت کا پہلا سکول ہو گا جس کا سہرا نصیب یار کے سر جاتا ہے۔

فیضان گلوبل ریلیف فاؤنڈیشن کے شعبہ سپیشل ایجوکیشن کے ضلعی نگران کا کہنا ہے کہ اس سکول میں ابتدائی طور پر بچوں کو پڑھائی، لکھائی کا عمل سکھایا جائے گا جو کہ سرکاری نصاب کے مطابق ہو گا، اگلے مرحلے میں ری ہیبیلیٹیشن سنٹر بھی قائم کیا جائے گا جہاں ذہنی طور پر کمزور افراد کا علاج کیا جائے گا۔

بونیر کے مرکزی بازار سواڑی سے تعلق رکھنے والے محمد غنی بھی بونیر کے بند ہونے والے سکول کے متاثرین میں شامل ہیں جس سے ان کی بچیاں متاثر ہو کر گھر بیٹھ گئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میری دو بچیاں قوت سماعت و گویائی سے محروم ہیں، بڑی 15 سال جبکہ چھوٹی اب 12 سال کی ہے۔ دونوں بچیوں نے سواڑی میں قائم سکول میں دو سال تک بہت کچھ سیکھا تھاِ نماز اور مسنون دعائیں یاد کی تھیں اور ان کی تربیت میں بھی نمایاں فرق آیا تھا، لیکن سکول بند ہونے کے بعد سب کچھ ادھورا رہ گیا اور یوں محسوس ہوا جیسے کسی نے میری بیٹیوں کو تاریک کنویں میں پھینک دیا ہو۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ صوبہ میں کسی بھی سکول کے ہاسٹل میں بچیوں کے لئے انتظام موجود نہیں ہے ہم اگر اپنے تمام وسائل لگا کر ان کو پڑھانا چاہیں بھی تو اپنی بچیوں کو پڑھا نہیں سکتے اور اسی بوجھ تلے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔

انہوں نے حکومت وقت اور دیگر صوبائی و قومی فلاحی اداروں اور مخیر افراد سے سوال کیا کہ کیا یہ ان کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ  پسماندہ علاقوں کے ان بچے بچیوں کے مستقبل کے بارے میں اقدامات اٹھائیں؟ کیا یہ حکومتی اداروں کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ ہمارے بچوں کے تاریک مستقبل کو روشن کریں؟

بونیر میں لوکل سطح پر کام کرنے والی زیادہ تر سماجی فلاح وبہبود کی تنظیمیں معذوری کی تعلیم وتربیت کے حوالے سے غیرفعال ہیں۔ فلاحی ادارے الخدمت فاؤنڈیشن ضلع بونیر کے صدر شاہ روم اپنی تنظیم کی کارکردگی بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم نے ابھی تک ایسے  بچوں کی تعلیم کے لئے پائیدار اقدامات نہیں اٹھائے تاہم ان کے لئے وظائف، وہیل چیئرز اور ہیئرنگ ڈیوائسز کا انتظام کیا ہے۔ اس کے علاوہ یتیموں کی کفالت کا ایک وسیع پروگرام پہلے سے بھی موجود ہے اور اب ان کے لئے خصوصی طور پر بونیر میں تور ورسک کے مقام پر "آغوش سنٹر” کا قیام جاری ہے جس پر کام تکمیل کے آخری مراحل میں ہے جن میں دو سو بچوں کے رہنے کی گنجائش ہو گی۔ ان کے مطابق مستقبل قریب میں سپیشل ایجوکیشن کمپلکس بھی ہمارے پلان کا حصہ ہے جس پر میٹنگز جاری ہیں اور بہت جلد اسے عملی جامہ پہنایا جائے گا۔

بونیر کے واحد اسپیشل ایجوکیشن سکول (جو کہ 2018 میں بند بھی ہو چکا ہے) کے اس وقت کے پرنسپل و سکالر محمد اقبال تھے جو کہ بصارت سے محروم ہیں اور مختلف قومی و بین الاقوامی سپیشل تنظیوں کے رکن ہیں۔ اپنی ماہرانہ رائے  دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہمارا معاشرہ ایسے افراد کو یا تو سپر ہیرو بنا دیتا ہے یا مکمل بے بس و لاچار انسان تصور کرتا ہے جو حقیقت کے الٹ ہے، معذوروں کو عام افراد کی ہی طرح ٹریٹ کرنا چاہیے ان کو معاشرے کی بہتر مجموعی سوچ درکار ہوتی ہے جو ان پر ترس نہ کھائے بلکہ سپورٹ کا ایسا نظام بنا دے جس کی وجہ سے یہ خود اپنی زندگی گزارنے کے اہل ہو جائیں۔ ہماری مثبت سوچ اور رویے اصل میں ان کی زندگی میں تبدیلی لانے کا سبب بنیں گے۔

محمد اقبال نے کہا کہ اگر معذوروں کو بہتر سپورٹ سسٹم دیا جائے تو معاشرے سے بے پناہ بوجھ ہٹ جاتا ہے۔ انہوں نے کہا ریسرچ نشاندہی کرتی ہے کہ جب ایسے بچے سکول جاتے ہیں تو 2 سے 5 فیصد بوجھ معاشرے سے کم ہو جاتا ہے اور سکول کے منافع میں بیس سے پچیس فیصد اضافہ ہو جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں زیادہ تر لوگ اس سے بے خبر ہیں جب یہ بچے سکول نہیں جاتے تو گھر کے ساتھ ساتھ معاشرے پر بھی بوجھ بن جاتے ہیں۔

انہوں نے پاکستان میں خصوصی افراد کی رجسٹریشن کے طریقہ کار پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق دنیا میں 15 فی صد لوگ معذوری کا شکار ہیں لیکن میرے خیال میں ہمارے معاشرے میں یہ شرح اس سے بھی زیادہ ہے اور وہ اس لئے کہ یہاں معذوری کی تعریف غلط کی گئی ہے کیونکہ یہاں جب ڈیٹا جمع کیا جاتا ہے تو پوچھا جاتا ہے کہ آپ معذور ہیں یا آپ کو کیا معذوری ہے؟ تو اکثر عورتوں کے گھر والے شادی بیاہ کے ڈر سے ان کی رجسٹریشن نہیں کرواتے، رجسٹریشن کا طریقہ کار مشکل ہے اور عمر کے ساتھ تبدیلی کو معذوری تصور نہیں کیا جاتا تو اس حساب سے اگر ڈیٹا کو دیکھا جائے تو تقریباً 30 فی صد لوگ رجسٹرڈ جبکہ 70 فی صد لوگ اب بھی رجسٹریشن کے عمل سے باہر ہیں۔

معذوری کی بین الاقوامی تعریف کے مطابق ایسے افراد جنہیں کسی طویل المیعاد جسمانی، ذہنی یا حسیاتی کمزوری کا سامنا ہو جس کی وجہ سے انہیں معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنے میں رکاوٹ پیش آتی ہو انہیں معذور کہا جائے لیکن پاکستان میں معذور ان کو کہا اور سمجھا جاتا ہے جو کہ جسمانی یا ذہنی لحاظ سے جسم کے کسی حصے سے محروم ہوں اور وہ ان کے روزمرہ کے کاموں میں رکاوٹ کا سبب بنے۔

 انہوں نے ضلعی منتخب نمائندگان، سوشل ویلفیئر کے اداروں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا والدین کے لیے یہ انتہائی مشکل مرحلہ ہوتا ہے خاص کر ایک ماں اور باپ کے لئے کہ وہ اپنے بچے کو معذوری میں اپنے آپ سے دور کریں جبکہ وہ نہ بول سکتا ہو، نہ سن سکتا ہو اور چھوٹا بھی ہو۔ اسی لئے یہ حکومت کی ذمَہ داری ہے کہ بونیر ضلع میں 2016 میں بنائے گئے سکول کو سوشل ویلفیئر بلڈنگ گاگرہ میں دوبارہ شروع کیا جائے اور دیگر بچَوں کے ساتھ ساتھ ان خصوصی بچَوں کے حقوق کا بھی خیال رکھا جائے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ صوبائی حکومت اسپیشل چلڈرن کے لیے مخصوص تعلیمی ادارے قائم کرے تاکہ بحیثت پاکستانی شہری وہ ملک کی ترقی میں اپنا بھرپور کردار سر انجام دے سکیں۔ ہمارا آئین تمام شہریوں کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے اور اس کے ساتھ بچوں کی تعلیم اور وہ بھی پانچ سے سولہ سال کے بچوں کی فری تعلیم کے لیے اقدامات کرنے کے لیے اختیار بھی دیتا ہے۔

قانون کیا کہتا ہے؟

کنونشن ود دی رائٹس آف پرسنز ود ڈس ایبیلیٹی کا آرٹیکل 23 ہوم اینڈ فیملی کیئر کے متعلق ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ایسے بچوں کو فیملی سپورٹ کی ضرورت ہے اور ہم اسے ہاسٹل میں ڈال کر نفسیاتی دباؤ کا شکار کر دیتے ہیں یہی آفس فار دی ہیومن رائٹس پرسنز ود ڈس ایبیلیٹی (او ایچ سی ایچ آر) کی رپورٹس میں بھی بتایا گیا ہے کہ ہاسٹل میں بچوں کو پیار تو ملتا ہے لیکن ان کو پیرنٹل سپورٹ نہیں ملتی ان کو پیار تو ملتا ہے جس سے بچے مارجنلائز ہو کر نفسیاتی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ آرٹیکل 19 میں اسے آزادانہ طور زندگی گزارنے اور کمیونٹی سروسز کی بات کی گئی ہے کہ ان بچوں یا افراد کو زیادہ سے زیادہ سپورٹ سروسز دی جائے۔ اسی طرح آرٹیکل 5 میں ایکوالیٹی اینڈ نان ڈسکریمنیشن، آرٹیکل 9 اکسس ایبیلٹی، آرٹیکل 11 ایمرجنسی صورتحال بارے، آرٹیکل 12 لیگل کیپسیٹی کے بارے میں مثلاً جائیداد یا دیگر پراپرٹی میں حصے کے بارے میں، آرٹیکل 19 کمیونٹی سروسز، آرٹیکل 20 پرسنل موبیلیٹی، آرٹیکل 24 ایجوکیشن، آرٹیکل 25 ہیلتھ، آرٹیکل 26 ری ییبیلٹییشن، آرٹیکل 27 سوشل پروٹیکشن جبکہ 28 میں ایمپلائمنٹ کے بارے میں بتایا گیا ہے۔

3 مارچ ہر سال ورلڈ ہیئرنگ ڈے کے طور پر منایا جاتاہے۔ اسی دن کی مناسبت سے ای این ٹی اور پلاسٹک اینڈوسکوپک سرجن ڈاکٹر قادر خان نے والدین کے نام پیغام دیتے ہوئے کہا کہ وہ خواتین جو حاملہ ہوں ان کو دوران حمل قطعاً اپنے آپ سے دوائیاں استعمال نہیں کرنی چاہئیں بلکہ ہمیشہ ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق دوا استعمال کرنی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ بہت سی ایسی دوائیاں ہیں جو کہ دوران حمل بچے کی قوت سماعت کو کمزور کر سکتی ہیں جس کا خمیازہ بعد میں اٹھانا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ مائیں جو بچوں کو دودھ پلاتی ہیں انہیں بھی کبھی لیٹے ہوئے بچوں کو فیڈ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس سے منہ سے کانوں کی طرف جانے والی نالیوں میں ریشہ جانے کا خطرہ ہوتا ہے اور اس سے بچوں کے کانوں میں پیپ اور بعد میں خون آنا شروع ہو جاتا ہے جو کہ انتہائی خطرناک اور سماعت سے محرومی کا بھی سبب بن سکتا ہے۔ عوامی آگہی کے لئے انہوں نے کہا کہ کانوں کی صفائی کے لئے گھریلو ٹوٹکے استعمال کرنے سے گریز کریں اور چابی یا دیکر نوکیلی اشیاء کے بجائے مستند ڈاکٹر سے اپنا معائنہ کریں اور جدید آلات سی صفائی کریں تاکہ سماعت متاثر نہ ہو۔ اس کے علاوہ شوگر والے مریض، انڈسٹری میں کام کرنے والے لوگ، مستقل سماعت سے محروم افراد بروقت اپنا معائنہ کر کے علاج کو یقینی بنائیں۔

ضلع بونیر کے واحد سپیشل ایجوکیشن سکول کی بندش اور نئے سکول کھولنے کے حوالے سے اقدامات اٹھانا حلقہ سے منتخب ممبر صوبائی اسمبلی کی ذمہ داری ہے۔ ممبر صوبائی اسمبلی سے ان کا موقف جاننے کے لئے رابطہ کیا تو ان کی طرف سے کسی قسم کا کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یکساں نظام تعلیم تو دور کی بات خیبر پختونخوا میں قائم پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے بنیادی طور پر عوام کو "یکساں انسان” ہی تسلیم نہیں کیا جو کہ لمحہ فکریہ ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button